یہ تو ہیجڑے ہیں


حافظ آباد سے رات بارہ بجے ایک کوچ اسلام آباد کے لئے روانہ ہوتی تھی۔ میں حافظ آباد سے سوار ہوا تو مجھے میرے قصبے کا ایک خواجہ سرا نظر آیا۔ میں نظریں چراتے ہوئے اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اس خواجہ سرا کو ہم بچپن سے دیکھتے آ رہے تھے۔ یہ عمررسیدہ خواجہ سرا ہمارے پورے قصبے (کالیکی منڈی) کے غم، خوشی، پیدائش و ولادت سے باخبر ہوتا تھا۔ یہ ان تمام خواجہ سراؤں کا گرو تھا جو اپنے لیے الگ بنائے گھر میں رہتے تھے۔ ہم نے بچپن سے ہی کبھی اس گھر میں قدم نہ رکھا تھا اور اس لئے خبر نہ تھی کہ ان خواجہ سراؤں کا رہن سہن کیسا ہے۔ اس گھر میں میری طرح سب بچوں کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ہمارے ہم عمر انہیں گھر سے باہر دیکھتے تو آوازے کستے۔ مذاق اڑاتے۔ الٹے ناموں سے پکارتے۔ وہ خاموشی سے آگے بڑھ جاتے۔

بالعموم یہ خواجہ سرا گھروں سے باہر ہی نہ نکلتے تھے۔ کسی شادی یا شادی کے بعد مبارک باد کے لئے کسی گھر آتے تو پورا محلہ اکٹھا ہو جاتا۔ پیتل کے گھنگھرؤں کی آواز گونجتی۔ ”اے ویل ویل۔ اے سہرے گانے والے دے ناں دی ویل“ کے نعرے گونجتے۔ لوگ انہیں دیکھتے اور بھدے سے انداز میں ناچتے ہوئے خواجہ سراؤں کا مذاق اڑاتے۔ مذاق اڑاتے اور ساتھیوں ہی ساتھیوں کے گال پر پیسے رکھتے۔ خواتین منہ چھپائے دیواروں، چھتوں پر ان کھسروں کا ناچ دیکھتیں۔ (خواجہ سرا کا لفظ تو کالج، یونیورسٹی میں جا کر سنا تھا) ۔

ان کے گائے ہوئے گانوں میں نہ سر ہوتا اور نہ ہی ترنم۔ نہ رقص کرتے جسم کے زیر و بم متاثر کرتے اور نہ ہی لہراتے بدن سے کسی ہیجان خیزی کا اندیشہ ہوتا۔ لوگ انہیں دیکھتے، ویلیں کراتے۔ پیسے دیتے۔ مذاق اڑاتے اور بھرپور ہلہ گلہ ہوتا۔ اہل خانہ انہیں اس لئے بھی پیسے دیتے تھے کہ انہیں ان کی بددعا سے ڈر لگتا تھا۔ یہی گرو اس قصبے کے ہر گھر اور ان کے آبا و اجداد سے واقف تھا۔ وہ شجرہ نسب بیان کرتا، تعریف و توصیف کے راگ الاپتا اور پھر آخر میں گھر والے انہیں بس کرنے کا کہہ دیتے۔

رقص رک جاتا۔ خواجہ سرا گرو کی طرف دیکھتے۔ گرو گھر کے بڑوں کی طرف بڑھتا۔ باقی خواجہ سرا اپنا سامان سمیٹنے لگتے۔ ہارمونیم کو کپڑے میں باندھا جاتا۔ طبلے سمیٹے جاتے اور خواجہ سرا گرو اور گھر والوں کے مذاکرات کو ایک طرف کھڑے ہو کر دیکھتے۔ محلے دار روانہ ہو جاتے۔ دولہے کی ماں سٹیل کی پیٹی سے کھیس، سوٹ اور پیسے نکال کر دیتی۔ مزید پیسوں کا تقاضا ہوتا اور پھر کچھ دیر بعد ہنسی خوشی روانہ ہو جاتے۔

یہی گرو بازار سے گزرتا، بڑوں، چھوٹوں سے ہاتھ ملاتا، سر پر پیار دیتا اور اس کے گزرتے ہی اردگرد کے لوگ اس کا مذاق اڑاتے اور آگے بڑھ جاتے۔ ویسے حیرت کی بات ہے کہ میں نے آج تک کسی خواجہ سرا کو روتے نہیں دیکھا۔ میری اور آپ کی طرح گالی دیتے نہیں سنا۔ کے ایف سی، میکڈونلڈ پر بیٹھے زنگر برگر کھاتے نہیں دیکھا۔ کراچی کے کولاچی، چارکول پر کھانا کھاتے نہیں دیکھا۔ میریٹ، پی سی میں کافی پیتے نہیں دیکھا۔ میں نے اسے کبھی اسلام آباد کے ٹریل فائیو پر ہائیکنگ کرتے نہیں دیکھا۔

مجھے کبھی کوئی خواجہ سرا مہنگے شاپنگ مال میں ہماری طرح شاپنگ کرتا نظر نہیں آیا۔ نظر آیا تو کہیں ٹریفک سگنل پر یا گاڑیوں کی پارکنگ میں ہاتھ پھیلاتا پایا گیا۔ ماں باپ کو تھامے کسی ہسپتال کی او پی ڈی تک میں بھی نظر نہیں آیا، حالانکہ یہ بھی کسی ماں کے بطن سے پیدا ہوا انسان ہے۔ اس کی بھی بطور بیٹا یا بیٹی ذمہ داریاں ہیں۔

گاڑی جہلم میں واقع ایک ریستوران کے سامنے رکی۔ اس گرو خواجہ سرا نے مجھے دیکھ لیا۔ بہت چاؤ اور پیار سے میرے پاس آیا۔ ہلکا سا گلے لگایا اور میرے سر پر پیار دیا۔ مجھے عجب سی کوفت ہوئی۔ مجھے لگا کہ لوگ کیا کہیں گے۔ یہ تو میری بے عزتی ہو گئی۔ بس کے لوگوں کے سامنے میری سبکی کا احساس پیدا ہوا۔ میں چہرے پر سنجیدہ سی مسکراہٹ لئے ایک طرف بڑھ گیا۔ میں نے اس سے زیادہ بات چیت ہی نہ کی۔ اس کے پاس رک کر بات کرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ وہ اکیلا، چائے لئے ایک کونے میں کھڑا چائے پیتا رہا۔ اسے بھلا اس شخص نے قبول نہیں کیا تھا جو اس کے قصبے کا تھا۔ اسے بھلا پوری بس کے مسافر کیسے اور کیوں کر ساتھی قبول کرتے جو مختلف شہروں اور دیہاتوں سے آئے تھے۔

سب مسافر واپس سوار ہوئے۔ میں بھی آخر میں آ کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ چہرے پر رومال پھیلایا اور سو گیا۔ علی الصبح گاڑی رکنے کی آواز محسوس ہوئی۔ فیض آباد آ چکا تھا۔ آدھے مسافر اتر چکے تھے۔ میں بھی اٹھا۔ گرو گاڑی سے اتر کر جا چکا تھا۔ وہ مجھ سے پہلے اترا اور گم ہو گیا تھا۔ اس نے مجھے مل کر جانا بھی مناسب نہیں سمجھا تھا۔ شاید اس نے مجھے نیند سے جگانا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ اسے میرا آرام عزیز تھا۔ شاید اسے میرا آرام اور معاشرے میں عزت کا زعم عزیز تھا۔ اسی لئے اس نے مجھے دوبارہ شرمندہ ہونے سے بچا لیا تھا۔

میں اور آپ تو کبھی کبھار کسی کے منفی رویے کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ تو اللہ کے وہ بندے ہیں جو کبھی کبھار ہی اچھے رویے کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ کڑھنا، جلنا، رونا، سسکنا باقاعدہ سے سیکھتے ہیں۔ علیحدہ گھروں میں رہ کر اس کی ریہرسل کرتے ہیں۔ ممکن ہے آنسو چھپانے کی تکنیکی کلاسز ہوتی ہوں گیں۔ یہ اپنے گھر والوں کو سبکی اور احساس شرمندگی سے بچانے کے لئے گھر، ماں باپ، بہن بھائی سب چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ تو کھسرے، ہیجڑے، چھکے اور خواجہ سرا ہیں۔

یہ تو تیسری دنیا اور کھسر پھسر ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ہم اچھے اور باعزت انسانوں کی زندگی میں ان کی کوئی جگہ نہیں۔ یہ اکثر اوقات ماں باپ، بہن بھائیوں اور قصبے کے معززین کو دیکھ کر ایک طرف ہو جاتے ہیں۔ وہ گرو مجھے زندگی میں دوبارہ کبھی نہیں ملا۔ پندرہ سالوں سے دوبارہ نظر بھی نہیں آیا۔ کبھی اس بارے کسی سے پوچھا بھی نہیں۔ آج تو میں بڑی بڑی تحاریر لکھ رہا ہوں۔ ممکن ہے میں پھر اسے دیکھ کر نظریں چرا لیتا۔ میں تو اس باعزت معاشرے کا مکمل انسان ہوں۔ مجھ مکمل انسان سے تو کسی بچے، عورت، مرد، خواجہ سرا، جانور کو ڈر ہو سکتا ہے بھلا کسی ”خواجہ سرا“ سے کوئی کیوں کر ڈر سکتا ہے؟ یقیناً اس معاشرے میں اسی کی عزت زیادہ ہے جس سے دوسرے ڈر محسوس کرتے ہوں۔ ”بے عزتی“ کا ڈر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments