مذہبی منافرت، عدم برداشت اور سیکولر معاشرے کی ضرورت


مذہبی جنونیوں کی نفرت انگیز تقاریر، مخالفین پہ لعن طعن و تابڑ توڑ حملے اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ ترقی کے لیے سیکولر معاشرہ وقت کہ اشد ضرورت ہے، پاکستان جیسے ملک میں جہاں مذہبی شدت پسندی اور مسلکی لڑائیاں حدوں کو چھو رہی ہیں اور نوجوان نسل کے ذہنوں پہ ان مٹ عدم برداشت اور نفرت کے جذبات رقم کر رہی ہیں، ریاست مدینہ کا دعویٰ کرنا کوئی عقل مندی نہیں، جہاں مختلف مسالک کے پیروکار ایک دوسرے کی مساجد میں جانے سے احتراز کرتے ہوں وہاں ایک اسلامی نظام لانے کی سوچ بھی عبث ہے، بیسیوں اقسام کی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مساجد ہیں آخر کس قسم کا اسلام نافذ کیا جانا چاہیے پاکستان میں؟

کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک مکتبہ فکر کو راضی رکھ کے دوسرے کا اسلام نافذ العمل ہو؟ یقیناً ایسا ممکن نہیں، اس لیے مذہب کو ذاتی نوعیت میں دیکھنا ہی بہتر حل ہے اور پاکستان کو ترقی کی راہ پہ ڈالنے کے لیے مذہبی و مسلکی جنونیت کا قلع قمع ناگزیر ہے اور ریاست کو مذہب سے آزاد کرنا ہی اس کا واحد حل نظر آتا ہے۔ سوشل میڈیا پہ آئے دن ایسی تقاریر نشر کی جاتی ہیں جس کو سن کہ کوئی ذی شعور انسان خود پہ قابو نہیں پا سکتا اور اس سے بے اختیار ایسا کام سرزد ہوجاتا ہے جو کہ معاشرے میں بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔ ان تقاریر کے ناشرین کو قابو میں لانا وقت کی اہم ضرورت اور ریاست کی ذمہ داری ہے ناکہ مذہبیت کا کارڈ کھیل کے خود کو اسلام پسند ثابت کرنا ریاست کا کام ہے۔

ان حالات میں جب کہ ملک شدید بحرانوں میں گھرا ہوا ہے آئے دن مذہبی شخصیات کی نازیبا ویڈیوز اور تصاویر کے وائرل ہونے سے مزید منافرت کے جذبات پھیل رہے ہیں، ایک مسلک کے ملا حضرات کی ویڈیو کو مخالفین شد و مد سے بیان سے کرتے ہیں مگر جب کوئی ایسی فحش ویڈیو دوسری طرف سے وائرل ہوتی ہے تو ایک عجیب طوفان بدتمیزی برپا ہو جاتا ہے جس سے دو نقصانات ہوتے ہیں، اول: ایک جنگ اور آپسی چپقلش کا بازار گرم ہو جاتا ہے ایک دوسرے کے مسالک پہ تابڑ توڑ حملے کیے جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو دائرہ اسلام سے خروج کا پروانہ دیا جاتا ہے، دوم: بچوں کے دلوں میں ان لوگوں کو دیکھ کے اسلام کے خلاف نفرت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں جس سے ”حقیقی اور سچے“ اسلام کا شدید نقصان پہنچتا ہے۔

معاشرے میں بڑھتے ہوئے اس عدم برداشت کے سلسلوں کو روکنے، لوگوں کے دلوں میں ”حقیقی اور سچے اسلام“ ایسا اسلام جو دلیل سے بات منوانا پسند کرتا ہے جو برداشت کا درس دیتا ہے جس کا پیامبر بولتا تھا تو پھول جھڑتے تھے، کی وحدانیت کو برقرار رکھنے، اور ملک کو ترقی کی راہوں پہ ڈالنے کے لیے ان منھ زور ملاؤں کو نکیل ڈالنے اور ریاست کو مذہبیت سے آزاد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments