کووڈ 19: انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں خواجہ سرا برادری کن مشکلات کا سامنا کر رہی ہے؟

مختار ظہور - صحافی، سرینگر


میں وضو کی تیاری کر رہا تھا جب میں نے پہلی بار شیبو کو دیکھا۔ وہ مسجد میں نمازیوں کی آمد سے قبل فرش اور صفوں کی صفائی ستھرائی میں مصروف تھیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ عام بات نہیں کہ ایک خواجہ سرا اللہ کے گھر کی صفائی کرے۔

وہ جمعے کا دن تھا۔ جمعے کے خطبے اور اس کے بعد نماز جمعہ کے دوران میرا ذہن اسی سوچ میں مبتلا رہا کہ ایک خواجہ سرا یہ ڈیوٹی کیسے سرانجام دے سکتا ہے؟ خاص کر ایک ایسے معاشرے میں جہاں خواجہ سرا برادری کو کمتر اور حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اُن کے ساتھ اکثر بُرا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔

یہاں تک کہ ان کے بارے میں زیادہ بات کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایسا معاشرہ ہے جہاں ان کا ذکر آئے تو ہنسی مذاق میں بات کا رُخ موڑ دیا جاتا ہے۔

نماز کے بعد میں مسجد ہی میں رُک گیا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ شیبو کے ساتھ اس نامانوس منظر کے بارے میں بات کر سکوں جو میں نے دیکھا تھا، یعنی ایک خواجہ سرا کا مسجد میں جھاڑو لگانا۔

میں یہ بھی جاننا چاہتا تھا کہ وہ کس قسم کی معاشرتی اور معاشی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔

چہرے پر خوشگوار مسکراہٹ سجائے شیبو نے مجھے بتایا کہ ’اس کام کے لیے میرا انتخاب خدا نے کیا ہے۔‘

شیبو نے بتایا کہ ان کا اصل نام شبیر احمد ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’سنہ 2016 میں، میں نے یہ کام رضاکارانہ طور پر شروع کیا تھا۔ ابتدا میں مسجد کی صفائی ستھرائی کا کام کرنے پر مجھے تنقید اور طنز کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر میرا خدا سے اعتماد متزلزل نہ ہوا کہ جس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے میں یہ کام کر رہی تھی۔‘

’عام طور پر ہمارے معاشرے میں خواجہ سراؤں کو مسجد میں داخل ہونے ہی نہیں دیا جاتا کیونکہ لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ ہم صاف اور پاک نہیں ہوتے، اور اگر کبھی مسجد میں داخل ہونے بھی دیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ آخری صف میں کھڑے ہو کر نماز پڑھو۔‘

شیبو کہتی ہیں کہ ’میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتی ہوں کہ تھوری سی محنت اور تنقید کا سامنا کرنے کے بعد میں وہ کام کرنے کے قابل ہوں جسے کر کے میرا دل پُرسکون ہوتا ہے۔‘

شیبو بتاتی ہیں کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں بھی خواجہ سراؤں کی صورتحال بہت گھمبیر ہے۔ انھیں روزانہ کی بنیاد پر معاشرہ یہ باور کرواتا ہے کہ وہ کمتر مخلوق ہیں۔

’اس سب کی ابتدا ہمارے اپنے گھروں سے ہوتی ہے۔ گھر اور معاشرے سے ملنے والے ردعمل کے بعد ہم اپنے آپ کو غیر ضروری اور اپنے خاندان والوں کے لیے باعث شرمندگی سمجھنے لگتے ہیں۔‘

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے دیگر بہت سے خواجہ سراؤں کی طرح شیبو کی آمدن کا ذریعہ بھی رشتے کروانا اور بطور انٹرٹینر لوگوں کو محظوظ کرنا ہے۔ وہ شادی بیاہ کی تقریبات میں لوک گیت گاتے اور ڈانس کرتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے معاشی حالات بھی بد سے بدترین ہوتے جا رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن اور کورونا پابندیوں کی وجہ سے لوگ شادیوں کی تقریبات منسوخ کر رہے ہیں اور اگر شادیاں ہو بھی رہی ہیں تو انتہائی محدود پیمانے پر۔ ہمارے لیے اب کام اتنی آسانی سے دستیاب نہیں ہے جتنا پہلے تھا۔ اب تو گزارہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد لوگ معاشی نقصانات سے باہر نکلنے کے لیے کوشاں تھے مگر اسی دوران کورونا کے وبائی مرض نے اس خطے میں بسنے والے لوگوں، خاص طور پر خواجہ سرا برادری کے لیے معاشی صورتحال کو مزید ابتر کر دیا ہے۔

تاہم برادری کے چند افراد نے بتایا کہ چند نوجوان ہیں جو خواجہ سراؤں کے کھانے پینے اور دیگر اشیائے ضروریہ کی فراہمی میں سامنے آئے ہیں اور خواجہ سرا برداری ان نوجوانوں کی تہہ دل سے مشکور ہے کہ انھوں نے اس مشکل وقت میں انھیں یاد رکھا اور ان کی مدد کی۔

شیبو کی طرح انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں بسنے والے دیگر خواجہ سرا بھی اپنے مستقبل کے حوالے سے بہت سے خدشات کا شکار ہیں۔


‘آپ کا بیٹا میک اپ کیوں کرتا ہے؟‘

شیبو کی طرح میری ملاقات ایک اور خواجہ سرا ملائیکہ سے بھی ہوئی جن کی عمر صرف 22 سال ہے اور سرینگر کے ڈاؤن ٹاؤن ایریا کی رہائشی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’میرا بچپن بھی بالکل ویسا ہی تھا جیسا ہر لڑکی کا ہوتا ہے۔ اپنے بچپن ہی سے میں لڑکیوں جیسا برتاؤ کرتی تھی۔

’اس پر میرے اہلخانہ پریشان ہو جاتے۔ وہ مجھے ڈانٹتے اور مجھے یہ یاد دہانی کروانے کی کوشش کرتے کہ میں ایک لڑکا ہوں۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ شاید وہ اس بات کو سمجھ گئے کہ خدا نے مجھے تخلیق ہی ایسے کیا ہے۔ میری بہت سی لڑکیاں دوست تھیں۔‘

ملائیکہ نے بتایا کہ ’میں نے صرف دوسری کلاس تک تعلیم حاصل کی۔ سکول میں میرے ساتھی طلبہ مجھے تنگ کرتے تھے اور بلآخر تنگ آ کر میں نے سکول چھوڑ دیا۔‘

لیکن ایک جگہ تھی جہاں ان کی ضرورت محسوس کی گئی اور انھوں نے بھی اسے اپنا پیشہ بنا لیا۔ ’جب میں 13 سال کا تھا تو میں نے تقریبات میں گانا گانا شروع کیا۔ ابتدا میں میرے گھر والوں نے مجھے ایسا کرنے سے منع کیا مگر شاید پھر انھیں سمجھ آ گئی کہ وہ اس سلسلے میں میرا کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ میں تھی ہی ایسی، چنانچہ انھوں نے مجھے تقریبات میں گانے دیا۔‘

’مجھے زندگی میں بہت صدمات ملے ہیں۔ جب لوگ تقریبات میں گلی، محلے میں میرا برسرعام مذاق اڑاتے تو مجھے بہت صدمہ پہنچتا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’جب میں چھوٹی تھی تو میں اپنے محلے میں شادی کی ایک تقریب میں گئی جہاں میری ملاقات مسکان نامی خواجہ سرا سے ہوئی۔

’مسکان کا اصل نام بلال ہے اور وہ ارمپورہ میں رہتی ہے۔ جب میں نے اسے گانے کے ساتھ ساتھ ڈانس کرتے دیکھا تو مجھے احساس ہوا کہ مجھے تو اس کے ساتھ ہونا چاہیے کیونکہ میں نے اس میں اپنائیت محسوس کی اور یہ بھی محسوس کیا کہ ہم ایک جیسے ہیں۔‘

’جلد ہی ہم اچھے دوست بن گئے۔ اس نے مجھے گانا اور ڈانس کرنا سکھایا اور اس کے بعد ہم نے ہر جگہ اکھٹے آنا جانا شروع کیا۔‘

یہ سب ان کے خاندان والوں کے لیے ہرگز قابل قبول نہیں تھا۔ ’میرے گھر والوں کے ساتھ چار برسوں تک بول چال بند رہی مگر اس دوران میں آگے بڑھتی گئی اور ڈانس اور گانے کرتی رہی۔‘

’میرے والد کو مجھ پر شدید غصہ تھا کیونکہ ان کے خیال میں ان کے لیے بے عزتی کا باعث بنی۔ لوگ میری وجہ سے ان کا بھی مذاق اڑاتے تھے اور ان سے ایسے سوالات پوچھتے کہ ‘آپ کا بیٹا میک اپ کیوں کرتا ہے اور لڑکیوں جیسے کپڑے کیوں پہنتا ہے۔‘

’میری بہن نے میرے والد کو سمجھانے کی کوشش کی۔ میری بہن نے میرے والدین کے ساتھ بات چیت بحال کروانے میں پُل کا کردار ادا کیا۔‘

کشمیر کی خواجہ سرا برادری کا کہنا ہے کہ گذشتہ تین برسوں سے انھیں معاشرتی رویوں کے ساتھ ساتھ معاشی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ اور اس دوران کوئی فرد یا تنظیم ان کی مدد کو آگے نہیں آئی۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت بھی ان کی پرسانِ حال نہیں ہے اور انھیں کسی بھی طرح کی مدد فراہم کرنے سے یکسر قاصر رہی ہے۔


گرنیڈ حملے سے میری ٹانگ زخمی ہوئی‘

بسنتی جنوبی کشمیر کے شہر پلوامہ میں قریب 40 سال سے ایک گھر میں کرایہ دار ہیں۔ یہاں محدود سہولیات ہونے کے باوجود یہ ان کا مستقل ٹھکانہ بن گیا ہے۔

’میرے کمرے میں کوئی غسل خانہ نہیں ہے۔ میرے والدین اور بھائی وفات پا چکے ہیں اور ایک بھکاری کی طرح بے یار و مددگار زندگی گزر رہی ہے۔‘

ایسا نہیں کہ انھوں نے مالی مشکلات دور کرنے کے لیے کبھی کوئی کام نہ کیا ہو۔ ’پہلے ایک ہوٹل میں ویٹر کی نوکری کی اور پھر 20 سال تک شادیوں پر گانے بجانے کا کام کیا۔ میں نے رشتے کروائے مگر اب یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ آج کل کی نسل محبت کی شادیوں میں یقین رکھتی ہے۔‘

کشمیر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کے پاس اب کوئی کام نہیں۔ ’کچھ اجنبی لوگ کبھی کبھار آ کر میری مدد کر جاتے ہیں، وہ مجھے کپڑے اور پیسے دیتے ہیں لیکن یہ کافی نہیں ہے۔‘

انھوں نے مجھے بتایا کہ ’کچھ عرصہ قبل مارکیٹ میں ہونے والے ایک گرنیڈ حملے کی وجہ سے میری ایک ٹانگ زخمی ہوگئی تھی۔ دو ماہ تک ایک ہسپتال میں داخل رہنا پڑا۔‘

اب وہ واپس اپنے گھر آکر صحتیاب ہو رہے ہیں۔


’خدا نے مجھے دو لوگوں کو ملوانے کا ہنر دیا ہے‘

شبنم سبحان کی جائے پیدائش شمالی قبصہ سوپور ہے جہاں انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ وہ بچپن میں دوسرے بچوں کی طرح سکول گئیں اور ان کے ساتھ کھیلی بھی۔ مگر بعد میں انھیں احساس ہوا کہ ’میں دوسرے بچوں سے مختلف ہوں۔‘

’میرا برتاؤ کسی لڑکی جیسا تھا اور میں ویسے ہی کام کرتی تھی۔ میں سمجھتی ہوں کہ مرد اور عورت کے علاوہ تیسری صنف ٹرانسجینڈر ہے۔ ہم ٹرانسجینڈر خدا کی نعمت ہیں۔ ہم مرد اور عورت دونوں کا کردار نبھا سکتی ہیں۔ مجھ پر میری صنف کی وجہ سے تنقید بھی ہوئی۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’جوانی میں میں رشتے کروانے کا کام کرتی تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ خدا نے مجھے اس ہنر سے نوازا ہے کہ میں دو لوگوں کا ملاپ (یعنی شادی) کروا سکوں۔۔۔‘

’کرفیو، عالمی وبا اور لاک ڈاؤن سے سب سے زیادہ نقصان ٹرانسجینڈر برادری کا ہوا ہے۔ اب میرے پاس کوئی نوکری نہیں۔ ہم ہسپتالوں میں بطور طبی عملے یا صفائی ستھرائی کا کام کر سکتی ہیں لیکن ہمیں اہمیت نہیں دی جاتی۔‘

ان کی اب واحد خواہش یہی ہے کہ نوجوان خواجہ سراؤں کو ان کے جیسے حالات نہ دیکھنا پڑیں۔

’ہم نہیں چاہتے کہ نوجوان نسل بھی ہماری طرح متاثر ہو۔ ہم میں سے کئی لوگ ذیابیطس یا بلڈ پریشر کے مریض ہیں۔ ہم انسان ہیں اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔‘


والدین کے تشدد سے تنگ آ کر گھر چھوڑ دیا

طاہرہ کا تعلق بھی سوپور سے ہے اور گھروں میں سفائی کا کام ان کے لیے آمدن کا ذریعہ رہا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’میرا سفر تب شروع ہوا جب میں چھٹی جماعت میں اپنے گاؤں میں طالبعلم تھا جہاں لڑکے اور لڑکیاں ساتھ پڑھتے تھے۔ میرے دوست مجھے تیسری صنف سمجھتے تھے لیکن اس وقت تک مجھے معلوم نہیں تھا اور بعد میں مجھے یہ اچھا نہیں لگتا تھا۔‘

’میری بہن کی شادی کے بعد گھر پر تنہا ہوا۔ پھر میری ملاقات اپنے گاؤں میں پہلی بار ایک ٹرانسجینڈر سے ہوئی جو میرے لیے میرے والد کی طرح تھے۔ میں نے ان کے گھر پر صفائی اور کھانا بنانے کا کام کیا لیکن میرے والدین کو اس کا علم نہیں تھا۔‘

بعض اوقات لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال آتا ہے کہ اکثر خواجہ سرا تنہا یا اپنے جیسے لوگوں میں ہی کیوں رہتے ہیں۔

اس کا جواب طارق احمد دیتے ہیں کہ ’(میرے بارے میں) معلوم پڑنے پر میرے والدین نے مجھے ڈانٹا اور ایسا کرنے سے روکا۔

’والدین کے تشدد سے تنگ آ کر ایک دن میں نے گھر چھوڑ دیا۔ میں نے اپنے علاقے میں لوگوں کے گھروں میں کام کیا پھر 2005 میں مستقل طور پر سرینگر جانا پڑا۔‘


’لوگوں کے پاس پیسے نہیں، میرے سے کپڑے کیوں سلوائیں گے‘

کشمیر میں سرینگر کے پرانے شہر کے علاقے نواکدل میں ریشماں ایک مشہور خواجہ سرا ہیں۔ ان کے مطابق انھوں نے نوجوانی میں ٹیلر کا کام سیکھا اور کپڑے سی کر اپنا گزر بسر کیا۔

ان کے لیے شادی بیاہ پر گانے گانا اور لوگوں کی شادیاں کروانا بھی آمدن کا ذریعہ بنا۔ اب ان کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن نے ان کی آمدن کو متاثر کیا ہے۔

’لوگ اب دو وقت کی روٹی کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اب اُن کے پاس زیادہ پیسے نہیں ہیں۔ اور اگر ان کے پاس پیسے ہی نہیں تو میرے سے کپڑے سلوائیں گے نہ مجھے شادی پر بلائیں گے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp