کیا پاکستانی مدارس میں جنسی جرائم کی تحقیقات کے لیے کوئی باقاعدہ نظام موجود ہے؟

سارہ عتیق - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


مدرسہ
گورنمنٹ کالج لاہور کے فارغ التحصیل طلبا کے ایک فیس بک گروپ پر ایک پوسٹ شیئر کی گئی جس میں یونیورسٹی کے فزکس ڈپارٹمنٹ کے ایک استاد پر طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ اس پوسٹ میں کہا گیا کہ متاثرہ طالبات کی طرف سے یہ معاملہ اٹھایا گیا ہے۔

اس پوسٹ میں الزام عائد کیا گیا کہ لاہور کے گورنمنٹ کالج میں فزکس کے ایک استاد نازیبا کپڑے پہن کر اپنی شاگردوں کو ویڈیو کال کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

یونیورسٹی نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے واقعے میں ملوث استاد کو معطل کر دیا جبکہ جولائی 2020 میں یونیورسٹی کی انسداد جنسی ہراس کی کمیٹی نے معاملے کی تحقیقات شروع کردیں جس میں اس پروفیسر کو اس کا مرتکب پایا گیا جس کے بعد اگست 2020 میں کمیٹی نے تحقیقاتی رپورٹ اور اپنی سفارشات وائس چانسلر کو بھجوا دیں۔

لیکن خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے ایک مدرسے میں جب مبینہ طور پر ایک 10 سالہ بچے کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس نے شور شرابا کیا تو مدرسے کے دیگر لوگ جمع ہو گئے لیکن مبینہ ملزم کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے بچے کو مارا پیٹا اور ڈرایا گیا کہ خبر دار اگر اس نے کسی کو اس بارے میں بتایا۔

جب بچے کی طبعیت بگڑنے لگی تو مدرسہ انتظامیہ نے بچے کے گھر فون کر کے اسے واپس گھر لے جانے کا کہا۔ لیکن پھر بچے کے چچا کی درخواست پر اسے ہسپتال پہنچا دیا گیا جہاں طبی معائنے سے معلوم ہوا کہ بچے کے ریپ کے علاوہ اس بچے پر جسمانی تشدد بھی کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس میں اس واقعے کی رپورٹ درج کروائی گئی اور بالآخر پولیس کو اس مدرسے کو سیل کرنا پڑا۔

یہ دو واقعات اس بات کے عکاس ہیں کہ پاکستان میں اس وقت جو دو نظام تعلیم رائج ہیں ان میں یکساں اور مؤثر انسداد جنسی ہراس کا نظام موجود نہیں ہے۔

ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے مطابق پاکستان میں اس وقت ان کی تصدیق شدہ 228 یونیورسٹیاں ہیں جو ہر سال چار لاکھ سے زیادہ گریجویٹس تیار کرتی ہیں جبکہ ملک بھر کے بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، شیعہ اور جماعت اسلامی کے مدارس کے الگ الگ بورڈز کی مشترکہ تنظیم اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے مطابق اس وقت ملک ان کے زیر نگرانی 33 ہزار سے زائد مدارس میں 20 لاکھ سے زیادہ بچے زیر تعلیم ہیں۔

حالیہ دنوں میں تعلیمی اداروں بشمول مدرسہ اور یونیورسٹی میں ریپ اور جنسی زیادتی کے مبینہ واقعات سامنے آنے کے بعد والدین سمیت ہر باشعور شہری کے ذہن میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ اگر ہمارے بچے درس گاہوں میں بھی محفوظ نہیں تو پھر ان کی صحت مند تربیت کیسے ممکن ہو پائے گی؟

مدرسہ

مدارس میں جنسی جرائم کے خلاف کارروائی کا کیا نظام موجود ہے؟

پاکستان کی یونیورسٹیوں میں جنسی جرائم کی شکایت اور اس کے خلاف کارروائی کے لیے اساتذہ اور انتظامیہ پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی ہوتی ہے جو طلبا کے ساتھ پیش آنے والے جنسی جرائم کی تحقیقات کرتی ہے اور اس کی روشنی میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے البتہ یونیورسٹیوں میں قائم یہ کمیٹیاں کس پیشہ ورانہ مہارت اور دیانتداری کے ساتھ یہ کام سر انجام دیتی ہیں، اس پر وقتاً فوقتاً سوالات اٹھتے رہے ہیں۔

تاہم وفاق المدارس العربيہ اور وفاق المدارس الشیعہ کے زیر نگرانی چلنے والے مدارس میں انسداد جنسی ہراس کے لیے کوئی شعبہ موجود ہی نہیں۔

بچوں کے خلاف جنسی جرائم پر کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے ساحل کے مطابق گذشتہ سال 42 ایسے کیسز رپورٹ ہوئے جس میں بچوں کے خلاف جنسی تشدد میں کوئی مذہبی استاد ملوث تھا اور یہ واقعات مدرسے یا مسجد میں پیش آئے۔

یہ بھی پڑھیے

لاہور مدرسے کے طالب علم سے ریپ: ‘ملزم نے معاملہ جرگے میں لے جانے کی کوشش کی ہے’

تعلیمی اداروں میں جنسی ہراس: ’گھر والوں کو لگتا ہے کہ استاد کبھی غلط نہیں ہو سکتا‘

’یقین نہیں کہ الرٹ کا بٹن دبانے پر بھی پولیس مدد کو پہنچے گی‘

’ہمارے کپڑے نہیں تو ہمارا رویہ، وہ بھی نہیں تو وہ راستہ جو ہم نے لیا۔۔۔‘

وفاق المدارس کے میڈیا کوآرڈینیٹر مولانا طلحہ رحمانی کا کہنا ہے کہ وفاق المدارس العربیہ میں جنسی ہراس سے متعلق خصوصی کمیٹیاں تو موجود نہیں البتہ ہر ضلعے کی سطح پر تنظیم کی ملک گیر انتظامی کمیٹیاں موجود ہیں جہاں مدارس کے طلبا اس قسم کی شکایات لے کر جا سکتے ہیں اور اس کے علاوہ ہر مدرسے کی اپنی انتظامیہ بھی ہوتی ہے جسے ان واقعات سے متعلق آگاہ کیا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا ’یہ مسئلہ صرف مدارس کا نہیں بلکہ یہ واقعات عام یونیورسٹیوں اور سکولوں میں بھی پیش آ رہے ہیں لہٰذا اس کا تعلق مذہب یا مدرسے سے نہیں بلکہ معاشرے سے ہے اور ہمارے مدارس اور اس میں پڑھانے اور پڑھنے والے بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ وفاق المدارس کے زیر نگرانی 30 ہزار سے زائد مدارس ہیں اور ان سے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ علما اور 25 سے 30 لاکھ طلباء اس سے منسلک ہیں لہٰذا ایک شخص کے ذاتی فعل کی وجہ سے پورے سسٹم کو غلط کہنا درست نہیں۔‘

مولانا طلحہ رحمانی کا کہنا تھا کہ لاہور کے مدرسے میں پیش آنے والے واقعے کے خلاف فوری کارروائی کرتے ہوئے ملوث شخص کو مدرسے سے فارغ کر دیا گیا۔

ان کے بقول ’ان مدارس میں ہمارے اپنے بچے بھی پڑھتے ہیں لہٰذا ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ ہمارے مدارس طالب علموں کے لیے غیر محفوظ ہوں۔‘

مولانا طلحہ رحمانی کا کہنا تھا کہ ’ہر مدرسہ اپنی ضرورت کے مطابق اساتذہ بھرتی کرتا ہے اور اساتذہ کے انتخاب کے لیے کوئی یکساں اور مستقل ضوابط تو موجود نہیں لیکن اس کے لیے مفتی اور عالم دین کی ڈگری ہونے کی شرط لازمی ہے۔‘

ترجمان وفاق المدارس العربیہ کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں میں جنسی جرائم کا سدّ باب کرنے کے لیے اگر حکومت کوئی لائحہ عمل پیش کرتی ہے تو ان کی تنظیم ان کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی۔

وفاق المدارس الشیعہ سے فقہ جعفریہ کے 508 مدارس منسلک ہیں جن میں 18 سے 20 ہزار طلبا زیر تعلیم ہیں۔ وفاق المدارس الشیعہ کے جنرل سیکرٹری علامہ محمد افضل حیدری کا کہنا ہے کہ ان کے مدارس میں جنسی جرائم کی تحقیقات کے لیے کوئی کمیٹی یا نظام موجود نہیں لیکن اس قسم کے جرائم میں ملوث افراد کے خلاف تنظیم پاکستان کے قوانین کے مطابق کارروائی عمل میں لاتی ہے۔

علامہ محمد افضل حیدری کا کہنا ہے طلبا کے خلاف بڑھتے جنسی جرائم کی روشنی میں اب ان کی تنظیم اس کے خلاف باقاعدہ جامع نظام اور ضابطہ کار لانے پر غور کر رہی ہے۔

مدرسہ

’مدارس اپنا احتساب خود کریں‘

وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری کا کہنا ہے کہ حکومت نے وفاق المدارس کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ اپنے مدارس کے احتساب کے لیے خود ایک نظام تجویز کریں جس کے ذریعے ان میں جنسی جرائم کا خاتمہ کیا جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ جس طرح یونیورسٹیوں میں جنسی ہراس کی شکایات سے نمٹنے کے لیے ایک یکساں نظام موجود ہے اسی طرح ان مدارس میں بھی ایک مستقل نظام اور ضابطہ کار موجود ہو تاکہ اس کے مطابق ان شکایات کی تحقیقات ہو سکیں اور اس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔‘

نور الحق قادری کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ حکومت نے وفاق المدارس سے منسلک تمام علما اور اساتذہ کا ایک اضافی کورس بھی تجویز کیا ہے جس سے ان اخلاقی تربیت کی جا سکے۔

وفاقی وزیر کو امید ہے کہ وفاق المدارس حکومتی تجاویز پر جلد عمل کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp