فرانس میں آن لائن ہراسانی کا اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ


21 جون کو ہونے والی عدالتی کارروائی کے بعد ملا کمرہ عدالت سے نکل رہی ہیں۔ فوٹو اے پی

یورپی ملک فرانس میں اسلام کے خلاف پوسٹس لگانے والی ایک لڑکی کو دھمکیاں دینے کے الزام میں کئی نوجوانوں کے خلاف آن لائن ہراسانی کا ایک مقدمہ شروع ہو گیا ہے۔ جسے انٹرنیٹ کے غلط استعمال کو روکنے کے سلسلے میں اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ قرار دیا جارہا ہے۔

سائبر بلی انگ یا آن لائن دھونس جمانے کے اس مقدمے میں مختلف مذاہب اور برادریوں سے تعلق رکھنے والے 13 نوجوانوں کو آن لائن دھمکیاں دینے، شہری کو ہراساں کرنے اور ریپ کرنے کی دھمکی دینے کے الزامات کا سامنا ہے۔

جہاں اس مقدمے نے آزادی رائے اور کسی مذہب کو تنقید کا نشانہ بنانے کی آزادی سے متعلق مشکل سوالات کو نمایاں کیا ہے، وہیں اس واقعہ میں فرانس کے لاکھوں مسلمان شہریوں کی عزت کا خیال رکھنے کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

تاہم امریکی خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کی ایک رپورٹ کے مطابق بنیادی طور پر یہ مقدمہ آن لائن استعمال کیے گیے الفاظ کی طاقت سے متعلق ہے۔

وکیل استغاثہ کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ ان لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو اس مسئلے کی پرواہ نہیں کرتے۔

فرانس نے ایسی انوکھی اقسام کے مقدمات کو چلانے کے لیے رواں سال جنوری میں ایک خصوصٰ عدالت قائم کی تھی۔ جو لوگوں کو ہراساں کرنے اور امتیازی سلوک روا رکھنے جیسے آن لائن جرائم سے نمٹے گی۔

اس مقدمے میں لوگوں کے کئی طرح کے نظریات اور آن لائن رویے کے مختلف محرکات سامنے آرہے ہیں۔

مثال کے طور پر ایک نوجوان نے کہا کہ وہ پولیس افسر بننا چاہتے ہیں۔ دوسرے نے کہا کہ وہ لوگوں کو ہنسی مزاح کے ذریعے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ فالوارز بنانا چاہتے ہیں۔ کچھ نے کوئی بھی غلطی کرنے سے انکار کر دیا جب کہ کچھ نے اپنے رویے پر معذرت کر لی۔ لیکن زیادہ تر ملزمان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بلا سوچے سمجھے آن لائن پوسٹس کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

دوسری طرف اس مقدمے وہ لڑکی جو اس مقدمے کا باعث بنی ہے، اس کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتی ہے کہ اسے آن لائن دھمکیوں سے یوں محسوس ہوا کہ اسے سزائے موت دے دی گئی ہے۔

اپنے نام کے پہلے حصے ’ملا‘ کے نام سے شناخت کی گئی لڑکی نے کہا کہ اسے اپنے لیے کوئی مستقبل دکھائی نہیں دیتا۔

ملا کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی مذہب پر یقین نہیں رکھتی اور اس نے 16 سال کی عمر میں سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم ‘انسٹاگرام’ اور ‘ٹک ٹاک’ پر اسلامی عقائد پر کڑی تنقید والی ویڈیوز لگانی شروع کی تھیں۔ ملا جو اب 18 سال کی عمر کی ہیں، کہتی ہیں کہ وہ اسلام سمیت کسی بھی مذہب پر یقین نہیں رکھتیں۔

ملا کے وکیل رچرڈ مالکا کے مطابق ملا کو ایک لاکھ کے قریب دھمکی آمیز پیغامات بھیجے گئے جن میں نفرت انگیز مواد، خواتین مخالف مواد اور ریپ کی دھمکیاں شامل ہیں۔

ملا اب تک دو بار ہائی اسکول تبدیل کر چکی ہیں اور وہ کہتی ہیں انہیں ایسا لگتا ہے کہ ان پر آسماں ٹوٹ پڑا ہے۔

مقدمے کا مرکزی نقطہ ملا کی ایک ٹک ٹاک ویڈیو کے ردعمل میں دیا گیا وہ تبصرہ ہے جس میں مین فرڈ نامی مدعا علیہ نے ملا کو دھمکی دی کہ انہیں پیغمبر اسلام کے خاکے دکھانے کے بعد سر قلم کر کے مارے جانے والے استاد کی طرح کے نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔

مینفرڈ نے عدالت کو بتایا کہ اس نے محض لوگوں کو ہنسانے کے لیے ایک آن لائن ہراساں کرنے والے کا روپ دھارا تھا اور وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ سبسکرائبرز بنانا چاہتے تھے۔

سائبر بلی انگ کے الزام کا سامنا کرنے والے کئی نوجوانوں نے کہا کہ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا جب کہ 20 سالہ مسلمان عورت الیسا نے کہا کہ انہوں نے باقی لوگوں کی طرح ٹوئٹر پر ملا پر تنقید کی اور وہ اپنی اس تنقید پر قائم ہیں۔

الیسا نے کہا کہ دوسری باتوں کی طرح غصیلے انداز میں تنقید کا جواب دینا بھی آزادی رائے کے عین مطابق ہے۔

یاد رہے کہ فرانس میں آزادی رائے کو ایک بنیادی انسانی حقوق سمجھا جاتا ہے جب کہ کس مذہب کی توہین کرنا کوئی جرم نہیں سمجھا جاتا۔

خیال رہے کہ ملا کے جنوری 2020 میں ایک ویڈیو پوسٹ کرنے کے بعد اس کے خلاف نفرت پھیلانے کے الزام میں قانونی چارہ جوئی کے لیے ایک شکایت درج کی گئی تھی۔ تاہم بعد ازاں اس سلسلے میں ناکافی شہادتیں ہونے کی بنا پر اسے خارج کر دیا گیا تھا۔

اے پی کے مطابق بعض فرانسیسی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ فرانس اور صدر ایمینوئل میخواں کی حکومت نے ان کی مذہب کو ناجائز طور پر بدنام کیا ہے۔ دوسری طرف ملا کی ویڈیوز نے ایسی تشویش کو ہوا دی ہے اور فرانسیسی معاشرے کو منقسم کر دیا ہے۔

کئی لوگوں نے ملا کے خلاف دھمکیوں کی مذمت کی لیکن سابق سوشلسٹ
صدر فرانسوا ہالیند ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے کہا کہ ملا کو مذہب پر تنقید کرنے کا حق تو حاصل ہے لیکن اسے مذہب کے پیروکاروں کے خلاف نفرت انگیز بات نہیں کرنی چاہیے۔

انیس سالا نافیل نے کہا کہ انہوں نے ملا کے خلاف سزائے موت کی بات کر کے کوئی جرم نہیں کیا لیکن کہا کہ اس مقدمے نے انہیں ایک نئے تناظر سے آگاہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر سوشل میڈیا نہ ہو تو تمام لوگ نارمل زندگی گزاریں گے اور اس مقدمے کے بعد اب بہت سے لوگ کچھ کہنے سے پہلے سوچیں گے۔

آن لائن ہراسگی کا الزام ثابت ہونے کی صورت میں ملزمان کو دو دو سال کی قید اور 30 ہزار یورو کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔ مقدمہ کا فیصلہ 9 جولائی کو ہو گا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments