وزیر خارجہ کس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا؟


اینکر نے پوچھا۔ کیا آپ اسامہ بن لادن کو شہید سمجھتے ہیں تو فرفر بولنے والےملتانی گدی نشین شاہ محمود قریشی کے لہجے میں لکنت آ گئی، مشکل سے سنبھلے، بولے۔۔ “میں اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا”۔۔ !

شاہ محمود نے صحیح کہا، یہ سوال پاکستانی ریاست کے گہرے پیندے میں ایک سنگین دراڑ کی طرح پیوست ہے۔ ایک طرف قائد اعظم اور ذوالفقار علی بھٹو کی فکری لہر سے جڑے لوگ اسامہ بن لادن کو دہشت گرد اور زندگی کا دشمن سمجھتے ہیں جبکہ دوسری طرف ضیاء الحق، اسلم بیگ اور حمید گل جیسے لوگوں کی فکر سے جڑی طاقتور اشرافیہ ہے جو اسے مجاہد اور شہید قرار دیتی ہے۔ لہذا شاہ محمود قریشی نے پر زیر منقار رہنے ہی میں عافیت جانی۔۔

محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے 20 سال پہلے ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے سے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا.. “اسامہ بن لادن افغانستان میں مجاہدین کی حکومت بننے کے بعد جہاد کے خاتمے کا اعلان کر کے فروری 89 میں واپس سعودی عرب چلا گیا تھا لیکن ہمارے اس وقت کے جنرلز نے اسے پھر واپس بلا لیا اور کہا کہ جہاد ابھی جاری ہے کیونکہ پاکستان میں ایک مسلمان عورت وزیراعظم بن چکی ہے۔ اگر ایک عورت کی پاکستان میں حکومت ہو گی تو پھر یہاں اسلام خطرے میں ہوگا۔ لہذا اس حکومت کو گرانے کے لئے پیسوں کی ضرورت ہے۔ اسامہ بن لادن نے اس موقع پر انہیں 10 ملین ڈالر دیے۔ یہ رقم جس میٹنگ میں لی گئی اس میں ایک صوبائی وزیر اعلیٰ بھی شریک تھا۔ پھر اسی پیسے سے میرے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی جو کہ ناکام ہوئی۔ بعد میں میری حکومت برطرف کر کے اسی وزیر اعلیٰ کو ملک کا وزیراعظم بنا دیا گیا۔”

شاہ محمود قریشی نے بال دھوپ میں سفید نہیں کئے۔ پاور پالیٹکس کی راہداریوں میں بھٹکتے، گرتے، سںبھلتے انہیں 35 سال ہو چکے ہیں۔ وہ جانتے ہیں اسامہ بن لادن کے معاملے پر ملتان کے ایک دوسرے پیر مخدوم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ کیا سلوک ہوا تھا۔ جب امریکی فوج نے اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں نشانہ بنایا تو ایک ایٹمی ریاست کی ذلت آمیز کنفیوژن اپنی انتہاؤں کو چھو رہی تھی۔ ملک کی سول حکومت دنیا کے ساتھ مل کر اسامہ بن لادن کو ٹھکانے لگانے کا جشن منا رہی تھی جبکہ ہماری ڈیپ سٹیٹ کونے کھدروں میں چھپ چھپ کر رو رہی تھی۔۔ اس تاریخی پسپائی کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے چند ہی ہفتوں میں یہ افواہ پھیلا دی کہ امریکی فوج کی کارروائی اور اسامہ کی موت افسانہ تھی اور ساتھ ہی سول حکومت کے خلاف سازشیں بھی شروع کردیں اور میمو سکینڈل کا تانا بانا بنا گیا۔ ۔ ملک کے غلام میڈیا اور تابع فرمان عدلیہ نے کھل کر سول حکومت پر حملے شروع کر دیے۔ اس وقت کے اپوزیشن لیڈر کالا کوٹ پہن کر حکومت کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جا کھڑے ہوئے۔ یوسف رضا گیلانی نے تب قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران یہ کہہ کر اسٹیبلشمنٹ کو سیخ پا کر دیا کہ وہ جو ہم سے پوچھتے ہیں کہ امریکی کس ویزے پر پاکستان آئے۔ میں ان سے پوچھتا ہوں اسامہ بن لادن اور دوسرے غیر ملکی جہادی جب پاکستان آئے تھے تو انہیں ویزہ کس نے دیا تھا۔۔ یوسف رضا گیلانی نے ایک دوسرے موقع پر قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران اسٹیبلشمنٹ کو سٹیٹ ود ان سٹیٹ قرار دے کر ساری سازش بے نقاب کر دی تھی۔ اس سب کی انہیں بہت بڑی قیمت بھی ادا کرنی پڑی۔ وزارت اعظمی سے فراغت، عدالتی نااہلی اور جواں سال بیٹے کے اغوا اور انتخابات میں جبری شکست وہ برسوں سخت آزمائش سے گزرے۔

اگرچہ نواز شریف اور افتخار چودھری جیسے لوگ تب تو مزے لے رہے تھے لیکن یہ سلسلہ رکنے والا تو تھا نہیں۔ بالآخر بات عمران اور طاہر القادری کے دھرنوں، ڈان لیکس، پانامہ سکینڈل اور پھر تحریک لبیک کے خونی دھرنے تک جا پہنچی۔ پھر نوازشریف سمیت ان سب کو بھی وہی آزمائش جھیلنا پڑی جس کا پیپلز پارٹی اور اس کے رہنماؤں نے سامنا کیا تھا۔

اس تناظر میں افغان صحافی کے سوال پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا تذبذب اور سوال کا جواب نہ دینا سمجھ میں آتا ہے۔۔ وہ عمران خان کی طرح اسامہ بن لادن کو شہید قرار دینے والی حماقت بھی نہیں دہرانا چاہتے تھے جس سے امریکہ سمیت ساری دنیا پریشان ہو گئی تھی اور وہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ سو اس بند گلی میں اپنا تماشا لگوانے کی بجائے انہوں نے چپکے سے پتلی گلی سے نکلنے کو ہی غنیمت سمجھا۔

مگر اصل سوال یہی ہے کہ دو رخی اور دو عملی کی شکار یہ ریاست مزید کتنا عرصہ اس تاریک بند گلی میں بیٹھی رہے گی۔ خاص طور پر ان دنوں جب ہمارا خطہ ایک بار پھر سے ری ماڈل ہونے جا رہا ہے۔ افغانستان سے امریکہ واپس جانے کو تیار ہے۔ افغان طالبان افغانستان میں ایک بار پھر سے طاقت بن کر ابھرنے والے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان کو مجبور کر رہے ہیں کہ بھارت کے ساتھ دوستی کی جائے تاکہ چین کی بجائے بھارت سے تجارت شروع ہو سکے۔ امریکہ پاکستان میں ہوائی اڈوں کی تلاش میں ہے، سی پیک کو کسی طرح روکنے کے لئے ہر داؤ کھیلنے کے لئے تیار ہے۔

جس دن وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا کہ وہ امریکہ کو ملک میں اڈے نہیں دیں گے تو میرے ایک دوست کی ہنسی نہیں رک رہی تھی۔ وہ کہنے لگا جب بڑوں نے اڈے دینے کا فیصلہ کر لیا تو وزیر اعظم سے کون پوچھے گا۔۔

عمران خان ہی پر موقوف نہیں، بدقسمتی سے اس پیچیدہ ریاست میں ہر وزیراعظم کے اختیارات ہمیشہ خطرے میں رہتے ہیں۔ سالہا سال سے چلے آتے اس” سٹیٹس کو” کے سارے سٹیک ہولڈرز اس مداخلت کو قومی سلامتی کے نام پر قبول کر چکے ہیں اور اس کے عادی بھی ہو چکے ہیں۔ اس غیر آئینی ابتری کے سفر میں سب حصے دار ہیں خاص طور پر ہمارا میڈیا اور عدلیہ تو ہر وقت خدمات دینے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ یہ عالمی سچائی ہے کہ جب ریاست انصاف اور دانش کا راستہ چھوڑ دیتی ہے تو وہ اچھائی یا برائی میں تمیز کے قابل نہیں رہتی۔ کسی مشکل مسئلے کو سلجھانے کے لئے ریاست یا قوم کی اجتماعی دانش بروئے کار لانے کی بجائے جب چند لوگوں پر مشتمل کوئی مفاداتی گروہ اپنے یکطرفہ فیصلے ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے تو ریاست کے اندر بگاڑ جنم لیتا ہے جو بعد ازاں انتشار کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔۔ جب لوگ غیر منظم انداز میں ادھر ادھر بھاگ رہے ہوں تو انھیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہوتے ہیں، ہمارے ملک کی طرح کوئی ریاست جب فکری الجھن، انتشار یا تضاد کا شکار ہوتی ہے تو کوئی بقراط بھی اس کے لئے دو ٹوک اور واضح اظہاریہ مرتب نہیں کر سکتا۔

اسی لئے ہمارے دفاعی تجزیہ کاروں کو، جو اکثر پاکستان کے بیانیے کی ترویج نہ کرنے پر دفتر خارجہ اور ہمارے سفارت خانوں کو مورد الزام ٹھہراتے رہتے ہیں، یہ جاننا ہوگا کہ جب تک ہم اپنے ملک کی آؤٹ لک ٹھیک نہیں کرتے۔ ہماری سفارت کاری ہمیشہ لکنت زدہ ہی رہےگی۔ کیونکہ جس فکری انتشار کا شکار ہم ہیں اس کے ساتھ ریاستیں ہمیشہ الجھی ہوئی، بحرانوں سے دوچار اور بتدریج زوال یا خرابی کی حالت میں ہی رہتی ہیں۔ آئے دن حیرت زدہ کر دینے والے خلفشار سر اٹھاتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں بار بار عوام کو قومی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے آج تک ہم ایبٹ آباد آپریشن کی شرمندگی مٹا نہیں سکے۔

حب الوطنی محض پرچم لہرانے کا نام نہیں، بلکہ اس کوشش کا نام ہے جس کے تحت اجتماعی ترقی اور خوشحالی کا ثمر عام آدمی کو مل سکے اور یہ سب محض سرحدوں پر خطرات اور قومی سلامتی کے نام پر ٹالا نہیں جا سکتا۔ ریاست کی طاقت اور سلامتی دراصل انصاف اور دانش سے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ معاشی اور سیاسی طور پر با اختیار کرنے سے ہی ممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments