جانی خیل اور عثمان کاکڑ: ریاست کہاں ہے؟


گزشتہ کئی دنوں سے موجودہ حالات کے سخت اثرات کا شکار ہوں لکھتے ہوئے ہاتھ کانپتے ہیں جذبات اور احساسات متشدد ہو گئے ہیں اور خود کو ایک طرف رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہوں۔ یقین مانیں اس دوران سخت ذہنی تکلیف کی وجہ سے پوری نیند بھی نہیں لے پا رہا، لیکن بہرحال جو بھی ہے ان حالات کا سامنا ہم گزشتہ پندرہ سولہ سالوں سے کرتے آرہے ہیں مگر ان گزرے سالوں کے دوران ایک تسلی سی تھی امید کی، جو اب صرف ذاتی خوش فہمی لگ رہی ہے اور خود کو مایوسی کے اس کنارے پر کھڑا محسوس کر رہا ہوں جہاں صرف ڈوبا ہی جاسکتا ہے۔

جانی خیل میں جاری موجودہ دھرنے سے پہلے کے دھرنے کے بعد امید پیدا ہو گئی تھی کہ شاید اب ٹارگٹ کلنگ وغیرہ کی مکمل روک تھام کردی جائے گی لیکن کچھ دنوں بعد ہی پچھلے دھرنے کے سب سے اہم ملک یا مشر نصیب خان کو ٹارگٹ بنا دیا جاتا ہے، جس کی لاش لے کر گزشتہ پچیس دنوں سے دھرنا جاری ہے، اور ایک بار پھر مقامی لوگ دھرنا شروع کر دیتے ہیں جو تاحال جاری ہے۔ واقعات سے قطع نظر میرے امیدوں کے ان احساسات کو سخت دھچکا لگا کہ جب ریاستی سطح پر یا حکومتی سطح پر لاش کے ساتھ ہونے والے دھرنے کو لاش کی سیاست کہا جانے لگا اور سرکاری ٹرولز کہنا شروع ہوئے کہ ملک کے ہر علاقے میں لوگ مارے جاتے ہیں اگر اس طرح لاشوں کو لے کر دھرنے شروع کیے جائیں پھر تو ہر جگہ دھرنے ہی دھرنے ہوں گے۔

اگر یہ لوگ خود ریاست کے ساتھ مخلص ہوتے تو ان کا بیانیہ یہ ہرگز نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ اس نظام کے میں نظام عدل کی بہتری کے لیے سب سے ضروری بات یہی ہونی ہے کہ لوگ ان لوگوں کا احتساب کریں جن کی ذمہ داری ہے لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کی لیکن بدقسمتی سے ان ہی ہٹ دھرمیوں اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے اس وقت عوام قومیتوں میں بٹ رہے ہیں اور ملک میں اقوام کے دلوں میں یہ بات جگہ بنا چکی ہے کہ ہمیں ملک میں تیسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔

قومیتوں کی طرف آنے سے پہلے وزیرستان فاٹا یا ملحقہ علاقوں میں لاشوں کے دھرنے کی وجہ جو ہمیں سمجھ آئی وہ یہ ہے کہ ان علاقوں میں تاریخ کا بدترین تشدد گزرا ہے کیونکہ پندرہ بیس سالوں سے سرکار صرف تماشا ہی دیکھتی نظر آئی ہے اور لوگ سمجھنا شروع ہوئے ہیں کہ اب اگر اپنی حفاظت کرنی ہے تو خود قدم اٹھائیں گے ورنہ اسی طرح گمنام راہوں میں مرتے رہیں گے۔ نظام حکومت سے لوگوں کا اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے جو کہ انتہائی تشویش کا باعث ہونا چاہیے اگر کوئی اخلاص کے ساتھ ملک کو سوچ رہا ہے۔

جہاں تک اقوام، قوم پرستی یا قومیتوں کی بات ہے تو عثمان کاکڑ کی شہادت ایک بہت بڑی مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے۔ عثمان کاکڑ کا شمار پاکستان کے ان پارلیمنٹیرینز میں ہوتا تھا جن کو ان کے مخالفین سے بھی احترام دیا جاتا رہا تھا اور ہے لیکن جب اس کے موت کا افسوسناک واقع ہوا تو حکومتی مشینری بالکل غائب نظر آئی جس نے مزید سوالات کو جنم دیا۔ اگر جانی خیل دھرنے کو میڈیا پر کوریج نہیں مل پا رہی تھی تو ان کے لیے مختلف سازشی جواز گڑھے جا سکتے ہیں لیکن عثمان کاکڑ تو اس ملک کے پارلیمان کے سب سے معزز ارکان میں سے تھا اور ان کے جنازے و رسومات کا قومی میڈیا سے اس انداز میں غائب رہنا مزید مشکل سوالات کو جنم دینے کا باعث بنا، عثمان کاکڑ کے جنازے میں شریک لاکھوں افراد کا جم غفیر و ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے پشتونوں کی طرف سے آنے والا ردعمل ایک بہت بڑا پیغام ہے خدا کرے کہ اس کو سمجھا جائے۔

عثمان کاکڑ کے حوالے سے سب سے بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں کیا گیا کہ ان کے آخری رسومات پر غیر علانیہ پابندی لگتی نظر آئی؟ عثمان کاکڑ کی شہادت کی وجہ سے جہاں پشتون بطور قوم غم اور غصے کا اظہار کرنے لگی ہے وہیں بلوچستان کے بلوچ بھی کھل کر عثمان کاکڑ کے واقعے کے بعد سامنے آئے اور آنے والے دنوں میں بلوچ پشتون اتحاد کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا جو کہ حکمرانوں کے لیے مزید مشکلات کا باعث بنے گی۔

یقیناً طاقت انسان کو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کر دیتی ہے لیکن مجھ جیسے بہتری کے لیے سوچنے والے عام شہریوں کی وہ امیدیں بھی دم توڑتی جا رہی ہیں کہ اس ملک میں کبھی امن آئے گا سب کو برابری کے حقوق ملیں گے۔ ترقی کریں گے تعلیم حاصل کر کے مہذب دنیا کے سامنے کھڑے ہوں گے لیکن حالات ان تمام خوش فہم امیدوں کے برعکس سامنے آرہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں وہ معتدل آوازیں قومیتوں کے بھنور میں ڈوبتی نظر آ رہی ہیں جو کہ بہتری کی طرف امید کی کرنوں کی حیثیت رکھتی ہیں اور یقیناً اس کی ذمہ داری غیر ذمہ دار حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے جو ملک کے مفاد کے نام پر ذاتی مفادات اور طاقت کا تحفظ کر رہے ہیں یا پھر ان کی عقل اور سوچ پستی کی انتہاؤں پر ہے جو بربادی قتل و غارتگری کی طرف لے کر جائے گی۔

اس وقت جس طرح کے جذبات پائے جاتے ہیں یقین مانیں کہ سوشل میڈیا کو دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی اور لوگ جس قدر غضبناک دکھائی دے رہے ہیں ان کی سوچ کو برداشت کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ آخر کیا ہو گا آنے والے دنوں میں؟ آخر ایسا کیوں کیا جا رہا ہے کہ عوام کو ریاست سے متنفر کیا جا رہا ہے؟ کیا ان حالات کو بدلنے کی سوچ اور صلاحیت موجود ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ نفرتوں کے اس حصار کو توڑ کر لوگوں کے دلوں میں محبت کی سافٹویئر اپڈیٹ کی جائے؟ بہت مشکل ہے لیکن ناممکن کوئی چیز نہیں ہوتی البتہ نیت اور اخلاص ہر مشکل کام کے لیے بنیادی شرط ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments