عمران طاہر: ’وکٹ کا جشن منانا میرے جوش کی عکاسی کرتا ہے‘

عبدالرشید شکور - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


کرکٹ

شائقین کا بس چلے تو وہ ہرگیند پر جنوبی افریقی لیگ سپن بولر عمران طاہرکو وکٹ حاصل کرتے دیکھنا چاہیں گے کیونکہ اس طرح انھیں جشن منانے کا وہ منفرد اور جوشیلا انداز دیکھنے کو مل جائے گا جو عمران طاہر کی خاصیت ہے اور شائقین اس کے گرویدہ بن چکے ہیں۔

عمران طاہر اس وقت ابو ظہبی میں جاری پاکستان سپر لیگ میں ملتان سلطانز کی نمائندگی کر رہے ہیں جہاں ان کی ٹیم پہلی بار فائنل میں پہنچی ہے اور جمعرات کی شب پشاور زلمی سے مقابلہ کرے گی۔

فائنل تک کے پہنچنے کے اس سفر میں عمران طاہر دس وکٹیں حاصل کر چکے ہیں جو موجودہ ایونٹ میں افغانستان کے راشد خان کی گیارہ وکٹوں کے بعد کسی بھی سپنر کی سب سے زیادہ وکٹیں ہیں۔

جشن کا یہ انداز کیا ہے؟

ابوظہبی کا شیخ زید سٹیڈیم اگرچہ تماشائیوں سے خالی ہے لیکن عمران طاہر کے جوش اور ولولے میں ذرا بھی فرق نہیں آیا ہے اور وہ وکٹ لیتے ہی اپنا مخصوص انداز اختیار کرتے ہوئے، بازو پھیلاتے ہوئے میدان میں بھاگنا شروع کردیتے ہیں اور ایک جگہ رکتے ہوئے مکہ لہراتے ہیں۔ یہ منظر دیکھنے والوں کو بھی ُپرجوش بنادیتا ہے۔

مگر اس انداز کی کوئی خاص وجہ؟ اس کے جواب میں عمران طاہر بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ‘وکٹ حاصل کر کے خوشی منانے کا میرا یہ انداز قدرتی ہے۔ میں اس کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کرتا۔ جہاں تک اس کی وجہ یا پس منظر کا تعلق ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے فرسٹ کلاس کرکٹ اور انٹرنیشنل کرکٹ میں آنے سے پہلے زندگی میں جو کڑا وقت گزارا ہے وہ میرے اندر سمایا ہوا تھا اب وہ اسی طرح باہر نکلتا ہے۔’

عمران طاہر کہتے ہیں ‘میں دنیا کو یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ جس چیز کا میں نے بہت انتظار کیا ہے وہ مجھے ملی ہے اور میں اسے مذاق میں نہیں لے رہا بلکہ بہت اچھے طریقے سے نبھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں اپنا جوش اور ولولہ کرکٹ دیکھنے والے تمام لوگوں کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں ۔ یہ ’جنٹلمینزگیم’ ہے اور میں اسے اسی جذبے کے ساتھ کھیل رہا ہوں۔’

اس انداز پر ہونے والے دلچسپ تبصرے

کرکٹ

عمران طاہر کے اس انداز پر سوشل میڈیا پر متعدد دلچسپ وڈیوز وائرل ہوچکی ہیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ عمران طاہر نے وکٹ لی دوڑنا شروع کیا اور پس منظر میں مختلف شہروں کی تصویریں ہوتی ہیں جو یہ بتارہی ہوتی ہیں کہ عمران طاہر ایک شہر سے دوسرے شہر تک چلے گئے ہیں۔

عمران طاہر کا کہنا ہے ‘اگر آپ کے کسی کام سے دوسرے خوش ہوتے ہیں تو اس میں آپ کی بھی خوشی ہے۔ میں اس لیے خوش ہوتا ہوں کہ جو چیز میں کررہا ہوں اس سے دوسرے لوگ بھی خوش ہورہے ہیں۔ میں زیادہ ٹی وییا سوشل میڈیا نہیں دیکھتا لیکن جب بھی انٹرنیٹ پر ہوتا ہوں تو میرے جشن منانے کے انداز کی دلچسپ وڈیوز اور میمزسامنے آجاتی ہیں اور میں بھی انھیں دیکھ کر لطف اندوز ہوتا ہوں۔’

عمران طاہر کہتے ہیں ‘جشن منانے کا یہ انداز خالصتاً میرے جنون اور جوش کی عکاسی کرتا ہے۔ مجھے خوشی ہوتی ہے کہ لوگ اس انداز کو پسند کرتے ہیں اور میری پوری کوشش ہوگی کہ جب تک میں کھیل رہا ہوں لوگ اسی طرح اس سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔’

اتنی زیادہ ٹیموں سے کون کھیلا ہوگا؟

اگر عمران طاہر کے کرئیر پروفائل پر نظر ڈالیں تو ان کے نام کے سامنے دس بیس نہیں بلکہ پوری 50 ٹیموں کے نام درج ہیں جن کی طرف سے وہ مختلف اوقات میں کھیلتے رہے ہیں۔

ان ٹیمز میں انگلینڈ کی کاؤنٹی سرکٹ کی آٹھ ٹیمیں بھی ہیں اور آج تک کسی بھی دوسرے کرکٹر نے ان سے زیادہ انگلش کاؤنٹی ٹیموں کی نمائندگی نہیں کی ہے۔

عمران طاہر انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ‘یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ ان تمام ٹیموں نے میری صلاحیتوں پر اعتماد کیا اور مجھے اپنے سکواڈ میں شامل کیا۔ میں جہاں بھی کرکٹ کھیلنے گیا ہوں میری کوشش رہی ہے کہ میں وہاں کی ثقافت کی عزت کروں۔وہ ٹیمیں جس طرح کھیلنا چاہتی ہیں اسی کے مطابق کھیلوں اور اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھاؤں۔ میں نے ہر جگہ اچھی کرکٹ کھیلی ہے اور بہت اچھا وقت گزارا ہے اسی لیے مجھے امید ہے کہ یہ ٹیمیں مجھے دوبارہ بلاتی رہیں گی۔’

کرکٹ

اگر عمران طاہر کے کرئیر پروفائل پر نظر ڈالیں تو ان کے نام کے سامنے دس بیس نہیں بلکہ پوری 50 ٹیموں کے نام درج ہیں

‘بنگلہ دیش میں نہیں کھیلوں گا’

عمران طاہر کہتے ہیں کہ انھوں نے جہاں جہاں لیگ کرکٹ کھیلی ہے وہاں معیار بہت اچھا رہا ہے اسی لیے انھیں ہر جگہ ایک جیسی ہی تیاری کرنی پڑتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی لیگ کو آسان نہیں سمجھتے اور ہمیشہ اپنی بہترین پرفارمنس دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

‘میں چاہتا ہوں کہ مجھے میری بہترین کارکردگی کی وجہ سے یاد رکھا جائے۔ میں آسٹریلیا گیا تھا لیکن صحت کی وجہ سے قرنطینہ مکمل نہیں کرسکا تھا اور مجھے واپس آنا پڑا تھا تو اس لیے بگ بیش نہیں کھیل سکا۔ میں بنگلہ دیش پریمیئر لیگ میں بھی گیا تھا لیکن میرا جو معاہدہ تھا اس کا ایک پیسہ بھی مجھے نہیں ملا لہذا اب میری وہاں کھیلنے کی کوئی خواہش نہیں ہےاور میں فیصلہ کرچکا ہوں کہ میں اب دوبارہ وہاں نہیں جاؤں گا۔’

ریڈ بال میں وائٹ بال جیسی کامیابی کیوں نہیں؟

عمران طاہر نے جنوبی افریقہ کی طرف سے 20 ٹیسٹ میچوں میں 57 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ 107 ون ڈے انٹرنیشنل میں ان کی حاصل کردہ وکٹوں کی تعداد 173 ہے جبکہ 38 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں وہ 63 وکٹیں حاصل کرچکے ہیں۔

کرکٹ

عمران طاہر یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں کہ ریڈ بال میں وہ کامیاب بولر ثابت نہیں ہوسکے ہیں۔

‘اگر میں ریڈ بال کھیلنا نہیں چاہتا تو یہ کیسے ممکن ہوتا کہ میں فرسٹ کلاس کرکٹ میں 784 وکٹیں حاصل کر پاتا۔ میں اپنی ساری زندگی ریڈ بال سے ہی کھیلا ہوں۔ اس کے ساتھ کھیل کر مجھے یہ پتہ چلا کہ وائٹ بال میں کس طرح بولنگ کرنی ہے اس کے لیے میں نے الگ طریقے سے محنت کی۔’

عمران طاہر کہتے ہیں کہ انھوں نے جتنی بھی ٹیسٹ کرکٹ کھیلی ہے وہ اس پر خوش ہیں۔

‘صرف ایک ٹیسٹ میچ ہے جس میں میری کارکردگی خراب رہی تھی جب میں نے میچ میں 260 رنز دیے اور کوئی وکٹ حاصل نہیں کی۔ لیکن اس کے علاوہ باقی 19 ٹیسٹ میچوں میں میری کارکردگی اچھی رہی ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

عمران طاہر کو جنید جمشید کی تصویر والی شرٹ پر تنبیہ

’ہیٹ ٹرک میں تجربہ کام آیا‘

پی ایس ایل: غیرملکی کرکٹرز میں کون دھاک بٹھائے گا؟

’تماشائی نے عمران طاہر کو نسل پرستانہ گالی دی‘

عمران طاہر بتاتے ہیں ریڈ بال میں زیادہ کامیاب نہ ہونے کی وجہ ایک یہ بھی کہی جا سکتی ہے کہ وہ جنوبی افریقہ کی ٹیسٹ کرکٹ میں تاخیر سے آئے اور اس وقت تک ان کی عمر 32 برس کی ہو چکی تھی۔

پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ

عمران طاہر کی پیدائش لاہور کی ہے۔ ان کی زندگی سخت محنت سے عبارت رہی ہے۔ صرف 16 برس کی عمر میں انھیں تین ہزار روپے ماہانہ پر سیلز مین کی نوکری کرنی پڑی تھی لیکن کرکٹ کا جنون انھیں لاہور انڈر 19 ٹیم تک لے گیا جب انھیں شاہد بٹ نے منتخب کیا۔

عمران طاہر مشکل وقت میں حوصلہ دینے والے پاکستان کے سابق فرسٹ کلاس کرکٹر اورکوچ محمد مسرور کو کبھی نہیں بھولتے اور جب 2017ء میں وہ انٹرنیشنل الیون کے ساتھ لاہور آئے تو اپنے رول ماڈل عبدالقادر سے ملے بغیر نہ رہے اور ان کے ساتھ تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ گزارا اور لیگ اسپن کی مفید معلومات حاصل کیں۔

عمران طاہر نے دس سال پاکستان میں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی اور اس دوران انہوں نے انڈر 19 ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی لیکن پھر ایک دن انہوں نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔

‘یقیناً یہ بہت مشکل فیصلہ تھا جو میں نے اپنی بیگم کے لیے لیا تھا۔ وہ چاہتی تھیں کہ میں جنوبی افریقہ میں کرکٹ کھیلوں۔ میں نے ان کی اس بات کا احترام کیا تھا اور یہ سوچا کہ میں جنوبی افریقہ میں کھیل کر دیکھتا ہوں لیکن یہ اتنا آسان نہ تھا۔ کیونکہ دو تین سال مجھے بہت مشکل ہوئی لیکن چونکہ میرا مقصد انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنا تھا تو میں کرکٹ ساؤتھ افریقہ کا شکرگزار ہوں کہ انھوں نے میرے ٹیلنٹ کو پہچانا اور پانچ سال بعد مجھے ٹیم میں شامل ہونے کے لیے بلایا۔’

عمران طاہر کا کہنا ہے وہ بہت مشکل وقت تھا۔

کرکٹ

‘جنوبی افریقہ کی کی فرنچائز کرکٹ کا معیار بہت اچھا تھا اور وہاں کی وکٹیں بھی سپنرز کے لیے مدد گار نہیں تھیں۔وقت کے ساتھ ساتھ مجھے تجربہ آتا گیا کہ کس طرح وہاں رہ کر مجھے کامیابی مل سکتی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ جنوبی افریقہ کے لوگوں نے مجھے قبول کیا اور پیار دیا اور میرے خوابوں کو پورا کیا اور میں وہ کچھ دیکھ سکا جو میںنے اپنی ساری زندگی میں سوچا ہوا تھا کہ اگر میں کرکٹر بنا تو یہ سب کچھ کروں گا۔’

عمران طاہر کہتے ہیں ʹ زندگی آسان نہیں ۔کامیابی سخت محنت کرکے ملتی ہےاور اس سے زیادہ محنت اسے برقرار رکھنے کے لیے کرنی پڑتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے وہ چیزیں دکھادی ہیں جن کا میں ہمیشہ سے خواہش مند تھا لیکن میں زندگی میں اپنے والدین سے بھی محروم ہوا ہوں ۔ مجھے ہمیشہ اس بات کا دکھ رہے گا کہ میرے والدین مجھے انٹرنیشنل کرکٹ کھیلتا نہ دیکھ سکے ʹ ۔

بیٹے کو بتاتا ہوں مشکلات سے گھبرانا نہیں ہے

عمران طاہر کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹا ابھی چھوٹا ہے لیکن وہ ہر میچ کے موقع پر ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

‘میں اسے ایک ہی بات سمجھاتا ہوں کہ زندگی کی مشکلات سے گھبرانا نہیں ہے۔ میری کوشش ہے کہ میں ابھی سے اس کی اس طرح تربیت کروں کہ زندگی میں جن چیزوں نے مجھےباہمت بنایا ہے اسے ابھی سے ہی ان کا پتہ چل سکے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp