پاکستان کی افغان پالیسی: کوا اندھیری رات میں شب بھر اڑا کیا


امریکی قانون دان اس بات پر حیران ہیں کہ موجودہ امریکی قیادت پاکستان کو نظر انداز کررہی ہے حالانکہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں پاکستان کی سفارتی اہمیت دو چند ہوچکی ہے۔ ان خیالات کا اظہار ری پبلیکن سینیٹرلنڈسے گراہم کے علاوہ کیلی فورنیا سے کانگرس کے ڈیموکریٹک رکن ٹیڈ لیو نے بھی کیا ہے۔ ان دونوں امریکی سیاست دانوں کا خیال ہے کہ اس موقع پر پاکستان کو نظر انداز کرنے کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

امریکی کانگرس میں ان دنوں افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا اور اس سے پیدا ہونے والی صورت حال کے حوالے سے متعدد مباحث دیکھنے میں آئے ہیں۔ پاکستانی قیادت جس میں وزیر خارجہ شاہ محمودقریشی سر فہرست ہیں ، مسلسل یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان کی سفارتی کوششوں کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی ہے اور تحریک انصاف کی ’مؤثر اور قومی مفاد‘ پر استوار خارجہ حکمت عملی کی وجہ سے افغانستان میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کی اہمیت کا اعتراف کیا جارہا ہے۔ بلا مبالغہ یہ بیانات پاکستانی عوام کا دل بہلانے کے لئے دیے جاتے ہیں اور ان میں عالمی سفارت کاری کے حوالے سے کوئی خاص نکتہ شامل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں امریکہ کے علاوہ مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پاکستانی عوام کو یہ بتایا جارہا ہے کہ پاکستان کی اہمیت و ضرورت کو کوئی نظر انداز نہیں کرسکتا تو دوسری طرف واشنگٹن میں سیاست دان بالکل متضاد رائے کا اظہار کررہے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے ایک امریکی ویب سائٹ کو حال ہی میں انٹرویو دیا ہے۔ اس انٹرویو کے دوران بھی ان سے سوال کیا گیا کہ کیا ان کی صدر جو بائیڈن سے بات ہوئی ہے؟ اس سے انکار پر صحافی نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ وزیر اعظم نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ ’ ان کے پاس جب وقت ہوگا وہ مجھ سے بات کرسکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس وقت ان کی ترجیحات مختلف ہیں‘۔ اس جواب سے یہ واضح ہورہا ہے کہ جس صورت حال پر ایک امریکی صحافی کو تشویش ہے اور کانگرس و سینیٹ کے ارکان جس پر پریشانی کا اظہار کررہے ہیں، اس پر پاکستانی وزیر اعظم کو کوئی خاص تردد نہیں ہے۔ اسی انٹرویو کے دوران البتہ انہوں نے یہ تصدیق کی تھی کہ امریکی سی آئی اے کے سربراہ ولیم جوزف برنس جب حال ہی میں اسلام آباد آئے تھے تو انہوں نے خود ان سے ملاقات نہیں کی تھی حالانکہ امریکی عہدیدار نے آرمی چیف و آئی ایس کے سربراہ سے ملاقات کی تھی اور وزیر اعظم ہاؤس سے عمران خان سے ملاقات کا وقت مانگا تھا جس سے انکار کردیا گیا تھا۔ وزیر اعظم کے دفتر کے ذرائع بعد میں میڈیا کو یہ بتاتے رہے ہیں کہ وزیر اعظم نے یہ کہہ کر اس ملاقات سے انکار کیا تھا کہ وہ سی آئی اے کے سربراہ کی بجائے اپنے ہم منصب صدر جو بائیڈن سے بات کرنا پسند کریں گے۔

جو بائیڈ ن کو امریکی صدر کا عہدہ سنبھالے پانچ ماہ ہوچکے ہیں لیکن انہوں نے پاکستانی وزیر اعظم سے فون پر گفتگو کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ اسی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ میں لنڈسے گراہم نے کہا کہ ’یہ حیران کن امر ہے کہ صدر بائیڈن نے ابھی تک پاکستانی وزیر اعظم سے رابطہ نہیں کیا ۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے موقع پر پاکستان کو نظر انداز کرنا تباہ کن نتائج کا حامل ہوسکتا ہے‘۔ انہوں نے استفسار کیا کہ اس موقع پر پاکستان کے ساتھ رابطہ کاری کے بغیر امریکی انخلا کا کیا یہ مقصد ہے کہ صدر بائیڈن سمجھتے ہیں کہ افغانستان اب ماضی کا قصہ ہے؟ متعدد امریکی سیاست دانوں کا خیال ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد پاکستان کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہوگا ۔ اس حوالے سے افغان صدر اشرف غنی کے اس بیان کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے کہ افغانستان کے مستقبل میں اب پاکستان کا کردار فیصلہ کن ہوگا۔ امریکہ کو حالات پر پہلے جیسی دسترس حاصل نہیں رہے گی ۔

 اسی پس منظر میں کانگرس مین ٹیڈ لیو نے استفسار کیا ہے کہ ’میں جاننا چاہتا ہوں کہ اس سال کے شروع میں کیا ہؤا تھا۔ دنیا کے چالیس لیڈروں کو ماحولیاتی سمٹ میں مدعو کیا گیا تھا۔ لیکن پاکستانی لیڈر کو دعوت نہیں دی گئی۔ حالانکہ پاکستان ماحولیاتی آلودگی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔ جن چالیس ممالک کے لیڈروں کو دعوت دی گئی تھی ان میں سے 35 کی آبادی بھی پاکستان سے کم ہے۔ اس سربراہی اجلاس میں بھارت اور بنگلہ دیش کے وزرائے اعظم کو بلاتے ہوئے پاکستان کو نظر انداز کرنا درحقیقت توہین آمیز رویہ تھا‘۔ تاہم جس بات پر واشنگٹن کے سیاست دان بے چینی اور پریشانی کا اظہار کررہے ہیں حالانکہ امریکہ افغان جنگ سے دست بردار ہو کر اب وہاں سے اپنی فوجیں نکال رہا ہے، اس بارے میں اسلام آباد میں ویسی ہی پریشانی دیکھنے میں نہیں آتی۔ اس بات کو بھی کوئی خاص اہمیت نہیں دی جارہی کہ امریکی صدر نے کیوں اب تک عمران خان سے بات نہیں کی ۔ کیا وجہ ہے کہ امریکی وزیر خارجہ و وزیر دفاع آرمی چیف کے ساتھ تو مسلسل رابطے میں ہیں لیکن امریکی حکومت سے عدم مواصلت کا اعتراف خود وزیر اعظم نے کیا ہے۔ سی آئی اے کے سربراہ سے ملاقات سے انکار بھی خارجہ پالیسی کے بارے میں دروں خانہ پائی جانے والی صورت حال کے بارے میں سوالات سامنے لاتا ہے۔ عمران خان کی یہ دلیل قابل قبول نہیں کہ بطور وزیر اعظم وہ صرف امریکی صدر سے ہی بات کریں گے۔ ملکی دورے پر آئے ہوئے ایک دوست ملک کے کسی اہم عہدیدار سے حکومت کے سربراہ کی خیر سگالی ملاقات کسی بھی سفارتی پروٹوکول کے خلاف نہیں ۔ لیکن وزیر اعظم ہاؤس کے ذرائع اسے عمران خان کی ’اصول پسندی‘ کا نمونہ بنا کر پیش کرکے دراصل ملکی خارجہ پالیسی کے بارے میں بے یقینی پیدا کرنے کا سبب بنے ہیں۔

افغانستان کے حوالے سے پاکستان کا زور بیان کابل حکومت اور اس کے مختلف عہدیداروں کے بیانات کو مسترد کرنے اور یہ بتانے پر صرف ہورہا ہے کہ امریکہ طالبان معاہدہ میں پاکستان کے کردار کو دنیا بھر نے سراہا ہے۔ حالانکہ اس وقت سب سے اہم یہ معاملہ ہے کہ امریکی و اتحادی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں امن کیسے قائم ہو گا اور عبوری حکومت کے قیام کے لئے مجوزہ بین الافغان مذاکرات کس نتیجہ پر پہنچیں گے۔ افغان طالبان بظاہر اس حوالے سے پاکستان کی بات سننے پر تیار نہیں ہیں اور دوحہ میں منعقد ہونے والے مذاکرات بدستور تعطل کا شکار ہیں ۔ اتحادی افواج گرمیوں کے دوران افغانستان چھوڑ دیں گی جس کے بعد کوئی قابل عمل معاہدہ نہ ہونے کا سب سے شدید اثر پاکستان کو برداشت کرنا پڑے گا۔

وزیر اعظم نے حالیہ انٹرویو میں اس اندیشے کا اظہار ضرور کیا ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی کا ایک نیا دور شروع ہوسکتا ہے لیکن اس قیاس کو مسترد کیا ہے کہ افغان طالبان طاقت کے زور پر کابل پر قبضہ کرکے اپنی حکومت قائم کرلیں گے۔ ان کا خیال ہے کہ مختلف گروہ کسی نہ کسی معاہدہ پر راضی ہوجائیں گے اور افغانستان میں امن کا نیا دور شروع ہوگا۔ لیکن خارجہ پالیسی کی بنیاد خوش گمانی کی بجائے بدترین قیاسات پر رکھی جاتی ہے تاکہ توقع کے برعکس حالات رونما ہونے کی صورت میں ان سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کی جاسکے۔ پاکستانی حکومت ایسی منصوبہ بندی کا کوئی اشارہ دینے میں ناکام ہے اور وقت تیزی سے بیت رہا ہے۔ اتحادی افواج کے انخلا کے بعد اگر افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوتی ہے تو مزید افغان پناہ گزین پاکستان کا رخ کریں گے۔ یہ صورت حال پاکستان کے لئے معاشی، سماجی اور عسکری نقطہ نظر سے پریشان کن ہوگی۔ افغان سرزمین پر برسرپیکار دھڑوں سے تعلق میں توازن قائم کرنا پاکستان کے لئے دوسرا بڑا چیلنج ہوگا۔ اس میں کسی کوتاہی کی صورت میں پاکستان میں دہشت گردی کا ایک نیا دور شروع ہوسکتا ہے۔

جاننا چاہیے کہ صرف طالبان کی حمایت کر کے پاکستان مستقبل قریب میں ہمسایہ ملک کی طرف سے تشدد کی کسی نئی لہر سے نبرد آزما ہونے کی توقع نہیں کرسکتا۔ اگر طالبان پاکستا ن کو دوست سمجھتے ہوئے پاکستان میں حملوں کی حوصلہ شکنی بھی کریں تو بھی دوسرے عسکری گروہ یا بھارت کے ہمدرد عناصر پاکستان کے لئے سنگین مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد پاکستانی لیڈر افغانستان کے حوالے سے واضح سیاسی حکمت عملی اور کسی قومی منصوبہ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن تحریک انصاف کی حکومت کسی بھی اہم مسئلہ پر اپوزیشن کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کرنے اور اسے آن بورڈ لینے پر آمادہ نہیں۔ شریف خاندان کے خلاف چاند ماری ہو یا سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف بیان بازی، وزیر و مشیر سخت ترین الفاظ استعمال کرکے سیاسی ماحول کو کشیدہ بنا رہے ہیں۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ’میں نے ایوان میں مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان کے لیے جو پس پردہ ہو رہا ہے اسے عوامی نمائندوں کے سامنے لایا جائے۔ شورش زدہ ملک میں ملکی پالیسی درست نہ ہوئی تو پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوگا‘۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے لیکن اس بارے میں حکومت کا رویہ غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔

 وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے آج ایک بیان میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے حوالے سے بیان دیا ہے کہ ’اب اس ادارے کے پاس پاکستان کو بدستور گرے لسٹ پر رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے‘ اس سے بھی یہی اندازہ ہوسکتا ہے کہ حکومت کو اندیشہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف پاکستان کو گرے لسٹ سے ہٹانے کی عجلت میں نہیں ہے۔ دوسری طرف وزیر خزانہ شوکت ترین کو ’فراخدلانہ‘ بجٹ کے حوالے سے آئی ایم ایف کو راضی کرنے کا مشکل مرحلہ درپیش ہے۔ ان سب مسائل کو افغانستان کی صورت حال اور اس میں پاکستان کے کردار سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا ۔ لگتا یہ ہے پاکستان عالمی سفارت کاری میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہے اور اصلاح احوال کا کوئی متبادل منصونہ موجود نہیں ہے۔

یوں لگتا کہ حکومت افغانستان کا معاملہ یا تو فوج کے سپرد کرکے خود لاتعلق رہنا چاہتی ہے اور بہتری کی امید پر آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔ یا ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا، والا طرز عمل اختیار کئے ہوئے ہے۔ سفارتی و سیکورٹی کی موجودہ صورت حال میں یہ طرز عمل پاکستان کو مہنگا پڑ سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments