میں بڑا آدمی کیسے بنوں؟


ہر ماں کی طرح میری والدہ مجھے بچپن میں اپنی میٹھی لوریوں کے ساتھ یہ عندیہ بھی دیتی تھیں کہ میرا جگر کا ٹکڑا مستقبل میں بہت بڑا آدمی بنے گا۔ گویا آغوش مادر میں ہی لاشعوری طور پر دماغ کے کونے میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ مجھے بہت بڑا آدمی بننا ہے۔ بچپن کے چند دھندلکے نقوش کو جب یادداشت کے دریچے سے جھانکتے دیکھتا ہوں تو یاد پڑتا ہے کہ یہ وہ دور تھا جب ہمارے گاؤں میں پکی اینٹوں کے مکانوں نے زور پکڑا۔ اس دوران میرا معصوم ذہن یہ مشاہدہ کرتا رہا کہ اس معاشرے میں ایک مستری کی کتنی عزت ہے۔ مزدور تو مزدور ایک انسان بھی انہیں استاد کہہ کر عزت دیتا ہے۔ پس دل نے ٹھان لی کہ اب میں نے بڑا ہو کر مستری ہی بننا ہے۔

ایک روز جو ددھیال کے سب چاچو، پھپھیاں اکٹھی تھیں تو کسی نے ازراہ مذاق پوچھ لیا کہ کیوں بھتیجے بڑے ہو کر کیا بنو گے؟ ہم نے بھی برجستہ کہہ دیا کہ ’بڑا آدمی بنوں گا۔‘ سوال آیا ’وہ کیسے؟‘ معصومانہ سا جواب ملا۔ ’مستری بنوں گا۔‘ ۔ بس پھر کیا تھا قہقہوں کی گونج اور میری حیرانی۔ جب ہنسی کا کچھ طوفان تھما تو چھوٹی پھپھو نے پیار سے گود میں لیا اور گویا ہوئیں۔ ’نہیں نہیں میرے منے کا مذاق مت بناؤ۔ یہ تو ڈھیر سارا پڑھے گا اور پھر کوئی بڑا افسر بن کر بڑا آدمی بنے گا۔‘

اچھا تو پڑھا لکھا افسر بڑا آدمی ہوتا ہے۔

بس پھر کیا تھا منجھلے چاچو شام کو سب طالب علموں کو اکٹھا کر کے پڑھا رہے ہوتے تو آنجناب بھی تسکین شوق کو چاچو کی گود میں براجمان ہو جاتے اور ہر کتاب کی تصاویر کا بغور مشاہدہ کرتے۔ تصاویر کے انہی مشاہدے کو میری علم دوستی سے تعبیر کرتے ہوئے بوریا بستر سمیت سرگودھا والی بڑی پھپھو کے ہاں منتقل کر دیا گیا تاکہ شہر میں رہ کر اچھی تعلیم دلوائی جا سکے۔ بڑی پھپھو والے گھر میں ویسے کہنے کو تو دو خاندان ہی آباد تھے مگر سب کے چھوٹے بڑے رشتہ دار ملا کر لگ بھگ 28، 29 تعداد بن جاتی تھی، جن میں سے 16 کے قریب تعداد طالب علموں کی تھی۔

اس قیمتی موقع سے مستفید ہوتے ہوئے محلے کے ایک شاہ جی نے اپنی بیٹھک میں سکول کی بنیاد رکھ دی۔ اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس ایک کمرے کے سکول میں ہمارے کہوٹ خاندان کے طالب علموں کے علاوہ کوئی غیر نہ تھا۔ پس اس فیملی سکول میں اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے آنجناب نے کچی پکی (نرسری پریپ) کی دو سالہ ڈگری چھ ماہ کی مختصر مدت میں حاصل کر لی۔

اسی دوران ماہ رمضان آ گیا تو شہری روزوں سے بھی آشنائی ہوئی۔ گھر میں ہر طرف نماز، قرآن، تسبیح و درود اور دعاؤں کے جلوے بکھرنے لگے۔ ان پرنور ساعتوں نے معصوم سے دل کو موہ لیا۔ ماہ رمضان کے پہلے جمعہ شہر کی جامع مسجد دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا۔ مولانا صاحب نے خطبے میں الفاظ کے تانے بانے باندھنے کے بعد اختتام پر یہ ثابت کیا کہ نماز، روزہ کا پابند انسان ہی خدا کے نزدیک کامیاب تر انسان ہے ورنہ ٹھکانہ جہنم ہے۔

ہونا کیا تھا۔ دوزخ کا خوف تو شاید اس قدر غالب نہ آ سکا۔ ہاں مگر کامیاب بننے کا ایک اور نسخہ ہاتھ لگنے پر من و عن تسلیم کر لیا کہ کچھ بھی ہو جائے اب سے نماز روزہ تو پکا ہے۔ (یاد رہے یہ سب کچھ ایک ایسے بچے کے ذہن میں چل رہا تھا جس نے مشکل سے تاریخ کے چھ سال دیکھے ہوں گے ) خیر جیسی تیسی نماز بھی سیکھی، قرآن مجید پڑھنا بھی شروع کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اگلے چند ماہ میں قرآن رحل میں موجود دعا و مناجات کی کتب میری روزمرہ زندگی کا وتیرہ بن گئیں اور واقعتاً آج تئیس سال گزرنے کے بعد بھی وہ گزرا وقت مجھے قلبی سکون پہنچاتا ہے۔

وقت کا پہیہ تیزی سے چلتا رہا اور چند ہی سال بعد ہمیں مکان کی منتقلی کی وجہ سے ایک نئے اور قدرے بہتر اسکول میں داخل کرا دیا گیا، جہاں پہلے روز کی پہلی کلاس میں ہی آنجناب پر انکشاف ہوا کہ ہم جدید دور کے تقاضے کے مطابق انگریزی زبان سے کس قدر نابلد ہیں۔ بہترین اور شفیق اساتذہ نے کچھ اس انداز سے تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دیا کہ معلوم نہیں کب میرے اندر بھی ایک معلم بننے کی خواہش نے انگڑائی لینی شروع کر دی۔

مڈل کا امتحان پاس کرنے کے بعد تعلیمی سفر میٹرک کی حدود میں داخل ہونے لگا تو سوال اٹھا کہ میٹرک کی تعلیم میں سائنس یا آرٹس میں سے سائنس کا انتخاب تو حتمی ہے۔ لیکن کیا سائنسی حیاتیات کا علم (بائیولوجی) حاصل کرنا ہے یا کمپیوٹر کی تعلیم میں طبع آزمائی کرنی ہے؟ خیر خاندان کے چند سیانوں کا جرگہ بیٹھا اور اکثریتی رائے سے قرارداد بائیولوجی کے حق میں منظور کر لی گئی۔ سنہرے دور تھے، خاندان میں زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کا فقدان تھا جس بنا پر میٹرک کے سالانہ امتحان میں میرے 72 فیصد نمبروں کو بھی خاندانی حلقہ احباب میں بہت پذیرائی ملی۔

اب جو معاملہ انٹرمیڈیٹ کے مراحل میں داخل ہوا تو بات خاندانی جرگے کی حدود سے نکل کر اطراف میں موجود محلہ داروں اور جان پہچان کے لوگوں تک جا پہنچی۔ کچھ تعلیمی مشیروں نے کامرس کی تعلیم کا مشورہ دیا تو بعض نام نہاد ماہر تعلیم نوسر بازوں نے والد محترم کے حضور تین سال تکنیکی ڈپلومہ کروانے کی صلاح پر کان بھرنے شروع کر دیے۔ بعض گوشوں سے ایف ایس سی کے فوائد و نقصانات کی باز گشت سماعتوں سے ٹکرائی تو گویا ایسے محسوس ہوا جیسے اپنے استاد بننے کی خواہش کے حوالے سے ایف ایس سی کافی مطابقت رکھتی ہے۔ غرض کہ ہر طرح کے دباؤ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے آنجناب ایک دفعہ پھر بائیولوجی (ایف ایس سی پری میڈیکل) کے ساتھ رشتہ تعلیم میں منسلک ہو گئے۔

کالج کے آزادانہ ماحول میں تعلیمی دلچسپی کچھ ماند پڑنے لگی تو دھیان دیگر ہم نصابی سرگرمیوں میں زیادہ لگنے لگا۔ لائبریری کی ادبی کتب سے لے کر اخبار، جرائد اور میگزین مطالعہ کا حصہ بنتے گئے۔ ذوق مطالعہ کی تبدیلی نے جہاں آنجناب کے ذہن کی حدود کو وسعت عطا کی وہیں نصابی تعلیم میں کوئی خاطرخواہ کامیابی نہ سمیٹ سکے اور مناسب نمبروں سے انٹرمیڈیٹ کے میدان کو بھی فتح کر لیا گیا۔ لیکن اس معرکہ آرائی کے ساتھ ہی سر پر پروفیشنل ایجوکیشن نامی کوئی افتاد آن پڑی اور حسب سابق کیرئیر کونسلنگ کی مد میں مشوروں کا سیلاب امڈ آیا۔ غرض ’جتنے منہ اس سے کہیں زیادہ مشورے‘

ایک ذاتی نوعیت کے دورہ پر چکوال جانے کا اتفاق ہوا تو ہمارے ایک نہایت ہی پڑھے لکھے شفیق بزرگ نے مشورہ دیا کہ ’بیٹا! میرے خیال میں اگر آپ اپنی اسی سابقہ تعلیم کو جاری رکھتے ہوئے پودوں کے مطالعہ کے حوالے سے باٹنی یا ایگریکلچر (زراعت) کا انتخاب کریں تو مستقبل میں یقیناً کامیاب ٹھہریں گے۔‘ مخلصانہ مشورہ ذہن کے پردے پر ٹھیک نشانے پر جا لگا اور اپنے استاد بننے کے شوق کی تسکین کے لیے زراعت کی تعلیم کا انتخاب کرتے ہوئے یونیورسٹی کے در پر حاضر ہو گئے۔

انٹرمیڈیٹ کی نادانیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے گریجوایشن کی تعلیم میں شروع سے ہی ہم نصابی سرگرمیوں کو بالکل ہی خیرباد کہا اور مکمل توجہ پڑھائی پر مرکوز کر دی۔ ہاں البتہ میسر ماحول اور چڑھتی جوانی کی وجہ سے کچھ عرصے کے لیے ’بوائے فرینڈ‘ بننے کی خواہش نے بھی جنم لیا۔ بعض جگہوں پر درخواست گزاری کے عمل سے بھی گزرے مگر کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے ۔ مجبوراً راہ فرار اختیار کرنا پڑا۔

اب بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ ذہن یہ بارآور کرنے پر مجبور ہو گیا کہ صرف ٹیچنگ ہی وہ واحد میدان نہیں جہاں مستقبل مقید ہو کر رہ جاتا ہے بلکہ اس سطح کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پیشہ ورانہ جوہر دکھانے کے لیے ایک وسیع و عریض جہان آباد ہے جہاں ہم اپنی استعداد کے مطابق اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر ’بڑے آدمی‘ بن سکتے ہیں۔ ڈگری تیسرے سمیسٹر کی حدود میں داخل ہوئی تو زرعی معاشیات کے پروفیسر صاحب نے مضمون کی افادیت کے حوالے سے جو ایک تفصیلی لیکچر دیا تو شوق کے باغیچے میں ایک نئے پھولدار پودے نے جنم لیا۔ شومئی قسمت کہ پانچویں سمیسٹر یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے چند ناگزیر وجوہات کی بناء پر یہ مضمون بطور میجر سبجیکٹ (بنیادی مضمون) پیش ہی نہیں کیا گیا اور مجبوراً ہمیں ثانوی ترجیحی بنیادوں پر ہارٹیکلچر (باغبانی) کا انتخاب کرنا پڑا۔

گریجوایشن میں بہترین کامیابی کے بعد ماسٹرز (آنرز) کے لیے جامعہ زرعیہ فیصل آباد کا رخ کیا اور وہاں بھی بہترین اساتذہ کی زیر نگرانی اس مرحلہ تعلیم میں کامیابی سے ہم کنار ہوئے۔ ڈگری مکمل ہونے سے تھوڑا ہی عرصہ قبل زرعی ترقیاتی بینک آسامیوں پر بھرتی کے لیے اخبار میں اشتہار ملاحظہ کیا تو استاد بننے کی خواہش کو پس پشت ڈالتے ہوئے فوراً بھرتی کے لیے درخواست دے ڈالی۔ مطلوبہ ٹیسٹ پاس کرنے اور انٹرویو کے مرحلہ سے گزرنے کے باوجود کامیاب نہ ٹھہرائے جا سکے۔ خیر اس فرصت سے مستفید ہوتے ہوئے ایک نجی کالج میں بطور لیکچرر خدمات سر انجام دیں جس سے استاد بننے کی خواہش کو کافی حد تک تسکین حاصل ہوئی۔

اس سارے گزشتہ عمل میں بڑا آدمی بننے کا خواب جیسے ابھی بھی تشنہ ہی تھا۔ آنجناب جس بھی مشتہرنوکری کے اہل ٹھہرتے، جھٹ سے عرضی بھیج دی جاتی۔ مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ چند ماہ گزرنے کے بعد قسمت کچھ یوں مہربان ہوئی کہ اس بار مطلوبہ ٹیسٹ و انٹرویو پاس کرنے کرنے کے بعد آنجناب زرعی ترقیاتی بینک کے لیے منتخب کر لیے گئے۔ پہلے پہل تو لگا کہ شاید اس منزل کے حصول کے بعد واقعی میں کوئی بڑا آدمی بن گیا ہوں۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ یہ احساس بھی شدت اختیار کر گیا کہ بچپن سے وہ بڑا آدمی بننے والا کاسہ ابھی بھی خالی ہے۔

پھر ایک روز اس راز سے بھی پردہ اٹھا کہ جب ایک حقیقی بڑا آدمی اس دنیا سے اٹھ گیا۔

9 جولائی 2016 ء بروز ہفتہ کچھ احباب کے ساتھ ٹیلی ویژن پر کسی جنازے کے مناظر براہ راست دکھائے جا رہے تھے۔ جنازے میں حکومتی اعلیٰ عہدیداران و افسران سمیت عسکری قیادت کی بھی بھرپور شرکت تھی اور عوام کا ایک جم غفیر جنازے کے مقام پر اکٹھا ہو رہا تھا۔ ٹیلی ویژن پر چلنے والی ایک سرخی کے بقول ”28 فروری 1928 کو طلوع ہونے والا ایک انسانی آفتاب آج اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ۔“ میرے پاس بیٹھے ایک بزرگ اپنی پرنم آنکھیں لیے فرمانے لگے۔

’واہ الٰہی تیری قدرت۔ اس بڑے آدمی کا جنازہ حقیقت میں ایسی ہی عزت و تکریم کا مستحق تھا جیسی توقیر تو نے اسے عطا کی ہے۔‘ میرا ماتھا ٹھنکا اور برجستہ ان بزرگ سے سوالیہ انداز میں پوچھا۔

’بڑا آدمی؟ وہ کیسے؟‘
ایک ٹھنڈی سی سانس لینے کے بعد بزرگ یوں گویا ہوئے۔

’ہاں بیٹا!‘ عبدالستار ایدھی صاحب ’جیسا شخص کہ جس نے اپنی ساری زندگی انسانیت کے لیے وقف کر دی ہو بھلا اس سے بڑھ کر بڑا آدمی کون ہو گا؟‘

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں

اوہ۔ تو بڑا آدمی بننے کا حقیقی نسخہ یہ ہے۔ اور میں یہ نسخہ حاصل کرنے کے لیے در در کی خاک چھانتا رہا مگر اس حقیقت کو نہ پا سکا جو میرے تشنہ جام کو سیر کر سکے۔ آج جب بڑا آدمی بننے کا نسخہ ہاتھ آ ہی گیا ہے تو اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے شرمندہ ہوں کہ اتنی عمر گزاری کے باوجود میں اب تک ’بڑا آدمی‘ نہیں بن سکا۔

لیکن کیا ہوا آغاز سفر تو ممکن ہے نا۔

اعتزاز حسن کہوٹ
Latest posts by اعتزاز حسن کہوٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments