عمران خان اور علم جنسیات

محمد حنیف - صحافی و تجزیہ کار


پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ساری زندگی ناممکنات کے ساتھ جنگ لڑی ہے۔ جب کرکٹ کھیلنے کی ابتدا کی تو اپنے ہر کزن نے کہہ دیا کہ تیرا کچھ بھی نہیں بن سکتا۔

پہلی دفعہ اپنے شہر لاہور میں انٹرنیشنل میچ میں بیٹنگ کے لیے اترے تو زیرو پر آؤٹ ہو کر پویلین واپس گئے اور بقول ان کے پچ سے پویلین تک واپس ان کی زندگی کی سب سے لمبی واک تھی۔

اس کے بعد جو ہوا وہ کون نہیں جانتا۔ کرکٹ کی دنیا کے سکندرِاعظم بن کر وہ اپنی والدہ کے نام پر کینسر ہسپتال بنانے نکلے تو لوگوں نے کہا خان صدمے میں پاگل ہو گیا ہے لیکن خان نے سکول کے بچوں سے چندہ لے کر ہسپتال بنایا۔

جب سیاست میں آئے تو بیس سال تک ان کے دشمن بلکہ کئی دوست بھی یہ کہتے رہے کہ اس بندے کو سیاست نہیں آتی۔ مرحوم حمید گل جیسے اتالیق بھی آئے لیکن دل چھوڑ گئے اور یہ کہتے پائے گئے کہ اگر یہ بندہ برطانیہ میں ہوتا تو کب کا وزیراعظم بن گیا ہوتا لیکن پاکستان کی سیاست میں ہمشیہ ہی خوار رہے گا کیونکہ یہ سیدھا سادھا آدمی ہے جو منہ میں آتا ہے کہہ دیتا ہے۔

اب آپ بتائیں کہ پاکستان کی سیاست کے وہ گرگے کہاں ہیں اور وہ سیدھا سادھا منہ پھٹ انسان کہاں بیٹھا ہے۔ الیکٹڈ سلیکٹڈ کی بحث چھوڑیں کس نے پاکستان میں اتنا طاقتور وزیراعظم دیکھا ہے۔ ان کے سیاسی دشمن یا تو جیلوں کو جا رہے ہیں یا ضمانت کروا کر جیل سے نکلنے کی فکر میں ہیں۔ جو زیادہ دور اندیش ہیں وہ پس پردہ چلے گئے جو باقی بچے ہیں وہ سیاسی میدان میں ان کا مقابلہ کرنے کے بجائے کبھی ہاتھ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھتے ہیں کبھی ہاتھ باندھ کر جنرل باجوہ کی طرف۔

خان صاحب اپنے سارے سیاسی دشمنوں کو پچھاڑ چکے۔ اب ان کا ایک دشمن بچا ہے اور وہ ہے ان کی اپنی زبان۔ اکثر فرماتے ہیں کہ مغرب کو مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا اور اب ہم تو کیا مغرب والے بھی مان گئے ہیں۔

بل گیٹس رات کو اس وقت تک سوتا نہیں جب تک رات کو خان صاحب سے فون پر بات نہ کرے۔ امریکی صدر جو بائیڈن اس کشمکش میں زندگی گزار رہا ہے کہ اسے فون کروں یا نہ کروں کیونکہ یہ بندہ مغرب کو مجھ سے زیادہ سمجھتا ہے۔ ابھی پچھلے ہفتے فرمایا کہ بہت سارے پاکستانیوں سے زیادہ ہندوستان کو سمجھتا ہوں کیونکہ جتنا پیار مجھے انڈیا میں ملا ہے کسی کو نہیں ملا۔

خان صاحب کے ان دعوؤں کے تصویری ثبوت موجود ہیں۔ خان صاحب کھل کر کہتے ہیں کہ پہلے میں گمراہ تھا پر میں راہ راست پر آ گیا۔ ان کے چاہنے والے اور ان کو ووٹ ڈالنے والے اور ووٹ ڈلوانے والے ان کی اس ادا کو پسند کرتے ہیں کہ وہ ایک پاکستانی مرد کی بولی بولتے ہیں جسے پنجابی میں جٹکا بھی بولتے ہیں یعنی جٹ کا انداز اور خان صاحب یہ باتیں رواں انگریزی میں بولتے ہیں۔

جٹکا بولنے سے جٹ برداری کی توہین مقصود نہیں ہے ویسے بھی جٹ اپنی توہین کا بندوبست گھر سے لے کر چلتے ہیں۔ مقصد صرف یہ ہے کہ خان صاحب ہمارے نوجوانوں کے لیے ایک اخلاقی مشعل راہ بھی ہیں۔ ہمارے نوجوان ان کی بات اس لیے بھی زیادہ سنتے ہیں کیونکہ وہ کسی مولوی کے گھر پیدا نہیں ہوئے، کسی مدرسے سے اخلاق سیکھ کر نہیں آئے۔ مشرق اور مغرب کو کھنگال کر اپنا راستہ خود چنا ہے۔

آپ ریپ کے بارے میں دو دفعہ نہیں تین دفعہ جو کہہ چکے ہیں کہ اصل مسئلہ فحاشی عریانی ہے اور مرد تو اپنے اوپر قابو رکھ سکتا ہی نہیں۔ لگتا یوں ہے کہ یا تو ان کا ذہن اپنے گمراہ ماضی کے کسی ڈسکو میں بھٹک رہا ہے یا ان کی زبان ان کی صاف اور نیک نیت کا ساتھ نہیں دیتی۔

ناقدین کی نہ سنیں کسی دن اپنی پارٹی کی متحرک خواتین کو گول میز کے اردگرد بٹھا کر تھوڑی دیر کے لیےاپنا منہ بند کر کے سنیں کہ اصل مسئلہ کیا ہے تو ان کو وہی سنائی دے گا جو معاشرے میں سب کو پتہ ہے۔

میں چار سال کی تھی اور میں نے شلوار قمییض پہنی تھی، میں آٹھ سال کی تھی اور دوپٹہ بھی کیا تھا، میں چالیس سال کی تھی اور چادر بھی پہنی تھی۔ زیادہ تر عورتیں اپنے گھروں میں بیٹھے، محلے میں، کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کا شکار ہوتی ہیں۔

عمران خان کی حکومت نے اس مسئلے پر قانون سازی بھی سخت کی ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ اسے ایک کریہہ فعل سمجھتے ہیں لیکن آخر میں ان کی زبان پر وہ بات آ جاتی ہے جو پاکستان کےلونڈے اور مرد سننا چاہتے ہیں کہ میں تو عورت کو دیکھ کر بے بس ہو گیا، مجھے اپنے اوپر کوئی قابو نہیں۔

خان صاحب خود اپنی نفسانی خواہشات مار کر ہی اس رتبے تک پہنچے ہیں تو یا تو اپنے کردار کی مثال دیں یا پھر اپنے قانون سے ڈرائیں۔

ان کو یہ تو پتا ہی ہو گا کہ ہر مرد کو ہر نو سیکنڈ کے بعد کوئی گندا خیال آتا ہے لیکن وہ اس پر عمل اس لیے نہیں کرتا کیونکہ اسے ڈر ہوتا ہے کہ عورت تھپڑ مار دے گی، شور مچائے گی، گھر میں محلے میں بدنامی ہو گی، کوئی زیادہ ہمت والی ہوئی تو تھانے کچہری پہنچ جائے گی۔ جہاں پر کم از کم کاغذوں میں قانون موجود ہے جو مرد کی سخت سزا کا وعدہ کرتا ہے۔

تو پھر عمران خان کو چاہیے کہ بار بار عورت کے کپڑوں کی پیمائش کرنے کی بجائے اپنا قانون خود ہی پڑھ لیں اور پھر قوم کے مردوں کو بھی اس قانون سے ڈرائیں اور کبھی کبھی اللہ کے عذاب کا بھی ذکر کر دیا کریں شاید ہماری بیمار ذہنیت کو افاقہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).