مرد کوئی روبوٹ نہیں


مرد کوئی روبوٹ نہیں، اگر عورت کپڑے کم پہنے گی تو اس کا اثر تو ہو گا۔ یہ جواب ہے اس سوال کا جو وزیر اعظم عمران خان نے خواتین پر جنسی تشدد سے متعلق امریکی ٹی وی کو انٹر ویو کے دوران دیا۔ ایسے ہی ملتے جلتے نادر خیالات کا اظہار وہ رواں سال 4 اپریل کو قومی ٹیلی ویژن پر ایک سوال کے جواب پر بھی دیے چکے ہیں۔ جب ایک خاتون نے ان کی توجہ ملک میں بڑھتے ہوئے جنسی جرائم کی طرف دلائی تھی۔ بقول وزیر اعظم پاکستان کے ایسے کیسز ملک میں بڑھتی ہوئی فحاشی کی وجہ سے ہیں۔

ان کے مطابق پردے کا تصور اسی لئے ہے کہ ٹیمپٹیشن ( بڑھاوا) نہ ہو۔ اور چونکہ معاشرے میں ہر انسان کے اندر کنٹرول کرنے کی طاقت نہیں ہوتی لہذا فحاشی بڑھنے کا کوئی تو اثر ہو گا۔ لگے ہاتھوں انتہائی دکھ کے ساتھ ملک کے مظلوم وزیراعظم نے اس بے بسی کا بھی اظہار کر ڈالا کہ ہم نے ملک میں بڑا سخت قانون بنایا ہے مگر ہم کتنے لوگوں کو پکڑ سکتے ہیں۔ اس انتہائی غیر ذمہ دارنہ اور مضحکہ خیز جواب کی توقع ریاست پاکستان کو ریاست مدینہ میں تبدیل کرنے کے نعرے مارنے والے عمران خان سے ہی کی جا سکتی ہے۔

ان کے حالیہ بیان کے بعد عوام میں ایک بار پھر سے چہ مہ گویاں شروع ہو گئی ہیں۔ کہ کیا صرف عورت کے مختصر کپڑے ہی جنسی جرائم کی اصل وجہ ہیں؟ کیا مرد اتنا ہی کمزور ہے کہ عورت کے کم کپڑوں سے اپنے حواس کھو بیٹھے گا؟ چلیں ہم کچھ وقت کے لیے وزیر اعظم صاحب کی دلیل مان ہی لیتے ہیں مگر ریپ تو برقعے اور حجاب پہنے عورتوں کے بھی ہوتے رہے ہیں۔ دیہات کی عورت کون سا جذبات کو بڑھاوا دلانے والے لباس پہنتی ہے۔ قصور کی زینب اور مردان کی عائشہ کے لباس میں کیا بیہودگی ہو سکتی ہے یا لاہور موٹر وے پر جب ایک ماں اپنے بچوں کے سامنے ریپ زدہ ہوئی تو کیا وہ وہاں بے حیائی دکھا رہی تھی۔

مختاراں بی بی تاریخ کے صفحوں پر آج بھی دہائی دے رہی ہے۔ آپ نے تو کفن میں لپٹی اور قبر میں لیٹی عورت کو بھی مجرم ٹھرا دیا۔ مغربی معاشرے میں یہ سب ہو تو بات سمجھ میں بھی آئے لیکن اسلامی مملکت پاکستان میں تو مردوں نے قوم لوط کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اب کوئی پوچھے کہ لاہور مدرسے کے صابر نے اپنے مختصر لباس کے ساتھ مفتی عزیز الرحمٰن صاحب کو کون سی دعوت گناہ دی ہو گی

”اگر میں اپنے بچے کے ساتھ جنسی زیادتی اور اسے قتل کرنے والے مجرم کو جلا کر اس کا جسم خاک بھی بنا ڈالوں، تو بھی میری روح کو سکون نہیں ملے گا۔میں اسے کبھی معاف نہیں کر پاؤں گی،“ یہ کہنا تھا قصور میں زیادتی کا نشانہ بننے والے ایک آٹھ سالہ بچے کی ماں کا۔ اس خاتون کے بیٹے کو پہلے ریپ کیا گیا اور پھر اسے قتل بھی کر دیا گیا۔ کسی بچے کی موت اس کے والدین کے لیے یقینی طور پر بہت بڑا المیہ ہوتا ہے لیکن ان والدین کو کیسے سکون آئے جن کے معصوم بیٹے بیٹیوں کے ساتھ مجرم پہلے جنسی زیادتیاں کرتے ہیں اور پھر انہیں قتل بھی کر دیتے ہیں اس پر ریاست مدینہ کے والی کی جانب سے ایسے غیر ذمہ دار بیانات زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔

پاکستان میں ہر سال ریپ کے تقریباً پانچ ہزار کیس رپورٹ ہوتے ہیں۔ ہزاروں ایسے ہیں جو رپورٹ نہیں کیے جاتے۔ جاگیرداروں اور وڈیروں کے نظام میں جہاں خواتین کو برہنہ کر کے کتے چھوڑ دیے جاتے ہوں۔ جہاں پہلے عزت کے مارے کوئی بولتا نہیں اور اگر کوئی بولے تو جان سے ہاتھ گنوا بیٹھتا ہے۔ میرے نزدیک ملک کے وزیراعظم کا قومی انٹر انٹرنیشنل ٹیلی ویژن پر اس طرح کا بیان انتہائی خطرناک سوچ کی غمازی کرتا ہے۔ وزیراعظم نے ریپ کی صرف اور صرف ایک وجہ بیان کی ہے اور وہ ہے عورت کے مختصر کپڑے یا آسان الفاظ میں اسے فحاشی کہہ لیں۔

لیکن فحاشی کو یہاں ڈیفائن کون کرے گا۔ کسی کو لمبی جینز پہنے لڑکی فحش دکھائی دیتی ہے، کسی کو دوپٹہ اوڑھے عورت فحش لگتی ہے اور کسی کو مدرسے میں سر پر عمامہ باندھے بچے فحش دکھائی دیتے ہیں۔ انتہائی افسوس کے ساتھ لکھ رہی ہوں کہ ملک کے وزیراعظم کا بیان جرم کو متاثر کندان پر ڈالنا اور ریپسٹ کو کھلم کھلا جواز فراہم کر رہا ہے۔ مانا کہ وزیراعظم نے اپنی عمر کا کافی حصہ برطانیہ میں گزارا ہے۔ اور وہ برطانوی نظام اور اداروں سے بہت زیادہ متاثر بھی دکھائی دیتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ مغربی مفروضوں کی بنیاد پر ابیوزر کو غلط اور قصور وار نہ سمجھیں بلکہ اسے اور بڑھاوا دیں کہ تم روبوٹ نہیں ہو۔

تم اپنے اس گھناونے فعل کے لیے آزاد ہو۔ کیونکہ قصور تمہارا نہیں تمہیں تو ٹیمپٹ کیا جا رہا تھا یا تمہاری برداشت کم ہے۔ خان صاحب ریپ کی کئی وجوہات ہیں لیکن اسے صرف اور صرف فحاشی سے جوڑنا سراسر غلط ہے اس سلسلے میں بین الا اقوامی تحقیق یہ کہتی ہے کہ 35 % لوگ جو بچپن میں جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں بڑے ہو کر ابیوزر بنتے ہیں۔ کچھ ریپسٹ ذہنی مریض ہوتے ہیں۔ عورت کا احترام نہ ہونا، گھر سے قبر تک اسے برابر کا انسان نہ سمجھنا۔

یہ طاقت اور غصے کا اقدام ہے۔ کئی دفعہ بدلہ لینے اور دشمنی میں مخالف کی عورتوں کو ریپ کیا جاتا ہے۔ تاریخ میں ان گنت ایسی مثالیں ملتی ہیں جب فاتح افواج نے مفتوح ملک کی عورتوں اور بچوں کا ریپ کیا۔ کئی کیسز میں یہ اقدام باقاعدہ منصوبہ بندی کی تحت بھی کیے گئے ہیں۔ وجہ بہرحال کچھ بھی ہو لیکن جرم روکنے کی ذمہ داری بہرحال ریاست پر ہی عائد ہوتی ہے۔ ریپ کے واقعات پر قابو پانا ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ انہیں کنٹرول کرنے کے لئے اصلاحات کا ایک جامع فریم ورک درکار ہے۔

جب کہ ہمارے ہاں پولیس ریفارمز کا ڈھنڈورا تو بہت پیٹا جاتا ہے لیکن عمل ندارد۔ پاکستان میں اوسطا روزانہ تقریباً سات بچے جنسی ہراسانی کا نشانہ بنتے ہیں۔ اکثر متاثرہ بچے بچیوں کو قتل بھی کر دیا جاتا ہے اور ان کی میت ملنے پر نامعلوم ملزمان پر رپورٹ درج کر کے کارروائی شروع کی جاتی ہے۔ مگر قدامت پسند پاکستانی معاشرے میں آج بھی اس موضوع پر کھل کر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ قومی اسمبلی میں ’زینب الرٹ بل‘ کو منظور تو کر دیا لیکن اس بل میں مجرم کی سزا کی بات کریں تو پاکستان کے قانون کے مطابق پہلے ہی ریپ کیس میں موت کی سزا موجود ہے لیکن آج تک کتنے لوگوں کو یہ سزا ملی؟

کتنوں کو آج صدر جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں لاہور میں ’پپو‘ نامی بچے سے جنسی زیادتی کرنے والے مجرم کو سرعام پھانسی یاد ہے؟ جب مجرم کو یہ یقین ہو کہ نظام میں خرابیاں ہی اتنی زیادہ ہیں کہ وہ چھوٹ جائے گا تو جرم کا یہ سلسلہ کبھی نہیں تھمے گا۔ ٹاپ ٹو باٹم اس مائنڈ سیٹ میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ ایسی سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہے جہاں مظلوم کو قصوروار اور مجرم کو بے قابو نہ سمجھا جائے۔ ایسے معاشرے جہاں امن ہو، صنفی احترام ہو، انسانی حقوق کی پاسداری ہو، اخلاقی اقدار جتنی پختہ ہوں گی، جرائم اتنے ہی کم ہوں گے۔ لیکن کیا ہی اچھا ہو اس کے محرکات کو تلاش کر کے ان کا سدباب کیا جائے۔ ملک کے تمام ادارے اور مشینری اپنے ماتحت ہونے کے باوجود جب ملک کا سربراہ جرائم کی ذمہ داری جب مظلوم پر ہی تھوپنے کی کوشش کرے تو تف ہے اس سوچ پر اور افسوس ہے ایسی حکمرانی پر!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments