ہنوز دلی دور است: مودی ’دل کی دوری‘ ختم کر کے مقبوضہ کشمیر میں ہندو راج چاہتے ہیں


بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے 14 لیڈروں سے ملاقات کی ہے۔ تین گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ملاقات میں کشمیر ی لیڈروں کی طرف سے ریاست کے طور پر کشمیر کی حیثیت بحال کرنے پر زور دیا گیا۔ خبروں کے مطابق نریندر مودی نے شرکا کی باتیں دھیان سے سنیں اور کہا کہ وہ ’دلی کی دوری کے علاوہ دل کی دوری‘ بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم کشمیری عوام کے دلوں میں پڑنے والی دراڑ کو پاٹنا نہ تو نریندر مودی کی ترجیح ہے اور نہ ہی وہ اس کی کوشش دکھائی کرتے دیتے ہیں۔

اس ملاقات کے بارے میں کوئی سرکاری بیان ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کا راستہ ہموار کرنے کے لئے اگست 2019 کے بعد کشمیری لیڈروں کے ساتھ نریندر مودی کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ ملاقات میں وہ کشمیری لیڈر بھی شامل تھے جنہیں 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بدلنے کی آئینی شق ختم کرتے ہوئے نظر بند کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی، فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ سمیت متعدد سیاسی لیڈروں نے گوپکار اعلامیہ کے تحت مقبوضہ کشمیر کی سابقہ خصوصی حیثیت بحال کرنے اور اسے وفاق کے زیر انتظام علاقے کی بجائے بدستور ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ واضح نہیں ہوسکا کہ گوپکار اعلامیہ میں شامل 7 بھارت نواز کشمیری پارٹیوں نے آج کی ملاقات میں کس حد تک یہ مشترکہ مطالبہ منظور کرنے پر اصرار کیا۔

ملاقات میں شامل سب کشمیری لیڈروں نے جن میں مسلمانوں کے علاوہ ہندو و سکھ لیڈر بھی شامل تھے البتہ کشمیر کو ریاست کا درجہ دینے پر اصرار کیا۔ ملاقات کے بعد ان لیڈروں نے میڈیا کو بتایا کہ وزیر اعظم نے اس مطالبے کو تسلیم کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ تاہم مقبوضہ کشمیر کو بھارتی فیڈریشن کی ریاست کی حیثیت دینے کا یہ مقصد نہیں ہوگا کہ اس کی 5 اگست 2019 والی حیثیت بحال کردی جائے گی۔ بھارتی آئین کی شق 370 کے تحت مقبوضہ کشمیر کو داخلی معامالت میں میں خود مختاری حاصل تھی اور بھارتی حکومت کشمیر اسمبلی کی منظوری کے بغیر کشمیر کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں تھی۔ نریندر مودی کی حکومت نے 5 اگست 2019 نے آئینی شق کو معطل کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئےکشمیر اسمبلی کی رائےلینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی تھی۔ بلکہ مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کو اس سے پہلے ہی ختم کیا جاچکا تھا۔ نئی دہلی کے اس یک طرفہ فیصلہ کے بعد مقبوضہ کشمیر میں شدید بے چینی اور خلفشار پیدا ہؤا تھا۔ تاہم بھارتی حکومت نے سیکورٹی فورسز میں اضافے اور مکمل لاک ڈاؤن جیسے ہتھکنڈوں سے کسی بڑے عوامی احتجاج کا راستہ روکا ہؤا ہے۔

دو سال سے زائد کے سیاسی تعطل کے بعد نریندر مودی کی حکومت نے ایک بار پھر کشمیری لیڈروں کو رام کرنے کے لئے اس ملاقات کا اہتمام کیا ہے۔ بھارت نواز کشمیری پارٹیوں کو مقبوضہ کشمیر کے عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل نہیں ہے لیکن جب بھی مقبوضہ علاقے میں انتخابات کا ڈھونگ کیا جاتا ہے تو یہی پارٹیاں انتخاب جیت کر حکومت سازی کرتی ہیں۔ گزشتہ چند برس کے دوران مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی بھی سیاسی طور سے مستحکم ہوئی ہے۔ جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی لیڈر محبوبہ مفتی بی جے پی کے ساتھ مل کر ہی اپریل 2016 سے جون 2018 تک مقبوضہ کشمیر کی وزیر اعلیٰ رہی تھیں۔ تاہم پھر کشمیر میں اسمبلی توڑ کر صدر راج نافذ کردیا گیا اور 5 اگست 2019 کو ایک قانون کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے اسے بھارتی فیڈریشن میں ریاست کی بجائے وفاق کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا گیا۔ اس انتظام میں مقبوضہ کشمیر کو دو انتظامی اکائیوں میں بھی تقسیم کیا گیا تھا۔

جن کشمیری لیڈروں نے آج بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کی انہوں نے متفقہ طور سے کشمیر کو دوبارہ ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا جسے ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی نے ہمدردی اور غور سے سنا۔ اس حوالے سے البتہ یہ معلومات سامنے نہیں آئیں کہ کیا کشمیری لیڈروں نے گوپکار اعلامیہ کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کے لئے آئین کی شقات 370 اور 35 اے کو دوبارہ متعارف کروانے کا مطالبہ بھی کیا یا بات صرف کشمیر کی بطور ریاست حیثیت بحال کرنے تک ہی محدود رہی۔ اسی طرح اس ملاقات کے حوالے سے یہ بات بھی ابھی تک واضح نہیں ہے کہ کیا اس ملاقات میں مقبوضہ کشمیر کو دو وفاقی اکائیوں میں تقسیم کرنے کے فیصلہ کو تبدیل کرنے پر بھی بات کی گئی ہے یا نہیں۔ خبروں کے مطابق اس ملاقات سے پہلے ہی گوپکار اعلامیہ میں شامل پارٹیوں میں افتراق پیدا کرنے کا اہتمام کرلیا گیا تھا۔

 بعض کشمیری لیڈر جن میں جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کے لیڈر فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ شامل ہیں، اب ریاست کی خود مختاری اور کشمیریوں کو اپنے علاقے میں فیصلے کرنے کی مکمل آزادی و استحقاق سے دست بردار ہورہے ہیں۔ اگر وفاقی حکومت کشمیر کی ریاست کے طور پر حیثیت کو بحال کردے تو وہ ان حقوق سے دست بردار ہوجائیں گے جن کی ضمانت آئینی شق 370 میں دی گئی تھی۔ کشمیری لیڈروں کی وزیر اعظم سے ملاقات سے پہلے ہی یہ اختلافات کھل کرسامنے آنے لگے تھے۔ محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت کو پاکستان سمیت تنازعہ کے سب فریقوں سے بات کرنی چاہئے۔ جبکہ فاروق عبداللہ سے جب اس بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’میں تو اپنے وزیر اعظم سے ملاقات کے لئے جارہا ہوں‘۔ اس سے ان لیڈروں کی جاہ پرستی اور کشمیری عوام کی جدوجہد سے لاتعلقی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ5 اگست 2019 کے ڈرامائی اعلانات سے تین روز پہلے فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ نے نریندر مودی سے ملاقات کی تھی لیکن کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کے بارے میں انہیں اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی۔ البتہ یہ لیڈر بدستور کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور نئی دہلی کے حکمرانوں نے انہیں ہمیشہ اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی نے اس ملاقات کے لئے جن لیڈروں کو مدعو کیا تھا ، ان میں حریت کانفرنس میں شامل کسی سیاسی پارٹی کا کوئی نمائیندہ شامل نہیں تھا اور نہ ہی نام نہاد کشمیری لیڈروں نے ’اپنے وزیر اعظم‘ سے ملاقات سے پہلے یا اس د وران یہ مطالبہ کیا کہ کشمیر کی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہوئے کشمیری عوام کی حقیقی نمائیندگی کرنے والی تمام پارٹیوں کو میز پر بٹھایا جائے۔ اس لئے اس ملاقات کے نتیجہ میں جو بھی سیاسی ’حل‘ سامنے لایا جائے ، وہ کشمیری عوام کے حقوق کی بحالی کی بجائے ایک ڈھونگ سے زیادہ نہیں ہوگا تاکہ دنیاکو یہ کہہ کر گمراہ کیا جاسکے کہ مقبوضہ علاقے میں سیاسی عمل بحال کرکے عوام کو خود فیصلے کرنے کا اختیار دیا جارہا ہے۔ بھارت نواز کشمیری لیڈر ایک بار پھر نئی دہلی حکومت کے اس جال میں پھنسنے کے لئے تیار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیری عوام کی جد و جہد کو ابھی نئے امتحان سے گزرنا ہوگا اور سیاسی خود مختاری کی جد و جہد جاری رکھنا پڑے گی۔

نریندر مودی اس ملاقات کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کا ڈھونگ رچانا چاہتے ہیں۔ وہ اگر ان لیڈروں کی طرف سے کشمیر کی بطور ریاست حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ مانتے ہیں تو اس کے بدلے میں جموں کے ہندو اکثریت والے علاقوں کی نئی حلقہ بندی کے ذریعے ریاستی اسمبلی میں ہندوؤں کی نمائیندگی میں اضافہ کی تجویز منظور کروانا چاہیں گے۔ اس طرح بھارتیہ جنتا پارٹی مستقبل قریب میں ایسی ’منتخب‘ حکومت قائم کرنے کی خواہش مند ہے جو مسلمان ووٹروں کی محتاج نہ ہو۔ یعنی کوئی غیر مسلم بھی اس علاقے کا وزیر اعلیٰ بن سکے حالانکہ مقبوضہ وادی کی واضح اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ بی جے پی نے اس حوالے سے کشمیر کے ڈومیسائل قوانین میں ترمیم کے ذریعے اس علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے ایک غیر انسانی اور غیر اخلاقی منصوبے کا آغاز بھی کیا تھا۔ آج کے اجلاس میں اس حوالے سے بھی کوئی بامقصد سوال نہیں اٹھایا گیا۔

پاکستان نے اس وقت تک بھارت کے ساتھ بات چیت سے انکار کیا ہے جب تک 5 اگست 2019 کے فیصلوں کو مکمل طور سے واپس نہیں لیا جاتا۔ آج کی ملاقات کے تناظر میں یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کے نتیجے میں کوئی ایسا سیاسی اقدام دیکھنے میں آئے گا جو پاکستان کے لئے بھی قابل قبول ہو اور کشمیری عوام کے حق خود اختیاری کے اصول کی بنیاد پر دونوں ممالک مل کر کسی نتیجہ تک پہنچ سکیں۔ کشمیر کے معاملہ پر پاکستان کے ساتھ بات چیت سے انکار اور کشمیری عوام کے حقیقی نمائیندوں کو نظر انداز کرنے والا کوئی سیاسی عمل کسی بھی طرح علاقے میں پائدار امن اور خوشگوار تعلقات کی ضمانت فراہم نہیں کرسکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments