پاکستان میں شعبہ تعلیم کی صورت حال


ہم پچھلے ڈیڑھ سال سے کورونا سے لڑ رہے ہیں اس وبا کے دوران ایک بات جو واضح ہوئی وہ یہ کہ پاکستانی حکمرانوں کی اگر کسی شعبہ میں دلچسپی ناپید ہے تو وہ تعلیم کا شعبہ ہے اس وبا میں بازار، ریسٹورنٹ، مالز کے لیے صرف ایک بار لاک ڈاؤن کا حکم نامی جاری کیا گیا اس کے بعد کبھی وقت کی زیادتی اور کمی کی گئی اور کبھی ہفتہ میں دو دن بازار بند کیا گیا مگر مکمل طور پر لاک ڈاؤن نافذ نہیں کیا گیا مگر اسکول، کالج، یونیورسٹیز کو بند کرنے کا حکم نامہ بارہا جاری کیا گیا اور پھر آن لائن کلاسز کا سلسلہ تعلیمی اداروں کی جانب سے شروع کیا گیا جو چھوٹی کلاسز میں پڑھنے والے بچوں کی ماؤں کے لیے درد سر بن گیا اور اسے شروع کرانے کا مقصد صرف فیس کا حصول تھا کیونکہ والدین کا یہیں کہنا تھا کہ وہ کیوں فیسیں بھرے جب ان کے بچے اسکول نہیں جا رہے چھوٹے بچوں کے والدین نے احتجاج کیے جو کسی کام نہ آئے اور پرائمری تعلیم تباہی کے داہنے پر آن پہنچی سیکنڈری تعلیم جس میں کالج اور یونیورسٹی کے طالب علم آتے ہیں انھوں نے بھی کلاسز اور امتحانات کے حوالے سے احتجاج کیے اس سب کے باوجود جب ریسرچ کی جاتی ہے تو ہائیر ایجوکیشن تعلیمی میدان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کرتا ہے۔

پاکستان میں اعلی تعلیم کے شعبہ میں سرمایہ کاری کے نتائج پوری قوم کے لیے ”بھرپور نفع“ کی صورت میں نکل رہے ہیں ملک کی سات یونیورسٹیاں ایشیا کی اعلٰی ترین جامعات میں شامل ہو گئی ہیں تعلیمی اداروں کی درجہ بندی کے مطابق، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد 119 ویں، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی 120 ویں اور آغا خان یونیورسٹی کراچی درجہ بندی میں 152 ویں نمبر پر ہیں لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز اور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور، یونیورسٹی آف کراچی اور یونیورسٹی آف پنجاب بھی ایشیا کی اعلٰی ترین 250 یونیورسٹیوں میں شامل ہیں جب کہ تین پاکستانی جامعات، یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد، بارانی زرعی یونیورسٹی راولپنڈی اور قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد اس وقت زراعت اور جنگلات کے شعبہ جات میں دنیا کی اعلی ترین 200 یونیورسٹیوں میں شامل ہیں۔

جب آپ تعلیم کی حقیقی صورت حال کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ کے علم میں یہ بات آتی ہے کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم، تعلیم کے بجائے کاروبار بن گئی ہے ہمارے یہاں تعلیم کا مقصد نوکری کا حصول ہے، اس لیے نوکری کے لیے جو ڈگری چاہیے اس کی شرط پوری کرنا بھی ضروری ہے نجی جامعات کی جانب سے فیسوں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے ہر سال نئے سیشن کے موقع پر فیسوں میں من مانا اضافہ کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے والدین اور طلبا پر مالی بوجھ بڑھ گیا ہے متوسط و غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین کا بچوں کو نجی جامعات میں پڑھانا ایک خواب بن کر رہ گیا ہے، نجی جامعات کی جانب سے ایک سال میں 10 سے 50 فیصد تک فیسوں میں اضافہ کیا گیا ہے ملک میں اس وقت 173 اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں، جن میں سے 72 نجی یونیورسٹیز ہیں۔

اس سب کو جاننے کے بعد ایک بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے 74 برس بیت چکے ہیں مگر بانی پاکستان نے جس شعبہ پر سب سے زیادہ محنت کرنے کا کہا اور جس کو وہ ترقی کا ذریعہ سمجھتے تھے اس شعبہ کے پرخچے پچھلے 74 برس سے اڑائے جا رہے ہیں اور عوام بے بس اور حکمران اپنی موج میں مگن نظر آتے ہیں دعا ہے کہ کوئی دن وہ بھی آئے جب اس ملک میں تعلیم کے شعبہ کو وہ اہمیت دی جائے جس کا وہ مستحق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments