گھوٹکی ٹرین حادثے کا شکار ہونے والی کائنات کی خواہش: ’پیروں پر چل کر جلد گھر جاؤں‘

ریاض سہیل - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


کائنات

14 سالہ کائنات ملک کی بس اتنی سی آرزو ہے کہ وہ اپنے پیروں پر چل کر گھر جائیں۔ دو بھائیوں کی لاڈلی بہن کی دونوں ٹانگوں اور ایک بازو میں فریکچر ہے اور وہ کراچی میں واقع پاکستان ریلوے حسن ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

پاکستان کے صوبہ سندھ میں گھوٹکی کے مقام پر دو ہفتے قبل ٹرین حادثے میں کائنات کے والد، والدہ اور بڑے بھائی سمیت پانچ رشتے دار ہلاک اور ان سمیت چار زخمی ہو گئے تھے۔

کائنات نے بتایا کہ وہ سب ان کے بھائی نعمان کی شادی کے لیے ٹوبہ ٹیک سنگھ جا رہے تھے، وہ اوپر برتھ پر لیٹی ہوئی تھیں۔ جیسے ہی ٹرینیں آپس میں ٹکرائیں تو وہ نیچے گر گئیں، اس کے بعد اُنھیں ہوش نہیں رہا کہ کیا ہوا اور جب ہوش آیا تو منہ میں مٹی تھی اور ٹانگیں بھی مٹی میں پھنسی ہوئی تھیں۔ ’میرے بھائی نے آواز لگائی کہ میری بہن کو بچاؤ اس کے بعد مجھے باہر نکال کر لٹا دیا گیا لیکن میری امی کو کسی نے نہیں نکالا۔‘

کائنات کو پہلے مقامی ہسپتال اور اس کے بعد رحیم یار خان میں واقع شیخ زید ہسپتال پہنچایا گیا، جہاں اُنھیں معلوم ہوا کہ ان کی والدہ، والد، بڑے بھائی سمیت پانچ رشتے دار ہلاک اور ان سمیت چار زخمی ہو گئے ہیں۔

کائنات کی دونوں ٹانگوں میں فریکچر ہے جن کی سرجری کر کے راڈوں کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ اُنھیں جسم کے اندرونی حصوں میں بھی چوٹیں آئیں جس کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری تھی، خون کے رساؤ اور تکلیف سے اس کے زرد چہرے سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس میں خون کی کمی ہے۔

رحیم یار خان سے اُنھیں مزید علاج کے لیے کراچی میں ریلوے کے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ روانگی کے وقت ان کے چچا مہدی عباس کی ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں وہ وزیر اعظم عمران خان سے مطالبہ کر رہے تھے کہ کائنات کا کسی اچھے ہسپتال میں علاج کروایا جائے کیونکہ اُنھیں ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ اس پر لاکھوں روپے کا خرچہ آئے گا جو ان کے پاس نہیں ہے۔

کائنات

’وزیر اعظم صاحب آپ کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں لیکن کائنات کے لیے یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ جب کراچی پہنچے گی تو آپ کا حکم جاری ہو چکا ہوگا اور کائنات کو نجی ہسپتال میں داخل کیا جائے گا۔‘

کائنات کراچی پہنچ چکی ہیں مگر تین روز گذرنے کے باوجود مہدی عباس کی یہ امید پوری نہیں ہوسکی۔ اُنھوں نے جھنگ سے ٹیلیفون پر بتایا کہ کسی نے رابطہ نہیں کیا۔

ریلوے ہسپتال سے دوپہر 12 بجے کے قریب ریلوے کی ایمبولینس میں کائنات کو جناح ہپستال کے سرجیکل کمپلیکس لایا گیا۔ جیسے ہی ان کا سٹریچر وارڈ میں داخل ہوا تو آواز آئی کہ وقت ختم ہوچکا ہے، اب ڈاکٹر نہیں دیکھے گا۔

رشتے داروں اور پڑوس والوں نے اُنھیں بتایا کہ گھوٹکی ٹرین حادثے میں زخمی ہونے والی بچی ہے اور ساتھ میں والدین کے بچھڑنے کی کہانی بھی بیان کی جس کے بعد ایک لیڈی ڈاکٹر نے ان کے ایکسرے اور رپورٹس دیکھیں اور کچھ دیر کے بعد اس کی ڈریسنگ کرنے کے لیے کہا گیا۔

ڈاکٹر فائزہ نے مجھے بتایا کہ کائنات کی کہنی اور ران پر گھری چوٹیں ہیں۔ کہنی کی پلاسٹک سرجری کرنی پڑے گی جبکہ اُنھیں روزانہ ڈریسنگ کروانے، وقت پر ادویات لینے اور صاف کپڑے پہننے کی ضرورت ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اُنھیں جناح ہسپتال میں داخل نہیں کیا جا سکتا، تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے فیمیل وارڈ میں جگہ نہیں ہے اور اس کے علاوہ بچی کو انفیکیشن سے بھی بچانا ہے۔ اُنھوں نے جمعے کے روز دوبارہ اُنھیں بلایا ہے۔

ڈریسنگ کے بعد کائنات کو دوبارہ ایمبولینس میں سوار کر کے ریلوے ہسپتال منتقل کیا گیا۔ اس سرسبز ہسپتال میں ایمبولینس آنے کے بعد وارڈ بوائز کا انتظار رہا۔ بالآخر دو ملازم آئے جنھوں نے سپیشل روم نمبر ون میں اس کو منتقل کیا گیا۔ کائنات کی پھوپھی نے شکوہ کیا کہ یہاں تو پینے کے لیے ٹھنڈا پانی تک بھی دستیاب نہیں۔

کائنات

یہ بھی پڑھیے

وسعت اللہ خان کا کالم: گوٹھ علی نواز کی ریاست

’چھ سالہ زخمی بچی آنکھیں کھولتی ہے تو ماں کا پوچھتی ہے کہ وہ کب آئیں گی‘

’ماں نے کہا تھا میرا دل نہیں چاہتا کہ تم اس ٹرین پر جاؤ‘

گھوٹکی ٹرین حادثہ: ’مسافر بوگیوں میں پھنسے تھے اور زخمی درد سے کراہ رہے تھے‘

اعجاز علی زخمی کائنات کے والد کے دوست اور کلاس فیلو ہیں۔ وہ ان کے ساتھ ساتھ رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کائنات کے زخم گہرے ہیں اور وہ حکومت سے التجا کرتے ہیں کہ آغا خان، لیاقت نیشنل یا الشفا ہسپتال میں اس کو منتقل کیا جائے۔ اُنھیں جناح ہسپتال میں ایڈمٹ کرنے پر بھی کوئی اعتراض نہیں بس وہ چاہتے ہیں کہ اے سی روم ہو تاکہ سخت گرمی میں یہ زخم مزید خراب نہ ہوں اور ڈاکٹر اس کی نگہداشت کرتے رہیں۔

’ریلوے ہسپتال انتظامیہ نے واضح کر دیا ہے کہ ہمارے پاس ماہر ڈاکٹر نہیں ہیں۔ ہم رہائش، ٹرانسپورٹ اور ادویات دے سکتے ہیں باقی اگر کسی نجی ہسپتال میں دکھائیں گے تو اس کی فیس آپ کو ادا کرنی ہوگی۔ بار بار شدید زخمی کو لانے لے جانے میں بڑی تکلیف ہوتی ہے کیونکہ کراچی کی بہت سی سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ پہلے ہی اس کی ٹانگوں میں فریکچر ہے اسی لیے ہم چاہ رہے ہیں کہ اس کا مستقل علاج کسی اچھے ہسپتال میں ہو۔‘

ریلوے ہسپتال نصف درجن وارڈز پر مشتمل ہے۔ کائنات کے کمرے سمیت ہر جگہ بلیوں کی بلا روک ٹوک آمد و رفت نظر آئی۔ مقامی ملازمین نے بتایا کہ یہاں صرف آنکھوں کا ماہر ڈاکٹر اور گائنی ڈاکٹر موجود ہے، باقی آرتھوپیڈک اور سرجن کی پوسٹس عرصہ دراز سے خالی ہیں۔ کائنات کے کمرے کی جالی ٹوٹی ہوئی تھی جس کو بڑھئی ٹھیک کر رہا تھا۔ چھت پر ایک پنکھا تھا جو دھیرے دھیرے چل رہا تھا۔

ریلوے ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹینڈنٹ ڈاکٹر فاروق میمن نے بتایا کہ بنیادی طور تو یہ ہسپتال ریلوے ملازمین کے لیے ہے۔ کائنات نان ریلوے ہے لیکن چونکہ ریل حادثے میں زخمی ہوئی ہیں، اس لیے ان کا یہاں علاج کیا جا رہا ہے۔ ان کے یہاں آرتھوپیڈک ڈاکٹر نہیں، اس لیے جناح بھیجا گیا تھا، باقی اُنھیں رہائش، کھانا، ادویات اور منتقلی کے لیے ایمبولینس فراہم کی جا رہی ہے لیکن یہ ایک طویل وقتی علاج ہے۔

کائنات

کائنات کے والد ریاض ملک گذشتہ 25 سالوں سے کراچی میں رہائش پذیر تھے۔ وہ بلال کالونی میں کرائے کے گھر میں رہتے، جہاں وہ اسٹیٹ ایجنسی کے ساتھ لائف انشورنس کا بھی کام کرتے تھے۔ ان کے دوست اعجاز علی نے بتایا کہ وہ اپنی پرانی مہران کار فروخت کر کے بیٹے کی شادی کروانے گئے تھے اور راستے میں حادثے کا شکار ہوگئے۔

کائنات کراچی میں نویں جماعت کی طالبہ ہیں وہ بار بار حکومت سے یہ التجا کرتی رہیں کہ ’میرا علاج کروا دیں، میں ٹھیک ہو جاؤں اور اپنے پیروں پر جلد از جلد اپنے گھر چلی جاؤں۔ اب تو میرے امی ابو بھی نہیں رہے جو میرے لیے کچھ کرتے، اب میں ہوں اور بس اللہ پر بھروسہ ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp