جدید قصہ خواں اور ہماری قوم


آپ کو تحریر کی سرخی سے ہی اندازہ ہو چکا ہے کہ یہ تحریر صرف زبانی جمع خرچ کرنے والے باتونی لوگوں کے متعلق ہے۔ ہمارے یہاں پنجابی میں ایک جملہ بہت عام ہے ”گلاں دا کھٹیا کھان آلے“ (دوسروں کو باتوں کے سحر سے مبتلا کر کے کمانے اور کھانے والے ) اس جملہ سے مراد ایسے لوگ جنہیں اپنی زبان کے استعمال اور الفاظ کے چناؤ پر عبور حاصل ہو اور اپنی اسی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ لوگ اپنی روزی روٹی کا بندو بست کرتے نظر آئیں۔

مذکورہ بالا جملہ عموماً کسی شخص کے منفی کردار کو ظاہر کرنے کے لئے بولا جاتا ہے۔ اور پنجابی یہ جملہ زیادہ تر ٹھگ قسم کے لوگوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اگر اس جملے کے منفی پہلو کو نظر انداز کر دیں تو بہت سے پیشے اس جملہ کے احاطہ میں قید ہوتے نظر آتے ہیں۔ جن میں سر فہرست بے چارے مارکیٹنگ اور سیلز کی جاب کرتے حضرات ہیں۔ جن کا کام ہی صبح سے شام تک اپنے گاہک کو زبانی کلامی مطمئن کر کے اشیاء فروخت کرنا ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ کچھ نوسرباز لوگ اپنے الفاظ سے دوسروں کو سبز باغ دکھا کر ان کو لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں یا کوئی بھی اور ایسا طریقہ جس میں صرف جھوٹ، فریب یا لالچ کے ذریعہ لوگوں سے مختلف نذرانے /تحائف، فیس یا چندہ وغیرہ اینٹھ لیا جاتا ہے سب اسی دائرہ کار میں آتا ہے۔

پچھلے چند سالوں میں ہمارے پیارے وطن میں اک نئے طریقہ سے لوگوں کی جیبوں سے پیسے نکلوانے والے پیشہ ور آن وارد ہوئے ہیں اور ان میں بدرجہ اتم باتونی لوگوں کی تمام تر خصوصیات موجود ہیں۔ یہ پیشہ ور واقعی باتوں سے کمایا کھاتے ہیں۔ قریب دو دہائی قبل یہ پیشہ پاکستان میں نا پید تھا۔ پھر گنتی کے چند افراد سامنے آئے اور اسٹیج پر کھڑے ہو کر لوگوں کو ایسے ایسے سبز باغ دکھانا شروع کیے کہ پوچھیے مت۔

سونے پر سہاگہ ہماری افسانہ پسند قوم ہے، جنہیں آج تک ملکی تاریخی حقائق بھی صرف مخصوص طبقہ کے گھڑے ہوئے قبول ہیں۔ ہمارے عوام حقیقت کی بجائے افسانوں کی دنیا میں رہنا پسند کرتے ہیں اور حقیقی دنیا میں کچھ کرنے کی بجائے افسانوں اور خیالوں میں ہی ہیرو بننا مناسب سمجھتے ہیں۔ ایسی قوم قصہ خوانوں کے لئے اک آسان شکار ہے۔ ان کو جب آپ خوبصورت اور چٹ پٹے قصے سنائیں گے انہیں اک رات میں امیر ہونے کے سپنے دکھائیں گے اور سچی جھوٹی آپ بیتی سنائیں گے تو آپ کی کامیابی یقینی ہے۔ لہذا دیکھتے ہی دیکھتے یہ حضرات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے میں کن لوگوں کی بات کیے جا رہا ہوں تو آپ کی الجھن ابھی ختم کیے دیتا ہوں۔

میں در اصل آج کل کی نئی پیداوار جو خود کو موٹیویشنل اسپیکر کہلواتے ہیں ان کے بارے میں بول رہا ہوں۔ پہل پہل تو ان کی تعداد بہت کم تھی۔ اور اسی وجہ سے ان حضرات کے اسٹیج پر کھڑے ہو کر تماشا کرنے کے دام بھی زیادہ تھے۔ ہمارے معاشرے میں چونکہ بھیڑ چال ہی سب کا وتیرہ ہے لہذا اک دوسرے کے دیکھا دیکھی اور ان کی موٹی کمائی پر نظر رکھتے ہوئے پاکستان میں ان افراد کی تعداد دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی گئی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب آپ کو ہر گلی محلے میں ایک آدھ موٹیویشنل اسپیکر مل جاتا ہے۔

مارکیٹ کے اصول کے مطابق جو جنس عام اور ضرورت سے زائد ہو جائے وہ ارزاں ہو جاتی ہے تو بالکل ایسے ہی ان حضرات کی تعداد جب ضرورت سے زائد ہوئی اس کے ساتھ ہی اس پیشہ سے منسلک افراد ارزاں نرخوں میں بھی دستیاب ہونے لگے۔ اردو کی مشہور کہاوت ”جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں“ کے مصداق ان لوگوں کی معاشرے کی بہتری کے لئے مجموعی کاوش دیکھ لیں تو وہ فقط زبانی جمع خرچ سے زیادہ نہیں ہے۔

بے روز گار افراد کو ان کا مشورہ ہوتا ہے کاروبار کریں کاروبار میں بہت فائدہ ہے۔ مگر کون سا کاروبار کریں؟

کون سا کاروبار کریں؟
اسکی فیزیبلٹی رپورٹ کن چیزوں کو مد نظر رکھ کر بنائیں؟
کس طرح کاروبار کریں؟
کون سے اصول کاروبار کے لئے ضروری ہیں؟
کاروبار کے لئے سرمایہ کہاں سے لائیں؟
کن اجناس کو بنایا جایا یا کون سی سروسز فراہم کی جائیں؟
کن اجناس کی منڈی میں طلب ہے؟

اور اسی طرح کے بہت سے سوالات کے جواب شاید کاروبار کا مشورہ دینے والوں کو خود پتا نہیں ہوتے۔ بندر کے ہاتھ ماچس یا موٹیویشنل اسپیکر کے ہاتھ مائیک ایک ہی بات ہے۔ جو منہ میں آئے بول دیں۔

ایک مشہور بلکہ بہت مشہور موٹیویشنل اسپیکر کے بارے میں یہ جملہ زبان زد عام ہے کہ ان کے ساتھ قریب قریب دنیا کا ہر واقعہ پیش آ چکا ہے ما سوائے بچہ جننے کے (ہو سکتا ہے سائنسی ترقی سے یہ بھی ممکن ہو جائے ) ۔ یہ بات آپ کو ان کے اپنے فیسبک پیج یا ویڈیوز کے تبصروں میں کہیں نا کہیں لکھی ہوئی مل جائے گی۔ ان تبصروں سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ حضرات واہ واہ کروانے کے لئے کیسے سچے اور جھوٹے قصے کہانیاں اپنی ذات سے منصوب کر لیتے ہیں۔ ان اسپیکرز کی عادات پرانے زمانہ میں شاہی قصہ گو حضرات سے ملتی جلتی ہیں جو اس وقت بادشاہ کو کہانیاں سنا کر خوش کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے اور بدلہ میں انعام و اکرام پاتے تھے۔ البتہ اتنا فرق موجود زمانہ میں ہے کہ یہ قصہ گو عام آدمی کی رسائی میں ہیں۔

چند دن پہلے میں اپنے موبائل پر فیس بک استعمال کر رہا تھا کہ اچانک اک ویڈیو سامنے آئی اس ویڈیو کا عنوان کچھ ایسا تھا ”کیا آپ ایک ایسی قوم کو جانتے ہیں جس کا بچہ بچہ بزنس مین ہے؟“ ۔

میرے لئے یہ اک نئی اور انوکھی بات تھی تو ویڈیو پلے کرنے سے پہلے میں نے اپنے تئیں سوچا تو فقط اتنا خیال ذہن میں آیا کہ ضرور کسی بہت بڑی کاروباری فیملی کے متعلق یہ بات ہو گی کیوں کہ ایسے حضرات اپنے بچوں کو بہت جلد کاروبار سے منسلک کر لیتے ہیں۔ بہر حال میں نے وہ ویڈیو پلے کی تو کیا دیکھتا ہوں خود کو موٹیویشنل اسپیکر کہلوانے والے ایک صاحب ایک چھوٹے سے معصوم بچے کو جس کی عمر بمشکل دس برس ہوگی، سامنے بٹھا کر بطور مثال پیش کر رہے ہیں۔

جی یہ ہے اس قوم کا بچہ جس قوم کے لوگوں نے آج تک بھیک نہیں مانگی، آج تک کسی کی نوکری نہیں کی۔ یہ قوم کبھی کسی کی غلامی نہیں کرتی، ان کا چھوٹا سا بچہ بھی اپنا خرچہ خود اٹھاتا ہے۔ دیکھیں یہ بچہ بازار میں قہوہ بیچتا ہے اور اس کا اپنا کاروبار ہے، یہ اسی قوم سے تعلق رکھتا ہے جس کا بچہ بچہ اپنا کاروبار کرتا ہے۔ اسی طرح بہت کچھ بولے جا رہا تھا۔ اسپیکر صاحب کی باتوں کو اگر درست بھی مان لیا جائے پھر بھی ہر کام کا ایک مناسب وقت ہوتا ہے۔

میں ویڈیو میں صوفے پر بیٹھے اس خوبصورت اور معصوم بچے کو دیکھ رہا تھا جس کی عمر ابھی کھیلنے کودنے کی ہے اور اسپیکر صاحب اس بچے کو اپنی ویڈیو کی ریٹنگ بڑھانے کے لئے سامنے بٹھائے دکھا رہے ہیں۔ مجھے تو یوں لگا جیسے اسپیکر چائلڈ لیبر کو جائز سمجھتا ہے اور چائلڈ لیبر کو سپورٹ، بلکہ پروموٹ بھی کر رہا ہے، وہ سوچتا ہے کہ اس بچے کے والدین اسے یوں چھوٹی سی عمر میں در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر کے بہت اچھا کر رہے ہیں۔

چاہیے تو یہ تھا کہ موٹیویشنل سپیکر صاحب اس بچے کے والد سے کسی طرح رابطہ کرنے کے بعد اس کو کہتے بھائی اس معصوم کے اسکول جانے اور کھیلنے کودنے کے دن ہے آپ نے اس بچے کو کیوں زمانے کے بے رحم تھپیڑوں کے حوالے کر دیا؟

ہمارے یہاں غریب طبقے کی سوچتا ہے کہ جتنے کمانے والے ہاتھ ہوں گے اتنی ہی کمائی بڑھے گی، مگر ان کو تصویر کا دوسرا رخ نظر نہیں آتا کہ کمانے والے دو ہاتھوں کے عوض بتیس کھانے والے دانت بھی ہوں گے۔

آخر میں یہ تو میں بالکل بھی نہیں کہہ سکتا کہ بچے پیدا کرنے سے پہلے اپنی اوقات کو بھی دیکھ لیا کریں۔ مقدار سے زیادہ توجہ معیار پر دیں۔ کیونکہ اس بات پر کچھ لوگ اور ہی رنگ چڑھانے کی کوشش کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments