“اوپینین لیڈرز” کا معاشرے میں کردار (Opinion Leaders)


دنیا کے حقیقی علوم اور معاشرے کی سمجھ بوجھ کے لئے عمر کے ہر حصے میں آپ جن کو اپنا بڑا مانتے ہیں۔ خود تحقیق نہیں کرتے یا نہیں کر سکتے تو ان کی بتائی ہوئی باتوں پر ایمان لے آتے ہیں۔ ان لوگوں کو ”اوپینین لیڈرز“ کہا جاتا ہے۔

بچپن میں جب محلے کی مسجد میں جاتا تھا تو سکول کی کتاب بھی ساتھ لے جاتا۔ فجر کی جماعت کے بعد ایک طرف بیٹھ کر پڑھائی بھی ہو جاتی۔ جب نماز کا ٹائم تقریباً ختم ہونے والا ہوتا تو مسجد میں صرف چار بزرگ رہ جاتے۔ ان میں سے ایک کے گھر میں ٹی وی تھا۔ اس زمانے میں ملک کے اندر صرف ایک چینل ”پی ٹی وی“ ہوا کرتا تھا۔ چاروں بزرگ ان پڑھ تھے مگر جو روزانہ خبرنامہ سنتا تھا وہ ان چاروں کا ”اوپینین لیڈر“ تھا۔ اور اپنے اس علم کی بنیاد پر وہ دوسروں کو ملکی حالات سے اپنے انداز میں آگاہ کیا کرتا۔

جب ماس کمیونیکیشن کے سلیبس میں پہلی بار ”اوپینین لیڈرز“ بارے پڑھا تو مجھے وہ بزرگ یاد آئے تھے۔ امام مسجد اگرچہ اب بھی ہیں مگر اس زمانے میں بہت زیادہ پاور فل ہوا کرتے تھے۔ دینی تعلیمات اور عام آدمی کے درمیان وہی ”مڈل مین“ ہوا کرتے تھے اور کسی حد تک ابھی بھی ہیں۔ امام نے ہمیں بتایا کہ اللہ نے جمعرات کا دن روحوں کی چھٹی کے لئے رکھا ہوا ہے اور وہ روحیں اپنے اپنے گھر چکر مار کے دیکھتی ہیں کہ انہوں نے ختم پڑھایا یا نہیں۔

ہم نے مان لیا۔ کیونکہ ماننے والا ہمیشہ تقلید کرتا ہے۔ اور کاؤنٹر کرنے کے لئے اس کے پاس علم ہوتا ہے نہ صلاحیت۔ ایک مذہبی تنظیم کے کتابچے بہت پڑھا کرتا تھا۔ ان میں ٹی وی کو شیطان کا آلہ قرار دیا گیا تھا۔ ہم نے مان لیا۔ مگر بعد ازاں اس تنظیم کے بڑوں نے ٹی وی کی اہمیت کو تسلیم کر کے اپنا چینل بھی بنا لیا۔ تو لگا کہ یہ لوگ بھی غلطی کر سکتے ہیں۔

میڈیا کی مثال لیں تو پروگرام اینکرز لوگوں کی مختلف ایشوز پر ذہن سازی کرتے ہیں۔ ایک ٹیم ایسی لائن لیتی ہے کہ ”جیو“ کہلاتی ہے۔ جب کہ ”اوپینین لیڈرز“ کی ایک ٹیم حالات کو عام آدمی تک اس زاویے سے پہنچاتی ہے کہ ”اے۔ آر۔ وائے“ بن جاتی ہے۔ ان ”اوپینین لیڈرز“ نے دین کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا۔ معصوم لوگوں کی کم علمی کا فائدہ اٹھایا اور ان کی خدا و رسول سے محبت کا استحصال کیا، ہمارا سیاسی کلچر یہ ہے کہ ملک کی فلاح کے بجائے ووٹ کرتے ہوئے ہم صرف لوکل امیدوار کے ساتھ اپنا تعلق دیکھتے ہیں۔ دینی معاملات میں بھی اپنے اپنے روحانی پیشوا اور آئیڈیل کے ساتھ وفاداری کو ہی مقدم جانتے ہیں۔

مجھے یاد ہے بچپن میں ہمارا پسندیدہ خطیب وہ ہوا کرتا تھا جس نے تقریر کرتے ہوئے مکا مار کر کرسی کا بازو توڑ دیا تھا۔ مجموعی طور پر بحیثیت قوم ہم شدت پسند ہیں۔ ہمیں بچپن سے ایسی فوک کہانیاں سننے کو ملتی ہیں کہ جن میں عاشق انتہائی غیر منطقی انداز میں جان دے دیتے ہیں کوئی گھڑا دریا میں ڈال کر مرتا ہے تو کوئی کسی اور طریقے سے۔ ان میں سے کسی داستاں کا تعلق نارمل زندگی سے نہیں ہے۔ کہانی کار یا داستان گو بھی بچوں کی ذہن سازی کرتے ہیں۔

زندگی میں کچھ لوگ ”پلانر“ ہوتے ہیں اور کچھ ”ڈوئرDoer“ ہوتے ہیں۔ جو ”پلانر“ والی کیٹگری ہے یہ اپنے آپ کو نعروں، بڑے بڑے بول سے مطمئن کر لیتی ہے اور یہ لوگ گفتار کے غازی ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسری کیٹگری والے عملی طور پر کر کے دکھانے پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ خاموشی سے محنت کرتے ہیں اور دنیا ان کو ”کردار“ سے پہچانتی ہے۔ نبی کریم ص کے عاشق وہ ہیں جو دوسروں کو تعلیم دیتے ہیں۔ کسی انسان کو تکلیف پہنچانا تو دور وہ کسی حیوان سے بھی برا سلوک نہیں کرتے۔

جو صبر کا پہاڑ ہوتے ہیں۔ جن کے اندر سب کچھ سمیٹ لینے کا نہیں بلکہ قربانی کا جذبہ ہوتا ہے۔ جو دوسروں کی ترقی دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، جو حلال رزق کماتے ہیں۔ جو مجسمہ اخلاق ہوتے ہیں۔ عشق آپ کو مدہوش نہیں کرتا، بلکہ دل و دماغ کو جلا بخشتا ہے۔ آپ کو اپنی ذات کے علاوہ سب اہم لگنے لگتے ہیں۔ عشق کا جنون درحقیقت دوسروں کی خدمت کرنے کا جنون ہے، لوکائی کے کام آنے کا جذبہ ہے۔ علامہ اقبال نے بھی ایک جگہ ایسی ہی بات کی۔ لکھتے ہیں۔

خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا

وقت آ گیا ہے کہ عشق کی تعریف (Definition) پر نظر ثانی کی جائے۔ یہ کام اوپینین لیڈرز کے اوپر فرض ہے۔ پراپیگنڈہ کے اس دور میں متوازن ذہن سازی سے بڑا جہاد کوئی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments