کہیں آپ خود تو احساس کمتری کا شکار نہیں؟


کیا آپ اسکول، کالج، یونیورسٹی یا دفتر پینٹ شرٹ یا کبھی کبھار کوٹ سوٹ پہن کر جاتے ہیں، کیا آپ کو پانی کے گلاس، کھانے کی پلیٹ اور کالج، موبائل، انجینئر سمیت بیشمار روزمرہ مستعمل الفاظ کے اردو متبادل الفاظ کا نہیں پتہ یا آپ اپنی روزمرہ زندگی میں انگریزی کا استعمال کرتے ہیں تو آپ احساس کمتری کا شکار ہیں، جی ہاں کیونکہ ہمارے وزیر اعظم کے ایک تازہ ترین بیان کے مطابق:

” انگریزی زبان اور لباس کا استعمال احساس کمتری ہے، سافٹ امیج نہیں“

اب یہ بات کسی اور نے نہیں بلکہ ایک آکسفورڈ گریجویٹ نے کہی ہے، ان کی اپنی زندگی سے اس کی عملی مثال لیں تو چونکہ خود بھی کرکٹر رہ چکے ہیں (اور ان کا جیتا ہوا ورلڈ کپ ہم سب پر بھاری بھی ثابت ہو چکا ہے) تو کیا وہ قمیض شلوار پہن کر کرکٹ کھیلتے تھے، یا یہ بتا دیں کہ کوئی قمیض شلوار پہن کر کیسے کرکٹ کھیل سکتا ہے، اگرچہ قمیض شلوار ہمارا قومی لباس ہے، لیکن اسے سپورٹس میں نہیں استعمال کیا جا سکتا تو کیا ہم سپورٹس کو الوداع کہہ دیں؟ کیا فوج اور پولیس میں قمیض شلوار رائج ہو سکتا ہے یا پائلٹ قمیض شلوار پہن کے جہاز اڑا سکتا ہے؟

آج کل تو دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہے اور فاصلے سمٹ چکے ہیں اور ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے تو ان دنوں تو انگریزی ویسے ہی رابطے کی زبان کا درجہ اختیار کر چکی ہے، جہاں دو مختلف علاقوں کے اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ اس کے ذریعے اپنی بات ایک دوسرے کو با آسانی سمجھا دیتے ہیں۔

فرض کریں آپ کسی دوسرے ملک سفر کرنا چاہتے ہیں لیکن انگریزی آپ نے اپنی انا کی وجہ سے نہیں سیکھی تو وہاں دوسروں کو اپنی بات کیسے سمجھائیں گے؟ یا پھر آپ صرف وہیں جائیں گے جہاں صرف آپ کی زبان بولی اور سمجھی جاتی ہو یا آپ کا لباس پہنا جاتا ہو؟ اسی طرح دو ملکوں کی باہمی تجارت کے معاہدے کیسے طے پائیں گے؟ اگر آپ کے ملک میں کوئی غیر ملکی وفد یا سفیر آتا ہے تو وہ آج کے زمانے میں بھی اپنے ساتھ مترجم لے کر آئے گا؟

سائنس اور ٹیکنالوجی بھی اسی میں میسر ہے کیونکہ سائنسی اصلاحات کے متبادل الفاظ تو ہمارے پاس سرے سے موجود ہی نہیں۔ کیا ہم پہلے ساری سائنس اور ٹیکنالوجی اپنی زبان میں ترجمہ کریں گے اور پھر اسے سمجھنا شروع کریں گے؟ کیا دفتری ایمیلز بھی اردو میں ہی ہوا کریں؟

خان صاحب کو ہمیشہ اوور سیز پاکستانیوں کی سپورٹ حاصل رہی ہے اور وہ دل کھول کر مدد بھی کرتے رہے ہیں تو ان کے اس بیان کے مطابق تو وہ سب کے سب بھی ”احساس کمتری“ کے مارے ہوئے ہیں؟

خان صاحب خود پڑھے لکھے انسان ہیں اور پوری زندگی مغرب میں گزاری، وہ نیا پاکستان بنانے کا دعوی بھی کرتے ہیں تو ان کی طرف سے ایسا بیان افسوسناک ہے۔

ہو سکتا ہے وہ اپنے لباس اور زبان پر فخر کرنے کی بات کہنا چاہ رہے ہوں لیکن اسے کہنے کا طریقہ بھی ان کو آنا چاہیے۔ ہمیں اپنی زبان اور لباس پر فخر ہے اور ہونا بھی چاہیے لیکن دنیا کے ساتھ چلنے کے بھی تقاضے ہوتے ہیں۔ آج کے اس ترقی کے دور میں ہم دنیا سے الگ تھلگ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر نہیں بیٹھ سکتے۔ کاش خان صاحب کو بھی یہ بات سمجھ آ جائے۔ وہ اپنی رائے کا اظہار کریں لیکن اظہار کے طریقے اور الفاظ کے چناو پر تھوڑا سا غور کر لیا کریں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments