کتنے ہی پھول چن لیے میں نے


مریدکے میں بنگلا روڈ پر واقع ہمارا گھر اس لحاظ سے منفرد تھا کہ اس میں فرنٹ لان کے ساتھ ساتھ ایک خاصا کشادہ بیک یارڈ بھی موجود تھا۔ گھر کی تعمیراتی ترکیب شمالاً جنوباً تھی۔ شرقاً غرباً اس کی چوڑائی پچاس فٹ سے زیادہ تھی۔ جی ٹی روڈ سے اتر کر مغرب کی جانب چند قدم چلنے پر پہلے ہمارے گھر کی تقریباً چالیس فٹ لمبی دیوار آتی تھی اور پھر کوئی دس فٹ چوڑا گیٹ۔ دیوار کے ساتھ باہر کی جانب کوئی تین فٹ چوڑی جگہ چھوڑی گئی تھی جسے میں نے کیاری کی شکل دے کر آٹھ آٹھ فٹ کے فاصلے پر الٹا شوک نامی پودے لگائے ہوئے تھے۔ ان پودوں کو پانچ فٹ کی اونچائی پر کاٹ کر چھتری کی شکل دی گئی تھی۔ ان پودوں کی درمیانی جگہ کو دیسی گلاب کے سرخ پھولوں والے پودوں سے بھر دیا گیا تھا۔ یہ پودے سارا سال پھول دیتے اور ہر آنے جانے والے شخص کا استقبال خوشبو اور خوبصورتی سے کرتے۔ یہ بغیر معاوضے کی خدمت تھی۔ ویسے بھی بقول شخصے ہر ایک چیز کا صلہ تو نہیں دیا جا سکتا۔ جیسے ہم پھول کو خوشبو کے عوض کیا دے سکتے ہیں؟

گھر کا مرکزی دروازہ جنوب کی سمت واقع تھا جو گیراج میں کھلتا تھا۔ گیٹ کے بالکل ساتھ ہی دائیں ہاتھ پر گھر کا فرنٹ لان شروع ہو جاتا تھا جو چالیس فٹ لمبا اور پندرہ فٹ چوڑا تھا۔ گیٹ کے لان والی سائیڈ کے ستون کے ساتھ جھمکا، گولڈن شاور، ٹکوما، فیشن فلاور بیلیں اگائی گئی تھیں جو آپس میں پوری طرح مل کر ایک ہی بیل کی شکل اختیار کر چکی تھیں۔ ان میں سے ایک دو بیلوں کو سارا سال پھول لگے رہتے جو گھر میں داخل ہونے والوں کو جھک کر سلام پیش کرتے۔

بیرونی دیوار کے اندر کی جانب کوئی دو فٹ چوڑی کیاری بنائی گئی تھی جس میں دس دس فٹ کے فاصلے پر کوئین پام کے برابر فاصلے پر لگے ہوئے تین پودوں نے اپنی شاخوں کو چہار سمت میں ایسے پھیلا رکھا تھا جیسے انہوں نے چھوٹے اور کم زور پودوں کو بدلتے موسموں کی دست برد سے بچانے کی ذمہ داری لی ہوئی ہو۔ ان تین پودوں کی درمیانی جگہ میں کاپرنیشیا کے انتہائی نفاست سے تیار کیے گئے دو پودے بڑے باوقار طریقے سے کھڑے تھے۔ جنوب مشرقی کونے میں فش ٹیل پام کا پودا اپنے جوبن پر تھا۔ اس کے پتوں کے کناروں کو دیکھ کر یہ تاثر ملتا تھا جیسے مچھلی کی دم دیکھ رہے ہوں۔ فش ٹیل پام کے شمال میں کوئی پانچ فٹ کے فاصلے پر چیڑ کا درخت لگا ہوا تھا جو تقریباً پندرہ فٹ اونچا ہو چکا تھا۔ اس کی آٹھ فٹ تک نیچے والی شاخیں کاٹ دی گئی تھیں اور اس سے اوپر یہ سبز رنگ کی بڑی سی چھتری کی شکل اختیار کیے ہوئے تھا۔ رات کے وقت روشنی پڑنے پر اس کے پتے چمکتے ہوئے محسوس ہوتے اور نہایت دلکش منظر پیش کرتے۔ اس کے علاوہ اسی لان میں کنگ پام کے تقریباً تین فٹ اونچے دو پودے بھی اپنی خوب صورتی میں بے مثال تھے۔

لان میں نہایت عمدہ گھاس کا قالین بچھایا گیا تھا جو بہتر توجہ اور دیکھ بھال کی باعث سارا سال سر سبز رہتا اور آنکھوں کو تراوت بخشتا۔ لان کی شمالی سمت میں واقع برآمدے کے کنارے پر کنکریٹ کی کوئی دو فٹ چوڑی پٹی شرقاً غرباً بیس فٹ تک گولائی میں لان کے کنارے چلتی تھی۔ اس پٹی پر میں نے چوبیس انچ قطر والے ایک درجن پیالہ نما گملے رکھے ہوئے تھے جن میں سارا سال موسمی پھولوں کی بہار رہتی۔

ان گملوں میں کھلے ہوئے گیندے کے پیلے پیلے پھول مہندی کی رات دلہن کی کلائیوں میں سجے ہوئے گجروں کی طرح نئے سال کی آمد کا ایسے استقبال کرتے جیسے وہ بھی اگلے دن اپنے پی سے ملاپ کے منتظر ہوں۔ موسم ذرا سا آگے بڑھتا تو گل اشرفی بھی گیندے کا ہاتھ تھام لیتا، جیسے دونوں ایک ہی خاندان کے چشم و چراغ ہوں اور ہر قسم کے حالات میں ساتھ رہنے کا عہد کیے ہوئے ہوں۔

درجہ حرارت جیسے ہی بڑھنے لگتا، تو پینزی (pensy) کے نیلے، پیلے، سرخ، گلابی، سفید، بنفشی، جامنی جیسے درجنوں رنگ کے پھول کھل اٹھتے، جن کو دیکھنے پر ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے ان کی نازک پتیوں میں کسی تتلی کو مقید کر دیا گیا ہو یا کسی پیاری سی مانو بلی کا سر عکس بند کر دیا گیا ہو۔

ان گنت رنگوں کے ڈیلیا (dahlia) کے بڑے سائز کے ہائبرڈ پھول اس شان سے جھومتے جیسے کوہ قاف کے شہزادوں کے سروں کے تاج ہوں۔ پوٹونیا کے پھولوں کی کثرت، نازکی اور خوش روئی دیکھ کر اس کارخانہ قدرت کے کاریگر کے صناع کی مدح سرائی واجب محسوس ہونے لگتی۔ بہار کے آغاز کے ساتھ ہی چنبیلی اپنی بھینی بھینی خوشبو سے فضا کو معطر اور ماحول کو رومانوی بنا دیتی تھی۔

لان میں کہیں کہیں انٹرینیم (antranium) کے پھول یوں مستعد کھڑے ہوتے جیسے وہ شاہی لباس پہنے کسی شہنشاہ کے دربار کے چوب دار ہوں۔ رینن کولس (ranunculus) کی گلابی، سرخ، بنفشی، پیلی، نیلی اور سفید انتہائی نازک پتیوں کی پرتیں تہہ در تہہ گھوم کر ایک مسحور کن پھول تخلیق کرتیں جو نزاکت میں پری تمثالوں کے لبوں سے بھی بازی لے جاتے۔ اگر گلاب پھولوں کا بادشاہ ہے تو رینن کولس اس کی ملکہ ہے، ملکہ بھی وہ جس کی تابانی حسن کے سامنے جلال شاہی بھی ماند پڑ جائے۔

ہوتے ہوتے موسم گرما کی آمد ہونے لگتی۔ یہ سارے رنگوں کے استعارے رخصت ہونے لگتے تو ان کو الوداع کہنے کے لیے سورج مہاراج کی چھوٹی اور لاڈلی شاہ زادی گل دوپہر (portulaca) اپنی رنگ برنگی آنکھیں کھول دیتی اور ان سے جلد لوٹ آنے کا وعدہ لیتی۔ گلاب جیسی صورت لیے بے شمار پھولوں سے لدی نازک نازک ٹہنیاں باد صبا میں ایسے لچکتیں جیسے پتلی کمر والی دوشیزائیں اپنے سروں پر پھولوں کے ٹوکرے اٹھائے سر مستی میں جھوم رہی ہوں۔

گرمیوں کے دن جب طویل اور دوپہریں سنسان ہونے لگتیں تو گل دوپہر کی تنہائی دور کرنے کے لیے زینیا (zinnia) کے پھول اپنی بانہیں کھول دیتے۔ دور کسی کونے میں کھڑا کلغا سر پہ قرمزی ٹوپی پہنے ان دونوں کو ایسے گھورتا رہتا جیسے وہ شاہ زادی کی نگرانی پر مقرر ہو اور ان کے ملاپ کی راہ میں حائل ہو کر ”ظالم سماج“ کا کردار ادا کر رہا ہو۔

سدا بہار (catharanthus roseus) نے آتے جاتے موسموں اور پھولوں سے کئی سبق سیکھے۔ اس نے جب دیکھا کہ گیندے کے پیلے پیلے پھول اپنی رنگت اور بناوٹ کی وجہ سے انتظار کا استعارہ بن کر دلہنوں کی کلائیوں میں سجنے لگے ہیں تو سدا بہار نے پیلے رنگ کو ہی خیر باد کہہ دیا؛ جب اس نے دیکھا کہ پینزی کے پھول بچوں کے لیے خصوصی کشش رکھتے ہیں اور بچے انہیں ٹہنیوں سے جدا کر کے اپنے ہاتھوں میں مسل کر خوشی محسوس کرتے ہیں تو اس نے اپنے پھولوں سے سارے عکس مٹا ڈالے ؛ اس نے جب دیکھا کہ ڈیلیا کے بڑے اور وزنی پھول ٹہنیوں پر زیادہ دن قائم نہیں رہ پاتے تو اس نے اپنا سائز چھوٹا کر لیا ؛ جب اس نے دیکھا کہ گلاب کی حد سے بڑی ہوئی خوبصورتی ہی دراصل اس کی بربادی کا باعث ہے تو اس نے عامیانہ شکل و صورت اختیار کر لی؛ جب اس نے دیکھا کہ چنبیلی کی خوشبو اس کی جان کی دشمن بن گئی ہے تو اس نے خوشبو سے جان چھڑا لی ؛ جب اس نے غور کیا کہ رینن کولس کو اپنی نازکی کی وجہ سے ہر سال جان سے گزر نا پڑتا ہے تو اس نے خود کو سخت جان کر لیا؛ جب اس نے دیکھا کہ باقی پھولوں کو ہر سال اگنے کے لیے بیج کی صورت مٹی میں ملنے کی صعوبت گوارا کرنا پڑتی ہے تو اس نے اپنے پھولوں اور ٹہنیوں سے ہی جنم لینا شروع کر دیا۔ اس نے خود کو اتنا مضبوط کر لیا کہ جب شدید گرمی سے سب پھولوں کا حسن کملانے لگتا تو یہ پوری آب و تاب سے کھڑا رہتا۔ اس کی ان کاوشوں کے صلے میں اسے نازک سی، شرمیلی سی کاسموس کی صحبت سے نواز دیا جاتا۔

کتنے ہی پھول چن لیے میں نے
کتنے ہی پھول رہ گئے باقی
(ذکی کاکوروی)

اس سب کے باوجود سدا بہار بے وقعت ہو گیا۔ قدر گنوا بیٹھا۔ لوگوں نے اسے اپنے گھروں سے رخصت کر دیا اور اس کا مسکن غیر اہم جگہیں قرار پائیں۔ کیوں کہ اس نے کارخانہ قدرت کے ایک بڑے اصول سے انحراف کیا تھا۔ اس نے اپنی خاطر جینا شرو؁ع کر دیا تھا۔ دوسروں کے لیے مفید نہیں رہا تھا۔ کائنات میں وہ تمام چیزیں غیر اہم اور فالتو ہو جاتی ہیں جو دیگر مخلوقات اور موجودات کے لیے مفید نہیں رہتیں۔

گھر کا فرنٹ لان زیبائشی پودوں کے لیے وقف تھا تو بیک یارڈ میں کچن گارڈن کے ساتھ ساتھ کئی قسم کے پھل دار پودے موجود تھے۔ کچن گارڈن سے ہمیں جہاں سارا سال تازہ اور صحت بخش سبزیاں ملتیں وہیں سارا سال پھل دار پودے موسمی پھلوں سے لدے رہتے۔

باریک چھلکے اور رس سے بھر پور لیموں دینے والا ایک پودا تھا جو تقریباً سارا سال پھل سے لدا رہتا۔ اسی طرح بہت میٹھے امرودوں کا ایک بوٹا، دیسی انار کا ایک پودا، ہر سال اپنے ہی پھل کے بوجھ تلے جھک جانے والا مسمی کا ایک بوٹا اور زیتون کا ایک شاندار پودا بھی موجود تھا۔ زیتون کا یہ پودا اس کھیپ سے تعلق رکھتا تھا جو پوٹھوہار کے علاقے کو وادی زیتون میں تبدیل کرنے کے لیے 2006 میں ملک شام سے منگوائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ چیکو کا ایک درمیانے سائز کا پودا اور کروندا کا ایک چھوٹا سا پودا بھی موجود تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments