امریکا کو اڈے نہ دینے کا فیصلہ


وزیراعظم عمران خان نے امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کسی بھی صورت امریکا کو اپنی سر زمین پر فوجی اڈوں کے قیام کی اجازت نہیں دے گا۔ اس پر بعض حلقے بجا طور پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے علاوہ پاکستان کے پاس آپشن کیا تھا اور کوئی سیاسی حکومت امریکا کا یہ مطالبہ پورا کرنے کا بار اٹھا سکتی ہے؟ ہر کوئی جانتا ہے پاکستان میں اس قسم کے فیصلے وزیراعظم محض اپنی صوابدید پر نہیں کر سکتے بلکہ یہ ریاستی موقف کا اظہار ہے اور یہ فیصلہ تمام ریاستی اداروں کی مشاورت سے ہوا ہوگا۔

امریکا نے افغانستان سے انخلا کا اعلان کرنے کے فوراً بعد ہی یہ مطالبہ شروع کر دیا تھا کہ افغانستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر نظر رکھنے اور بوقت ضرورت ڈرون حملوں کے لیے پاکستان اسے ایک بار پھر اپنی سر زمین پر اڈے فراہم کرے۔ اس سلسلے میں متعدد بار امریکی عہدیداروں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔ جس کے بعد اب پاکستان نے حتمی طور پر امریکی مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ یقیناً اس فیصلے پر پہنچنے اور امریکا جیسی سپر طاقت کو انکار کرنے کے لیے تمام ریاستی اداروں نے طویل مشاورت کی ہوگی اور اڈے دینے اور نہ دینے دونوں صورتوں میں جو مضمرات ہو سکتے اس پر غور و خوض کے بعد ہی فیصلہ لیا ہوگا۔

اس میں لازما طالبان کی اس وارننگ کا بھی ہاتھ ہوگا کہ افغانستان کے خلاف اگر کسی نے اپنی سر زمین استعمال کے لیے دی تو اسے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ طالبان امریکا کی سر توڑ کوشش ٹیکنالوجی و وسائل کے بھرپور استعمال کے باوجود نہ صرف متحد ہیں بلکہ فعال بھی تو اب کسی غیر ملکی فضائی بیس سے محض ڈرون حملوں کے ذریعے ان کا کیا بگاڑا جا سکتا ہے؟ قطر معاہدے کے بعد افغان طالبان ویسے بھی ایسی قوت تسلیم کیے جا رہے ہیں جو ایک سپر طاقت ریاست کو مکمل شکست نہ سہی اپنے موقف سے پسپا کر چکی ہے کیونکہ طالبان امریکا سے انخلا کی شرط منوا چکے ہیں۔

جبکہ امریکا کو افغانستان میں 750 ارب ڈالرز خرچ کرنے، 2300 فوجی زخمی کرانے اور اٹھارہ سال تک افغان کہساروں سے سر پٹخنے کے بعد فی الوقت یہی فیس سیونگ ملی ہے کہ طالبان نے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغان سر زمین دوسرے ممالک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔ حالانکہ یہ بھی امریکی کامیابی نہیں بلکہ ”دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے“ والی بات ہے۔ کیونکہ القاعدہ کو افغانستان میں کھلی چھوٹ دینے کی غلطی کا ادراک بہت پہلے طالبان کے امیر ملا عمر نے اپنی زندگی میں ہی کر لیا تھا اور القاعدہ قیادت کو بھی آگاہ کر دیا تھا کہ مستقبل میں اگر طالبان کی امارت دوبارہ قائم ہوئی تو افغانستان میں ان کو جگہ نہیں ملے گی۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد امریکی وہاں سے جو دستاویزات اٹھا کر لے گئے تھے ان سے اس بات کی تصدیق ہو چکی ہے اور امریکی مصنف سٹیو کول کی کتاب ”ڈائریکٹوریٹ ایس“ میں اس کا حوالہ بھی ملتا ہے۔

اس کے بعد امریکا کو پاکستانی سر زمین پر اڈے دینا ہمارے لیے کتنی بڑی مصیبت کا سبب بن سکتا تھا یہ سمجھنا مشکل نہیں۔ پاکستان اگر امریکا کو اپنی سر زمین پر اڈے قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے تو طالبان کی ناراضگی اسے مول لینا پڑے گی۔ افغان حکومت اور اشرف غنی کی اس وقت پوزیشن نہایت کمزور ہے اور حامد کرزئی جیسے سابقہ اتحادی بھی اس کی حمایت سے ہاتھ کھینچ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ازبک، تاجک، حزب اسلامی اور مختلف وار لارڈز بھی اس نازک موقع پر لازما اپنی اپنی طاقت دکھانے اور مفادات حاصل کرنے کی کوشش میں ہوں گے اور صاف نظر آ رہا ہے کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان پر طالبان کی ہی عملداری ہوگی۔

طالبان اس وقت بھی افغانستان کے ساٹھ فیصد رقبے پر قابض ہیں لہذا ایسے موقع پر طالبان کو اپنا دشمن بنا لینا کہاں کی دانشمندی ہوگی؟ اس بات کا بھی اب امکان نہیں رہا کہ افغان حکومت اپنے باہمی تضادات پر قابو پاکر اپوزیشن کے ساتھ گفت و شنید کے بعد متفقہ وفد تشکیل دے کر طالبان سے کسی فارمولے پر بات کرنے میں کامیاب ہو پائے گی۔ ان تمام قوتوں میں اتفاق رائے اگر نہ ہوا تو لازما ہر کوئی طالبان کے ساتھ علیحدہ لین دین کی کوشش کرے گا۔

اس کے بعد لامحالہ علاقائی قوتیں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے ماضی کی طرح اپنے حامی افغان دھڑوں کی سپورٹ میں آگے آ جائیں گی۔ یہ کہاں کی دانشمندی ہوتی کہ اس موقع پر جب صاف نظر آ رہا ہے افغانستان کے اگلے حکمراں طالبان ہوں گے، ہم امریکا کو اپنی زمین پر اڈے دے کر پڑوس میں ایک اور دشمن کا اضافہ کر لیں۔ اس نازک موقع پر تو ہمیں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ پچھلی بدگمانیوں کا خاتمہ کر کے طالبان کا اعتماد بحال کریں اور انہیں اس بات پر راضی کریں کہ خوں خرابے کے بغیر دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ کسی سمجھوتے پر وہ راضی ہو جائیں۔

افغانستان میں امن اور مستحکم افغانستان خود ہمارے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ پاکستان پر بھی افغان جنگ نے بہت مہلک اثرات مرتب کیے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ جنگ پاکستانی معیشت کو ڈیڑھ سو ارب ڈالرز کے نقصان سے دوچار کر چکی ہے۔ افغانستان میں جاری بد امنی و عدم استحکام ہی پاکستان میں پچھلی دو دہائیوں سے جاری قتل و غارتگری کی اصل وجہ ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں کہ پاکستان کی ایک پوری نسل کا مستقبل اس خوامخواہ کی جنگ میں اتحادی بن کر تباہ ہو چکا۔

ہماری معیشت، سیاست، ثقافت، سیاحت، رواداری اور عالمی برادری میں اعتبار کا جنازہ نکالنے میں بھی اسی جنگ کا ہاتھ ہے۔ اگرچہ پچھلے چند سالوں میں عوام اور سکیورٹی فورسز کی بے مثال قربانیوں کے باعث بڑی حد تک امن بحال ہوا ہے، لیکن افغان سر زمین پر مستحکم حکومت کے قیام کے بغیر ہمارے ہاں پائیدار امن ممکن نہیں ہو سکتا۔ افغان طالبان کو امریکا کے ساتھ مذاکرات پر مائل کرنے میں پاکستان کا بڑا کردار ہے اور یہ کوشش بھی پاکستان ہی کر سکتا ہے کہ طالبان بغیر خون خرابے کے تمام افغان اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ کسی سمجھوتے تک پہنچ جائیں۔ اس کے لیے لیکن ہمیں طالبان کے سامنے اپنا اعتماد بحال کرنا ضروری تھا اور یہ اعتماد اس یقین دہانی کے بغیر کے آئندہ ہماری زمین ان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی بحال نہیں ہو سکتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments