طالبان کو خوش آمدید کیوں؟


” طالبان پھر سے خلافت اسلامیہ کا پرچم لئے کابل کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں“

یہ الفاظ ایک پاکستانی اخبار میں چھپنے والے ایک کالم سے نقل کیے ہیں۔ اس اخبار میں طالبان کو دوبارہ اقتدار میں آنے پر خوش آمدید کہتے ہوئے ایک ہی دن پانچ کالم شائع کیے گئے ہیں۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارا دانشور ایک دہشت گرد ملیشیا کو کس طرح پورٹرے کرتا ہے اور کیسے عوام کی ذہن سازی کرتا ہے ایک کڑوی گولی کو میٹھی بنا کر کیسے پیش کرتا ہے۔ یہی کام اس وقت بھی کیا گیا جب روس کے خلاف پاکستانیوں کے بچے قتل کروانے کا پروگرام لانچ کیا گیا تھا۔ ایک پرائی جنگ میں لڑنے کے لئے جہاد کو پروموٹ کیا گیا اور آخر میں ہمارے حصے میں کیا آیا؟ کلاشنکوف کلچر جس نے پاکستانی معاشرے کو مسالک میں تقسیم کر ڈالا اور قتل و غارت گری کو فروغ دیا

سوال یہ ہے کہ ہمارے دانشور اور ان کی باتوں میں آئے ہوئے پاکستانی کیوں طالبان کو افغانستان میں حکومت کرتے دیکھنا چاہتے ہیں؟ کیوں انہیں خوش آمدید کہہ رہے ہیں؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہی جیسے طالبان نے جب پاکستان میں حکومت قائم کرنا چاہی تو یہی دانشور چیخ رہے تھے۔ ان کے خاتمے کے لئے لکھ رہے تھے۔ لیکن افغانستان میں انہیں خوش آمدید کہہ رہے ہیں؟ ایک دانشور و سابق سینیٹر نے امریکی انخلاء کو ذلت آمیز شکست سے تعبیر کیا ہے۔

کیا واقعی طالبان نے امریکہ کو افغانستان میں شکست دی؟ وہ جب تک چاہتے تھے افغانستان میں رہے، اب واپس جانا چاہا تو جا رہے ہیں۔ ان کا مشن القاعدہ کا خاتمہ اور اسامہ بن لادن کو پکڑنا تھا جس میں وہ کامیاب رہے۔ افغانستان کو تباہ کروانے کے بعد بھی سینیٹر کا یہی خیال ہے کہ امریکہ کو ذلت آمیز شکست ہوئی تو عام آدمی بھی یہی بات کیسے نہ کہے؟

چند غلط فہمیاں ہیں جن کے بارے میں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے

کہا جاتا ہے کہ امریکی طالبان کو ختم کرنے یا شکست دینے میں ناکام رہے۔ سوال یہ ہے کہ واقعی امریکی طالبان کو نیست و نابود کرنا چاہتے تھے؟ پورے افغانستان میں طالبان کے لشکر دندناتے پھر رہے ہیں۔ امریکہ نے کب ان پر کوئی بڑا حملہ کیا؟ کہاں کہاں امریکیوں نے بمباری کر کے طالبان کے لشکروں کو تباہ کیا؟ پاکستان نے ایک ہی سال میں سوات، وزیر ستان سے طالبان کا خاتمہ کر ڈالا۔ امریکہ کے لئے طالبان کا خاتمہ کرنا کیوں مشکل تھا؟

صاف سی بات ہے کہ طالبان کا خاتمہ ان کی ترجیحات میں شامل تھا ہی نہیں۔ دونوں نے ایک سمجھوتے کے تحت افغانستان میں بیس سال گزار لئے۔ طالبان نے بھی سینکڑوں خود کش دھماکوں میں ہزاروں افغان شہریوں کا قتل عام تو کیا مگر امریکیوں پر براہ راست کسی بڑے حملے سے گریز کیا۔ اگر ہم اوسط نکالیں تو فی ماہ ایک امریکی فوجی کی ہلاکت ہوئی اور اس بات پر ہمارے دانشور کہہ رہے ہیں کہ امریکہ کو افغانستان میں ذلت آمیز شکست ہوئی۔

آج وہی امریکہ طالبان کے لئے نئے ٹارگٹ متعین کر رہا ہے۔ طالبان کو دوبارہ مجاہدین اسلام کے عہدے پر فائز کر دیا گیا ہے اگلے ہفتے واشنگٹن میں طالبان کی امریکی انتظامیہ سے ملاقات میں اس معاملے پر ٹھوس بات چیت ہو گی۔ امریکیوں کو بخوبی علم ہے کہ دین اسلام کے نام پر مسلمانوں کو زہر بھی دے دو تو یہ بخوشی کھا لیتا ہے۔ اور اب ایک مرتبہ پھر یہی زہر خطے کے مسلمانوں کو کھلانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

یہ بھی سوچئے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی گروہ کسی بیرون مدد کے بغیر بیس سال تک دنیا کی سب سے بڑی جنگی طاقت سے لڑتا رہے؟ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی طرف سے طالبان کو مدد ملی۔ مگر کس لئے؟ کیا پاکستان افغانستان میں اسلامی خلافت نافذ کرنا چاہتا ہے؟ اس سے بھی بڑھ کر، کیا پاکستان میں اسلامی خلافت نافذ ہو چکی ہے؟ جو چیز پاکستانی ادارے خود پر لاگو نہیں کر سکے وہ افغانی عوام پر ان کی مرضی کے بغیر کیوں مسلط کیا جا رہا ہے؟ اور پاکستان کو یہ حق دیا کس نے ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ افغانستان پر کس کی حکومت ہو گی؟

دنیا میں کہیں بھی اس طرح ایک شدت پسند گروہ اقتدار پر قبضہ کو پسند نہیں کیا جاتا مگر پاکستان کے ایک طبقے کی جانب سے طالبان کو مسلسل خوش آمدید کہا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ طالبان پشتون ہیں اور افغانستان ان کا ملک ہے۔ مگر یہ دعویٰ حقائق کے بالکل برعکس ہے۔ پشتون افغان آبادی کا صرف چالیس فیصد یا اس سے بھی کم ہیں۔ بہترین حکومت وہی ہو سکتی ہے جس میں تمام نسلی گروہوں کی نمائندگی شامل ہو۔ اور یہ صرف جمہوری نظام کے تحت ہی ممکن ہے۔ افغانستان میں ایک جمہوری حکومت قائم ہے اگر کسی کو دعویٰ ہے کہ وہ عوام میں مقبول ہے تو انتخابات میں حصہ لے اگر اسے عوام اعتماد کے قابل سمجھے گی تو اقتدار میں لے آئے گی۔

لیکن ہمارے دانشوروں کے نزدیک پاکستان میں جمہوریت تو ٹھیک ہے مگر افغانستان میں جمہوریت غلط ہے۔ اگر کسی حد تک فرض کرتے ہوئے ہم یہ کہہ دیں کہ طالبان ایک غاصب حملہ آور کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے تو اب تو یہ غاصب جا رہا ہے۔ اب اپنے ہی شہروں پر کس لئے قبضہ کیا جا رہا ہے؟ طالبان کی تنگ نظری کو خوش نما الفاظ پہنائے جاتے ہیں۔ ان کی قتل و غارتگری کو دین اسلام سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کام میں پاکستانی دانشور سب سے آگے ہیں۔

یہ دوغلا پن کس لئے؟ اگر افغانستان میں شدت پسندوں کی حکومت کو خوش آمدید کہنا ہے تو پاکستان میں ان سے نفرت کیوں؟ اور کیا ہمارے دانشوروں کو یہ اندازہ نہیں ہو رہا کہ جس دن کابل پر طالبان قابض ہوئے اسی دن سے پاکستان میں بھی شدت پسند گروہ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ کابل میں ہونے والی شدت پسندی سے ہم کیسے بچ پائیں گے؟ کیا پاکستان میں طالبان کے ہمدرد موجود نہیں؟ وہ یہاں بھی ویسا ہی نظام نافذ کرنے کے لئے جدوجہد کیوں نہ شروع کریں گے؟ کیا یہ دانشور پاکستان میں بھی فتنہ و فساد دیکھنا چاہتے ہیں؟ افغان مسئلے کا بہترین حل تو یہی ہے کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام امن فوج تعینات کی جائے۔ جمہوری آئین اور جدید جمہوری ادارے قائم کیے جائیں۔ وار لارڈز اور طالبان جیسے گروہوں کو غیر مسلح کیا جائے تو ہی افغانستان میں امن ممکن ہے

میں سمجھتا ہوں بعض پاکستانی دانشوروں کا افغانستان بارے فہم بالکل بھی درست بنیادوں پر قائم نہیں ہے۔ افغانستان میں مسائل ہیں لیکن ان کا حل شدت پسند گروہ کی حکومت بالکل بھی نہیں ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ہمیں افغانستان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ ہم کب تک اپنے کندھوں پر افغانستان کا بوجھ اٹھائے رکھیں گے اور خواہ مخواہ کے ٹھیکیدار بنے رہیں گے اور افغانستان میں ہونے والے تنازعات کی قیمت ہم پاکستانی کیوں چکاتے رہیں؟ بہتر تو یہی ہے کہ ہم ڈیورنڈ لائن کے مشرقی حصے تک محدود رہیں۔ اور اپنے ملک کی ترقی و خوشحالی کو اپنی ترجیح بنائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments