وبا کے باوجود دنیا میں لاکھوں افراد لکھ پتی کیسے بنے


لکھ پتی

دنیا بھر میں سنہ 2020 کے دوران کورونا وائرس کی وبا کے باوجود 50 لاکھ سے زیادہ لوگ لکھ پتی ہو گئے ہیں۔

کریڈٹ سوسی نامی ادارے کی جانب سے کی جانے والی تحقیق کے مطابق اگرچہ بہت سے غریب لوگ مزید غریب ہو گئے ہیں تاہم دنیا بھر میں لکھ پتی افراد کی تعداد میں 52 لاکھ افراد کا اضافہ ہوا ہے۔

سنہ 2020 میں ایک فیصد سے زیادہ بالغ افراد کا نام پہلی بار لکھ پتی افراد کی فہرست میں آیا۔

سٹاک مارکیٹ کی بحالی اور گھروں کی قیمتوں کے بڑھنے نے لوگوں کی دولت میں اضافہ کیا۔ محققین کا کہنا ہے کہ یہ دیکھا گیا کہ دولت کی تخلیق وبائی بیماری کی پریشانیوں سے بالکل الگ تھی۔

اینتھونی شوروکس ماہر معاشیات ہیں اور وہ گلوبل ویلتھ رپورٹ کے مصنف بھی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وبا کا عالمی مارکیٹ میں بہت شدید اور قلیل مدتی اثر رہا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ سنہ 2020 میں جون کے مہینے تک یہ بڑے پیمانے پر واپس بھی ہو گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ عالمی دولت اس وبا کے مقاملے میں مستحکم رہی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سال کے دوسرے حصے میں یہ تیزی سے بڑھی۔

کورونا کے دوران کھرب پتی افراد کی خوش قسمتی میں 27 فیصد اضافہ ہوا۔

دس مرد ایسے تھے کہ جن کی دولت اتنی بڑھی تھی کہ وہ سب کے لیے ویکسین خرید سکتے تھے۔

لیکن یہ بھی ہے کہ سنہ 2020 کے دوران بالغ افراد کی دولت کے درمیان فرق مزید بڑھا۔

امیر، غریب

شوروکس کہتے ہیں کہ اگر لوگوں کے اثاثوں کی قیمت بڑھی جیسا کہ گھر کی قیمت تو اسے تجزیے کی فہرست سے نکال دیں تو شاید عالمی سطح پر گھریلو دولت کی فہرست گھٹ جائے۔

وہ کہتے ہیں کہ کم دولت رکھنے والوں کی جانب دیکھیں تو وہاں اقتصادی اثاثے کم مضبوط تھے یا پھر وہ ایک جگہ ہی رہے یعنی نہ بڑھے نہ گھٹے یا پھر بہت سے کیسز میں دباؤ کا شکار بھی رہے۔

مزید پڑھیے

کورونا کی وبا میں کس کا کاروبار چمکا اور کون ڈوبا؟

سونے کی ’عالمی ذخیرہ اندوزی‘ اس کی قیمتوں میں اضافے کا باعث ہے

’معاشی نقصان سے غربت میں تقریباً نصف ارب افراد کے اضافے کا خدشہ‘

لیکن کچھ مخفی عوامل شاید وقت کے ساتھ درست ہو گئے۔ مثال کے طور پر کسی موقع پر جا کر انٹرسٹ ریٹ یعنی شرح سود بڑھے گا اور وہ اثاثوں کی قیمتوں کو کم کر دے گا۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عالمی دولت کی قیمت سات اعشاریہ چار فیصد بڑھی ہے۔

21 صدی کے آغاز میں 10ہزار سے ایک لاکھ ڈالر کے درمیان دولت رکھنے والے امرا کی دولت سنہ 2000 تک 507 ملین تک پہنچی اور 2020 کے وسط تک یہ ایک اعشاریہ سات بلین ہو چکی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ دولت میں اضافے کی عکاسی ابھرتی ہوئی معاشی قوتوں خاص طور پر چین میں بڑھتی ہوئی خوشحالی ہے اور ترقی پزیر ممالک میں متوسط طبقے کی تعداد میں اضافہ ہونا ہے۔

نانتی ہیچلر کریڈٹ سوئسی میں چیف انویسٹمنٹ آفیسر ہیں وہ کہتی ہیں حکومتوں اور مرکزی بینکوں نے وبائی امراض سے متاثرہ افراد اور کاروباری اداروں کی مدد کے لیے بڑے پیمانے پر آمدنی کی منتقلی کے پروگراموں کے انعقاد میں کوئی ایسے اقدامات نہیں کیے جس میں انھیں مسترد کیا گیا ہو۔

اور سود کی شرح کو کم کر کے بڑے پیمانے پر ایک عالمی بحران کو کامیابی سے بچایا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ شرح سود میں مرکزی بینک کی جانب سے کمی کرنے کی وجہ سے شاید بہت بڑا اثر پڑا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ بڑی وجہ ہے کہ شیئر پرائس اور گھروں کی قیمتیں بڑھی ہیں۔ اسے براہ راست یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ ہماری گھریلو ملکیت کے بارے میں اندازہ ہے۔

لیکن وہ یہ کہتی ہیں کہ اس قسم کی مداخلتیں بہت بڑی قیمت پر آئیں۔

شہری قرضوں کا موازنہ جی ڈی پی سے کریں تو یہ دنیا بھر میں 20 فیصد بڑھا ہے اور بہت سے ممالک میں تو اس سے بھی زیادہ بڑھا ہے۔

ہیچلر کہتی ہیں کہ گھروں کی قیمتیں کیوں بڑھی اس کی ایک اہم وجہ بینکوں میں شرح سود کی کمی بھی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32300 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp