عورت نہیں یہ تو گوشت کا لوتھڑا ہے


بازار حسن کے اندر یا باہر عورت کی اوقات میں خاص فرق نہیں۔ دونوں دنیاؤں میں ہی عورت گوشت کا وہ ننگا لوتھڑا ہے جس میں زندگی کی صورت میں ٹپکتا خون ہر سو درندوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا رہتا ہے۔ درندہ کوئی بلونگڑا ہی کیوں نہ ہو، اس سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ درندگی کا عنصر کم رہے گا یا بڑھے گا۔

بلونگڑے کو بھی معلوم ہے کہ گوشت ہو تو اس کو چیرنا پھاڑنا کیسے ہے۔ چیر پھاڑ بھی تو معاشرے کی تشکیل کردہ فطرت میں ہے جو عورت کی متواتر جاری رہتی ہے۔

گزشتہ روز، میٹرو بس ایک اسٹاپ پر ٹھہری، جہاں کم عمر طالبہ پر نویں یا دسویں جماعت کا لڑکا چیخ چلا رہا تھا۔ بآسانی معلوم ہوتا تھا کہ کم عمر طالبہ کو وہ لڑکا ہراساں کر رہا تھا، وہ اس قدر بد معاشی اور بد تمیزی کا مظاہرہ کرتا رہا کہ لڑکی اس پر یہ کہہ کر چلانا شروع ہوئی کہ وہ اپنی بد کلامی بند کرے۔ اس وقت اس اسٹاپ پر پندرہ سے بیس افراد اور سکیورٹی اہلکار موجود تھے، جن میں سے ایک بھی اتنی سکت نہ رکھتا تھا کہ بدمعاشی کرتے اس لونڈے کی زباں کو قفل لگاتا۔

گالیاں، دھمکیاں، ہراسانی کو دیکھتے جب میں نے اور میرے ساتھ میری عزیزہ نے اس لڑکے کو منہ بند رکھنے اور حدود میں آنے کا کہا، جب ہی اس نے ہم پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی۔ اس لڑکے کی عمر ہماری تعلیم سے بھی کم تھی، مگر اس کے اندر دہکتا عورت دشمنی کا الاپ تھا کہ جلتا رہا۔

مرد کی عورت پر جسمانی، سماجی، روایتی برتری کا جھوٹ تھا کہ اس کے اندر سمندر کی مانند مچل رہا تھا۔ آخر کسی عورت کی جرات بھی کیسے ہوئی کہ ایک بد معاش اور جرم کرتے لڑکے پر جواباً کارروائی کرے، اس کو بیچ مجمع کے اوقات اور حدود میں رہنے کی تنبیہ اور جسارت کرے۔ جس قدر وہ اس معصوم طالبہ پر بد زبانی اور ہراسانی کی تمام حدود پار کر رہا تھا، اسی لہجے میں اس کو چپ رہنے کا کہا گیا تو اس کی پروان چڑھتی جارحانہ شخصیت کو برداشت نہ ہوا۔ تشدد کرنے کے غاصبانہ تمام الاؤ پدر سری کی لگائی جہنم میں جل رہے تھے۔

عورت کی کم تری کا پکایا ہویا روایتی سالن اس بد لحاظی اور ہتک آمیز متشدد دیگ میں پکتا رہا۔ عورت کی اوقات کیا کہ اپنے مجرم کی زبان تک کھینچ دے یا مجرم جو جرم کا ذمہ دار بھی کہے؟ اس ہراسانی کرتے لڑکے میں اس قدر منفی اعتماد تھا کہ وہ اس کے مد مقابل آنے والی کسی بھی عورت کو زیر کر سکتا تھا۔ یہ جرات بھی تو اسی معاشرے کی انسان دشمن رویوں کی کثافتیں کی بدولت ملتی ہے جو صدیوں سے بہتی آئی ہیں جو آج ایک تحریک کی صورت میں جابجا عورت کی انسانیت تلفی کی شکل میں جلوہ گر ہیں۔ ہماری یہ جرآت کے مدمقابل جابر کو للکار دیں، ایک مارچ نکال لیں؟ تو یہ اب منظم اطوار سے ہمارے احتجاجوں کے خلاف بھی احتجاج کریں گے کہ ان کے جنسی تشدد کرنے کا حق مارا جا رہا ہے۔

کم عمر طالبہ خوف اور وحشت سے کانپ رہی تھی مگر ہمت تب بھی نہیں ہاری تھی۔ معاشرے کے باعزت اور باوقار حضرات میں ایک شخص نہ تھا جو اس کو تحفظ کا احساس دلا سکتا بشمول قانون کے۔ بارہا اسکول اور میٹرو انتظامیہ کو شکایت کرنے کے باوجود کسی کو رتی برابر فکر نہیں ہے کہ ایک لڑکی کی جان اور عزت ایک کم عمر پدر سر لونڈے کی وجہ سے خطرے میں ہے جو اپنے دیگر ہم خیال دوستوں کے ہمراہ روزانہ ہراسانی کا بازار لگاتا ہے۔

مجھے اب اس بچی کے رابطہ کرنے کا انتظار ہے مگر یہ کل کا وہ دن تھا جب اس ملک کا وزیراعظم روایتی بے شرمی کے ساتھ دوبارہ یہ تہمت عورت کے دامن تک سینچتا ہے کہ عورت اپنے خلاف ہونے والے جرائم کی ذمہ دار خود ہے۔ دہکتے گرم موسم میں سیاہ رنگ کا برقعہ اوڑھے وہ کم عمر معصوم طالبہ جس کا واحد قصور اس گھناونے معاشرے میں فقط عورت ہوتے ہوئے زندہ رہنا ہی تھا، جس پر چیخنے چلانے، چیرنے پھاڑنے والے آج بھی چین سے ہوں گے۔ چاہے وہ درندہ خود ہو یا اس کا بلونگڑا۔ جس کو تب بھی معلوم ہے کہ گوشت کے چلتے پھرتے بے معنی اور بے وقار عورت کے روپ میں لوتھڑوں کو کس کس طریقے اور انداز سے نوچا جاسکتا ہے۔

صرف کل کے ہی روز، جب حکومت کا نگہبان گوروں کو وطن کی عورت کے کم لباس پر آگہی دے رہا تھا، اسی روز، چھ مختلف مقامات اور مواقع پر چھ بار مردوں سے اس بابت مڈبھیڑ ہوئی جس کی واحد وجہ عورت کا بے معنی گوشت کے لوتھڑے ہونے کے سوا کوئی مطلب نہیں لیا جاتا۔ یہاں عورت بحیثیت انسان کوئی خاص معنی بھی نہیں رکھتی، صرف گوشت کا وہ لوتھڑا ہی ہے جو ان کو ننگا دکھتا ہے۔ جس کو جب چاہے جیسے کوئی بھی توہین آمیز جملہ کہہ دیں، اپنے نہ اٹھانے اور سمجھے جانے والے عقائد کا بوجھ لاد دیں یا محض اس واسطے عذر پہنچائیں کہ سامنے والی عورت ہے، کر ہی کیا سکتی ہے ان طاقت ور مردوں کے سامنے۔

قبر کے حجاب سے سخت کوئی حجاب نہیں ہو سکتا ، اس کو وہاں بھی بے حجاب کرنے والے ہمارے لباس کے ریشوں اور نگینوں کو جرم زندگی قرار دیتے ہچکچاتے نہیں، ظلم کر کے الزام بھی ہمیں دیتے یہ ڈوبتے ہیں نہ مرتے ہیں۔ اپنے اوپر سہے ہوئے ظلم اور جرائم کو بیان کرنے کے لئے غصہ ایک نہایت مہذب انداز ہے۔ کیا ادب اور انسانی احساسات میں غصے سے بڑھ کر کچھ ہے جس کے اظہار سے ہم بتا سکیں کہ ہم کیسا محسوس کرتی ہیں جب کوئی کچھ بھی کہہ دیتا ہے، دبوچ لیتا ہے؟

وہ کم عمر طالبہ جب آج اسٹاپ پر جائے گی آتش مردانگی میں غرق وہ لونڈا دوبارہ موجود ہوگا۔ وہ آج دوبارہ اس کو ہراساں کرے گا، وہ دوبارہ چلائے گی، مرد سماج پھر سے اس کی بے بسی سے مخصوص ہوگا۔ سماج کا اندوہناک نظام اور طریقہ ایسا ہے کہ گھر بتانا خود کو مزید اذیت میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے۔ اس کم عمر طالبہ کا مسئلہ بھی یہی ہے کہ روز ایک لڑکے کے ہاتھوں بیچ چوراہے کے ذلیل اور ہراساں ہوتی ہے مگر کسی کو بتا سکتی ہے نہ مدد طلب کرنے کی ہمت کرتی ہے۔

کچھ روز قبل، تین یونیورسٹی کی طالبات جب اپنے سیاہ برقعوں میں بس اسٹاپ کے آگے سے گزریں تو ایک رکشے والا جو تینوں لڑکیوں کے برقعے سے ”ڈھکے“ جسموں کو غور سے دیکھتا رہا، یہاں تلک کے وہ آگے گزر گئیں مگر اس کی نگاہیں ان کے جسموں کا تعاقب کرتی رہیں۔ پھر کندھوں کو ایسے جھٹکا دے کر دوسرے رکشے والے کو اشارہ کیا جیسے ان کا برقع بھی اس کے لئے کم تھا۔ ایک نہیں تین تین حضرات نے ان لڑکیوں کے جسموں کا بخوبی جائزہ لیا یہاں تلک کے وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوئیں۔ عورت فربہ ہو تو بدن سیاہ لحافوں سے بھی جھلکتا ڈھلکتا ہے۔ ان کو یہ بھی گوارا نہیں، فربہ عورتوں کے پردے کے احکامات الگ سے طے کیے جاتے ہیں۔ عورت ہے کوئی موم جامہ تو نہیں کہ تپش سے جیسی مورتی بنانا چاہیں بن جائے گی جو وہ ہزاروں سالوں سے بنتی بھی آئی ہے۔

پھر اس ملک میں سب سے زیادہ سراہے جانا والا معروف عمل یہ ہے کہ عورت کے کپڑوں کو مورد الزام ٹھہرا کر دوستوں اور بھائیوں کے غلیظ اور بھیانک جرائم کو چھپایا جائے۔ ریپ اس معاشرے میں شاید موت سے بھی بدترین فعل ہے، جس کے نقوش تاحیات ثبت ہوں ایسے تلف انسانی فعل کو ہمیشہ ڈھٹائی اور فخر سے کپڑوں یا عورت کی خوبصورتی سے جوڑنا ظاہر کرتا ہے کہ یہ لوگ ریپ جیسے عمل سے سکون اور اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ ایسے تمام افراد کہیں نہ کہیں کبھی نہ کبھی ریپ کرنے کے مرحلہ سے گزر چکے ہوتے ہیں یا ریپ کا حصہ رہے ہوتے ہیں۔

جنسی تشدد عورت یا کسی بھی متاثرہ فرد پر طاقت، غضب، غصب، اور غلبے کا نام ہے، جس کو عورت کی ذات اور بدن سے منسوب جنسی تسکین میں شمار کرنا تشدد اور تکلیف میں تسکین پانے والوں کے چہرے عیاں کرتا ہے۔ جب جنسی تشدد کو تسکین کی تکمیل کی کڑی قرار دیا جائے، تو ثابت ہوتا ہے کہ تشدد سے مخصوص ہونے والے کس درجہ انسانیت پر موجود ہیں اور ریاست اور معاشرے کے نگہبان ان کے جرائم کا کیسے دفاع کرتے ہیں۔

یہ غیبت کرنے کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے برابر تو تصور کرتے ہیں مگر عورت کی منظم سازش سے خون میں لت پت بوٹیاں کھاتے اور اپنے بھائیوں کو کھلانے سے باز نہیں آتے۔ آپ صرف ریپ سے معذرت خواں اور ریپ کار دوست بھائی کے خیر خواہ ہی نہیں، عورت خور بھی ہیں۔ اپنی نظروں، تہمتوں، فتووں، ہاتھوں پیروں اور طاقت سے عورت کو ہمیشہ کھاتے ہی تو آئے ہیں۔

عورت کو یہ ابہام دے دیا کہ اس کے بہت حقوق ہیں، اجی حقوق تو اس کے ہوتے ہیں جس کی کوئی وقعت اوقات ہو، عورت کی اس نظام میں تو کوئی اوقات ہی نہیں تو حقوق خاک ہوں گے۔ ایسے معاشرے جہاں ظلم کو روایتوں کی روشنی میں تقویت دی جائے وہاں کمزوروں کے انسانی گوشت سے لطف لینے والے معزز تصور ہوتے ہیں، گویا یہاں بھی بہت سے معزز موجود ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments