بچوں کو یہ بھی پڑھایا جائے


لازم ہے بچوں کو پڑھایا جائے کہ جب چار لوگ مل کے رہتے ہیں تو کچھ اصول وضع کرتے ہیں۔ سب پر واجب ہے کہ ان اصولوں کی پیروی کریں۔ اگر یونیورسٹی ہے تو یہ اصول پراسپیکٹس کہلاتے ہیں۔ یونیورسٹی میں کسی نے پڑھنا ہے کسی نے پڑھانا ہے کسی نے امتحان میں پاس فیل ہونا ہے کوئی کورس منتخب کرنا ہے۔ یہ سب اسی پراسپیکٹس کے مطابق ہو گا۔ ایسا ہر گز نہیں ہو گا کہ ایک بچے کے لیے پراسپیکٹس کو معطل کر دیا جائے۔ پراسپیکٹس پر عمل ہی سبھی طلبا طالبات کو مساوات اور انصاف کا حصول یقینی بنائے گا۔

بچوں کو وضاحت سے سمجھایا جائے کہ سرکاری اداروں میں یہی اصولوں کا مجموعہ ایس او پی کہلاتا ہے۔ دیانت داری اسی میں ہے کہ اس پر عمل ہو۔ کس کی ترقی ہونی اور کب ہونی، کون اہل ہے کون نا اہل، کسے کب نوکری سے نکالنا اور کیوں نکالنا، یہ سب اسی ایس او پی کے مطابق ہوگا تو انصاف اور مساوات کا حصول یقینی ہو گا وگرنہ یہ جنگل کا قانون بن جائے گا۔ بچوں کے دماغ میں ہی بات بٹھا دی جائے کہ کھیلوں کے اپنے قوانین ہیں۔ مثال کے طور کرکٹ یا کوئی کھیل، کون کب کیسے کھیلے گا۔ کب آؤٹ کہا جائے گا کب سکور مانا جائے گا۔ میچ کون جیتے گا کون ہارے گا یہ سب ایک قاعدے کے مطابق ہوں گے اور سب کے لیے برابر ہوں گے۔ کسی طاقتور کے لیے کوئی باؤنڈری مختصر نہیں کی جائے گی۔ بار بار ہر کلاس میں اصولوں کے مجموعے کی پاسداری کا درس دیا جائے کہ لیب میں کیا جانے والا تجربہ، کچن میں پکایا جانے والا کھانا، کھیتوں میں اگائی گئی فصلیں بھی ایک قاعدے اور ترتیب پر ہی منحصر ہیں۔

بچوں کو کھل کر واضح الفاظ میں بتایا جائے اور اس پر اعتقاد قائم کیا جائے کہ کسی ملک کو کیسے چلانا ہے اس کا فیصلہ اصولوں کے مجموعے پر ہو گا جسے آئین کہا جاتا ہے۔ آئین جس پر ایک بار اعتماد کر لیا گیا اس پر عمل ہی مثبت سمت کا پیمانہ ہے۔ یہ موم کی ناک، کاغذوں کا پلندا اور ردی کی ٹوکری سمجھا جائے گا تو مان لیجیے ہماری سمت درست نہی۔ بچوں کو بتایا جائے کہ سیل بایؤ پڑھانے والا استاد فقط درس و تدریس کرے گا ٹریفک کو کنٹرول نہیں کرے گا، محکمہ مال کا پٹواری زمین کے پیمائش کا ریکارڈ رکھے گا نہ کہ ڈاک تقسیم کرنی شروع کر دے اور پولیس امن و امان قائم رکھے گی نہ کہ ریلوے کی ٹکٹ فروخت کرے گی، سرحدوں کی حفاظت کرنے والا سپاہی اپنا فریضہ ایسا کرے گا نہ کہ اقتصادی پیچ و خم درست کرے۔ کسی دوسرے کے فرائض کی حدود میں مداخلت بھلے کتنی ہی خوبصورت الفاظ نیت اور دعوی کے ساتھ ہو، فقط تباہی ہے،

بچوں کو وضاحت سے سمجھایا جائے کہ معاشرے رواداری سے بنتے ہیں۔ کہ کسی دوسرے کے نظریے سوچ، زندگی رہنے سہنے کے طریقے کھانے اوڑھنے کے طریقے کیسے ہوں گے اس کا فیصلہ اس نے خود کرنا ہے اپنی سوچ کے مطابق۔ لباس انداز رہن سہن میں آزادی اور خود مختاری بچوں کو وضاحت سے سمجھایا جائے کہ آخرت میں اسی بارے سوال ہونا ہے کہ پہننے اوڑھنے کھانے پینے رہنے سہنے پر تمہیں اختیار دیا گیا تھا۔ اس اختیار کو کیسے استعمال کیا؟

وضاحت سے سمجھانا ہو گا کہ دوسرے بندے کو اپنے نظریات پر زندہ رہنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا آپ کو۔ بچوں کو سمجھانا ہو گا کہ تنگ نظری اور تعصب، تنگ نظری اور تعصب ہی ہے چاہے یہ انتہائی پڑھے لکھوں، سیاسی رہنماؤں، پروفیسروں، دانشوروں، علماے دین، بڑے بڑے کالم نگاروں اور بیورو کریٹس کا حمایت یافتہ ہی کیوں نہ ہو۔

بچوں کو ازبر کروا دینا لازمی ہے کہ اگر کوئی کہے کہ میں نے اپنی پسند کا لباس پہننا ہے تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ ٖ ننگا اور فحش فلموں والا لباس پہننا چاہ رہا ہے۔ اگر کسی نے عبایا، نقاب، برقعہ، دوپٹہ نہیں لیا تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ فاحشہ ہے۔ اگر کوئی انگریزی بولتا ہے تو اس کا مطلب شو آف نہیں ہے۔ اگر کوئی پنجابی بولتا ہے تو یہ مطلب نہیں کہ وہ بد تمیز اور گنوار ہے، بچوں کو سمجھانا ہو گا کہ خواتین کو برابری دینے کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے ساتھ بدتمیزی سے بات کی جائے کہ برابری کرنی ہے تو یہ بھی برداشت کرو۔

انہیں سمجھانا ہو گا کہ خاص کر خواتین کو بلاتے وقت تمیز تہذیب کا مظاہرہ کرنا لازمی ہے۔ ”اوئے بی بی“ ”دیکھ بی بی دیکھ“ جیسے نخوت بھرے اجڈ پنے کے ساتھ بلانا جہالت ہے۔ خواتین کو دفتر، راستے، بازار میں کھڑے ہو کر گھورنا گھٹیا پن ہے اور ان کے گزرتے ہی جملہ کس کے قہقہہ لگانا بد قماشی ہے۔ بچوں کو بتانا ہو گا کہ عورت ”دو ٹکے“ کی نہیں ہوتی البتہ عورت کو ایسا کہنے والا دو ٹکے کا بھی نہیں ہوتا،

بچوں کو بتانا ہو گا کہ گالی دینا کریہہ عمل ہے۔ اگر شدت جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے اور گالی دینی ہی دینی ہے، تو جسے دینی ہے اسے دو، اس کی ماں بہن بیٹی کو مت دو۔ اگر آپ کی لغت میں ایسی کوئی گالی نہیں ہے اور سبھی گالیاں ماں بہن بیٹی کے گرد ہی گھومتی ہیں تو مان لو کہ آپ کا مذہب خواتین کی جتنی مرضی تعظیم کا درس دیتا رہے آپ کی زبان اور کلچر میں خواتین کی تعظیم فقط دعوی ہی ہے۔

بچوں کے دماغ سے یہ بات نکالنی ہوگی کہ ہماری تباہی اور تنزلی کا ذمہ دار امریکہ اور مغربی ممالک ہیں، انہیں بتانا ہو گا کہ ہمارے ترقی نہ کرنے کی وجہ ہم میں ہی پائی جاتی ہے۔ سمجھانا ہو گا کہ ریلوے کا ٹکٹ نہ لینا اڈونچر نہیں، چوری ہے، ٹیکس ادا کرنے سے بچنا ڈاکا ہے۔ بجلی تاروں پر کنڈا لگا کے استعمال کرنا، بجلی کے میٹر کو سست کرنا، پی ٹی سی ایل کا بل نہ دینا سب چوری ہے۔ امتحان میں نقل کرنا جرم ہے۔ کوئی دیکھے نہ دیکھے، نقل نہیں کرنی۔ جھوٹ بولنا بزدل لوگوں کا کام ہے۔

بچوں کو بتانا ہو گا کہ تاریخ وہ نہیں جو سرکاری ٹی وی ریاستی بیانیہ زدہ چینلز اور ٹیکسٹ بکس میں ہے، تاریخ کڑوی لگے تب بھی تاریخ ہی ہے۔ بچوں کو بتانا ہو گا کہ بنگلہ دیش کیوں بنا۔ بنگالیوں کے ساتھ ہم نے کیا کیا۔ بچوں کو سچ بتانا ہو گا کہ افغانی عوام ہمارے اتنے مخالف کیوں بنے۔ انہیں بتائیے کہ غیر ملکی حملہ آور کبھی ہیرو نہیں ہوتا۔ وطن کی مٹی کا دفاع کرنے والا ہی اصل ہیرو ہے، چاہے وہ ہمارے مذہب کا ہے کہ نہیں۔

بچوں کو بتائیے کہ ساری دنیا میں لوگ جہاں جہاں مسلمان ہوئے انہوں نے اپنے نام اپنی زبان میں رکھ مگر فقط ہم ہیں جنہوں نے اپنی زبان میں رکھنا شجر ممنوع بنا لیا ہے۔ بچوں کو بتانا ہوگا کہ نام اسلامی غیر اسلامی ان کا مطلب اسلامی غیر اسلامی ہوتا، شہزادہ اور راج کمار دونوں اسلامی نام ہیں کہ ان کے مطالب میں کچھ برا نہی۔ اطغرل، ترگت، وغیرہ نام کا کوئی صحابی نہیں تھا۔ وہاں ترکی میں نام رکھتے کسی نے نہیں کہا کہ یہ مقامی غیر مسلم سے مشابہت ہو گئی۔ بچوں کو بتانا ہو گا کہ تصوف خوبصورت ہے اور اولیا اللہ کی تعلیمات زندگی کو خوبصورت بناتی ہیں مگر ان اولیا اللہ کے نام پر درباروں میں جو مجاور بیٹھے ہیں ان کا اولیا اللہ کی تعلیمات سے دور دور واسطہ نہیں۔ یہ استحصال کرنے والا گروہ ہے۔

آئیے بچوں کو پڑھائیں کہ جمالیاتی حس کیا ہوتی ہے۔ درخت پودے دریا کتنے خوبصورت ہیں۔ ان سمندروں کے اندر زندگی میں کتنا حسن ہے۔ شام کو غروب ہوتا سورج دیکھنے کی عادت بنانی ہے۔ پرندوں سے، درختوں کے پتوں سے گفتگو کرنا کتنا ضروری ہے۔ موسیقی ادب مصوری گناہ نہیں، ایک ذوق ہے۔ انہیں پڑھانا ہو گا کہ منٹو کی کہانیاں گندی کہانیاں نہیں ہیں۔ کھول دو۔ افسانہ کڑوا سچ ہے۔ انہیں رہنمائی کرنی ہو گی کہ قرة العین اور انتظار حسین کو پڑھنا ہر طالب علم کے لیے ضروری ہے۔

بچوں کو سمجھانا ہو گا کہ فزکس کا سب سے بہترین استاد وہ ہے جو فزکس پڑھاتا ہے نہ کہ فزکس کی کلاس میں مذہب کے عقائد سکھاتا ہے۔ بچوں کو بتانا ہو گا کہ کسی غیر مسلم کے ساتھ کھانا کھانا بزنس کرنا نوکری کرنا کاروبار کرنا کرکٹ کھیلنا غلط نہیں ہے۔ اسے گالی دینا، آگ میں جلانا، گولی مارنا، دھتکارنا۔ اس کی بیٹیوں کو اغوا کرنا اور مذہب بدلنے پر مجبور کرنا غلط ہے۔ بچوں کو بتانا ہو گا کہ گھر میں ماں بہن بیوی بیٹی کے ساتھ گھر کے کام کرنا مردانگی کے خلاف نہی، پاک نبی کی سنت ہے۔

بچوں کو بتانا ہو گا کہ آپ کی بہن آپ کے ساتھ سکول کالج یونیورسٹی سے آئی ہے تو اس سے پانی مت مانگو خود جا کر گلاس بھر کر پیو۔ شادی شدہ ہو گئے ہو اور آپ کی بیوی جاب سے واپس آئے تو ساتھ کھڑے ہو کر کچن سنبھالو۔ بچوں کو بنیادی گھریلو اخلاقیات، محلے میں رہنے کی بنیادی اخلاقیات اور شہر میں رہنے کی اخلاقیات وضاحت سے سکھانی ہوں گی۔

بچوں کو تفصیل سے بتانا ہوگا کہ سافٹ امیج، بہتر امیج کسی بھی موقع پر گانے ریلیز کرنے سے نہیں، جمہوریت کی پائیداری سے ہے۔ یہ بتانا ہو گا کہ باوقار ملک وہی ہے جہاں ووٹ کی عزت ہے۔ میرے ملک پر اسی کی حکومت ہو گی جس کو میں نے ووٹ دیا۔ اس ووٹ کے علاوہ کسی بھی راستے سے کوئی بھی حکمران بنے گا بھلے وہ ”ڈی فیکٹو“ ہو کہ ”ڈی جیورے“، وہ غاصب اور آمر ہی ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments