وقف املاک ایکٹ بل اور اس کا پس منظر


1857 ء کی جنگ آزادی سے قبل تقریباً ڈیڑھ صدی تک ہندوستان کا نظام تعلیم درس نظامی تھا۔ اس نصاب میں قرآن و حدیث، فقہ و شریعت اور فارسی و عربی زبان کے وہ تمام مضامین شامل تھے جو آج دینی مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ حساب، ہندسہ، ہیئت، طب، تاریخ، جغرافیہ، وضع آلات، فلکیات، فلسفہ، منطق اور دیگر علوم بھی شامل نصاب تھے، جو آج انجینئرنگ، ریاضی، میڈیکل سائنس اور دیگر عنوانات کے ساتھ عصری علوم کہلاتے ہیں۔

لیکن 1857 ء میں معرکہ حریت پیش آنے کے بعد برطانوی سامراج برصغیر کے اقتدار پر قابض ہو گیا۔ جس کے اثرات اس خطہ کے تمام شعبہ ہائے زندگی میں اس طرح سرایت کر کے ایسے روبہ زوال کا شکار ہوئے کہ اس خلا کا پر ہونا ابھی تک شرمندہ تعبیر ٹھہرا۔ برطانوی سامراج اپنی طاقت کے تمام تر ہتھکنڈے اختیار کر کے بھی آزادی کی اس چنگاری کو نہ بجھا سکا جو مسلمانوں کے سینے میں آگ کی مانند دہک رہی تھی۔ بالآخر بڑی تگ و دو کے بعد اس نتیجہ پر آ پہنچے کہ جب تک مسلمانوں کے دلوں میں ایمان جزو لاینفک کی حیثیت رکھتا ہے تب تک سرمایہ اور طاقت کا استعمال سودمند نہ ہو گا۔ لہذا اس جذبے کو کمزور کرنے کے بارے سوچ و بچار کا سلسلہ شروع ہوا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کا نظام تعلیم وہ چنگاری ہے جو اگلی نسلوں کے دلوں میں بھی اپنے شعلے منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لہذا ہمیں مسلمانوں کے مروجہ نظام تعلیم کو زمین بوس کر کے ایسا سسٹم متعارف کروانا چاہیے جو برصغیر کے باشندوں کو انگریز سرکار کا ماتحت بنا دے۔

چنانچہ برطانوی سامراج طاقت کے زور پر ہندوستان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد یہاں کے باسیوں کے دل و دماغ پر بھی اپنی دھاک بٹھانے میں کامیاب ہو گیا۔ جس کا منطقی نتیجہ وہی نکلا جس کو اکبر الہ آبادی نے سخن وری میں کہا

مغربی تعلیم سے دل ایشیا کا ہے ملول
کر دیا خلقت کو اس نے بد تمیز و بے اصول

نئے نظام و نصاب تعلیم سے فارغ شدگان روشن خیالی کے خوشنما نعرے کی بھینٹ چڑھنا شروع ہو چکے تھے۔ جس کا حاصل قرآن و حدیث، فقہ و شریعت سے بیزاری تھا۔ مسلمانوں کا درد رکھنے والے چند بندگان خدا اس خوشنما نعرے کے پس پردہ خوفناک نتائج کو بھانپ چکے تھے۔ انہوں نے مذکورہ نظام تعلیم کے مقابلے میں ایسا نظام تعلیم متعارف کروایا جس کے ذریعے آئندہ بنی نوع انسانی کو قرآن و حدیث، فقہ و شریعت سے بہرہ ور کیا جائے تاکہ مسلمان اسلام سے منحرف نہ ہوں۔ اس نظام و نصاب کو چلانے کے لیے اس وقت کے علماء نے نجی ادارے کھولنے کا فیصلہ کیا جو آزادانہ طور پر اپنا نظام تعلیم جاری رکھ سکیں۔

اور اس نظام تعلیم کا نصاب ترمیم شدہ درس نظامی مقرر ہوا جس میں صرف مذہبی کتب شامل تھی۔ کیونکہ یہ نصاب اس وقت کی اہم ضرورت تھی۔ جب یہ اخلاص سے لگایا گیا بیج تن آور درخت کی صورت اختیار کو چکا تو معاشرتی و سماجی ضروریات کے پیش نظر شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ نے تحریک آزادی میں مالٹا کی اسارت کاٹنے کے بعد علی گڑھ تشریف لے گئے۔ جس کے نتیجے میں نہ صرف مسلم نیشنل یونیورسٹی قائم ہوئی۔ بلکہ دیوبند اور علی گڑھ کے تعلیم یافتہ حضرات پر مشتمل قومی لیڈرشپ سامنے آئی، جس میں مولانا محمد علی جوہرؒ، مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، مولانا شوکت علیؒ، مولانا ظفر علی خانؒ، حکیم محمد اجمل خانؒ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ، مولانا ابو الکلام آزادؒ، مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ اور مفتی کفایت دہلویؒ جیسی عظیم شخصیات شامل ہیں۔

جنہوں نے مسلمانوں کے دلوں میں بجھے ہوئے چراغ روشن کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ انہی شخصیات کی جدوجہد نے سینکڑوں تحریکوں کو جنم دیا۔ جس کے نتیجے میں مسلمانوں سمیت دیگر اقوام میں یہ احساس اجاگر ہوا کہ برطانوی سامراج کے تسلط کو ختم ہونا چاہیے۔

قیام پاکستان کے بعد ملک کے اقتدار پر لادین طبقہ قابض ہو گیا اور دینی تعلیم، مساجد و مدارس کے نظام کو سرے سے نظر انداز کیا گیا۔ ایسی صورت حال کے پیش نظر علماء حق نے دینی تعلیم و تربیت کے لئے مدارس کے قیام کو عملی جامہ پہنایا اور وہی انداز اختیار کیا گیا جو 1857 ء کی جنگ آزادی کے بعد کیا گیا تھا۔ اقتدار کے نشے میں حکمران اور اشرافیہ نے اس حوالے کوئی کام نہ کیا۔ دینی طبقے نے گلی کوچوں کا رخ کیا، اپنوں اور غیروں کے طعنے برداشت کیے، لیکن ان کے ماتھے پہ شکن نہ آیا۔ آج 72 برس گزرنے کے بعد کسی بھی قسم کی حکومتی سرپرستی کے بغیر پاکستان میں ہزاروں مدارس موجود ہیں جن میں لاکھوں طلبہ زیرتعلیم ہیں۔ یہ ادارے عوام الناس کے تعاون سے چلتے ہیں۔ حکومت اور اشرافیہ نے نہ صرف دینی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ذمہ داری پوری نہیں کی بلکہ بیرونی پریشر کے پیش نظر وہ دینی مدارس کو ختم کرنے کے درپے ہے۔

موجودہ حالات میں ایف اے ٹی ایف برطانوی سامراج کی حیثیت رکھتا ہے جو ان مدارس پر طرح طرح کی پابندیاں لگا کر اپنی ماتحتی میں لانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ اسی سلسلہ کی کڑی ”وقف املاک ایکٹ“ بل کی عجلت و خفیہ منظوری ہے۔ جس میں مدارس دینیہ کو اعتماد میں لیے بغیر ان پر یہ بل مسلط کر دیا گیا ہے اور جب ان مدارس دینیہ نے مذکورہ بل پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا تو طفل تسلیاں دے کر ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، جو مذکورہ بل میں ترامیم کرے۔ جس پر مفتی تقی عثمانی مدظلہ نے ترامیم کر کے بل حکومت کے سپرد کیا تو وہ بل سرکاری فائلوں کے بوجھ تلے کہیں پاتال میں گم ہو گیا۔

”وقف املاک ایکٹ بل“ کا مقصد مدارس دینیہ کی آزادی سلب کر کے ان کے گلے میں غلامی کا طوق ڈالنا ہے۔ اس حوالے سے عوام الناس کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ایف اے ٹی ایف کی مدارس کے حوالے سے شرائط اور وقف املاک ایکٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں اور اس حکومتی پالیسی کے خلاف آواز بلند کریں۔ ہم برسراقتدار قوتوں کو بھی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم نے اور آپ نے یہیں اس ملک میں رہنا ہے، بیرونی دباو کو مسترد کرنے میں ہی ہماری کامیابی ہے۔ مغرب اور سامراج طبقہ ہم سے کبھی بھی خوش نہیں ہو سکتا۔ یہود و نصاری مسلمانوں کو دشمن ہیں۔ خدارا ایسی پالیسی مسلط نہ کی جائے جو ہمارے کلچر، روایت اور تہذیب و تمدن کو برباد کردے۔ تمام مکاتب فکر کے مشترکہ علماء کرام ”ملی مجلس شرعی“ کی محدود محنت سے تحریک تحفظ مساجد و مدارس کا رخ بنتے بنتے تاخیر کا شکار ہو رہا ہے۔ ہم مولانا زاہد الراشدی، ڈاکٹر محمد امین، مولانا عبدالرؤف فاروقی، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، عبداللطیف خالد چیمہ، حافظ عبدالغفار روپڑی، قاری محمد زوار بہادر اور دیگر قد آور شخصیات سے دست بستہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ”تحفظ مساجد و مدارس“ کے حوالے سے آگے بڑھیں اور بند باندھیں ورنہ پانی سر سے گزر جائے گا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments