کابل میں پارلیمنٹ کے قریب افسوسناک دہشت گرد حملہ


\"\"آج سہ پہر کابل میں افغان پارلیمنٹ کے قریب دہرے دہشت گرد حملہ میں کم از کم تیس افراد ہلاک اور اتنے ہی شدید زخمی ہو گئے ہیں۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے میڈیا کو ایک ای میل میں اس حملہ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اور کہا ہے کہ اس حملہ کا مقصد ملک کے نیشنل ڈائیریکٹوریٹ آف سیکورٹی کے عملہ کو نشانہ بنانا تھا۔ تاہم خبروں کے مطابق مرنے والوں میں زیادہ لوگ عام شہری تھے جو اس وقت وہاں سے گزر رہے تھے۔ پولیس نے اطلاع دی ہے کہ ان دھماکوں میں این ڈی ایس کا ایک اعلیٰ افسر بھی ہلاک ہؤا ہے۔ گزشتہ کئی ماہ کے دوران کابل میں ہونے والا یہ شدید ترین حملہ ہے۔ اس کے اثرات افغانستان میں امن و امان کی صورت حال کے علاوہ پاکستان کے ہمسایہ ملک سے تعلقات پر بھی مرتب ہوں گے۔

یہ حملہ دہشت گردوں کے آزمودہ ہتھکنڈہ کے مطابق دو حصوں میں کیا گیا تھا۔ پہلا دھماکہ پیدل چلنے والے ایک خود کش بمبار نے پارلیمنٹ کے دروازے کے باہر کیا۔ پولیس جب زخمیوں کو سنبھالنے اور نقصان کا اندازہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی تو سڑک کے دوسری طرف کھڑی ایک کار میں بم دھماکہ ہؤا۔ اس طرح جانی نقصان میں اضافہ ہوگیا۔ مزید راہگیر اس کار بم کی وجہ سے جاں بحق ہوگئے۔ کابل کے پولیس چیف احمد ولی نے بتایا ہے کہ ان دھماکوں کا نشانہ عام راہگیروں کے علاوہ افغان پارلیمنٹ میں کام کرنے والے ملازمین بھی بنے ہیں۔ یہ لوگ شام کے وقت دفتری اوقات کے بعد گھروں کو واپس جا رہے تھے کہ اچانک ان دھماکوں کی زد میں آگئے۔ یہ علاقہ کابل کا مرکزی اور حساس علاقہ ہے ۔ پارلیمنٹ کے علاوہ ، امریکن یونیورسٹی اور کئی اہم دفاتر بھی اسی علاقے میں موجود ہیں۔

اس حملہ کی ذمہ داری فوری طور پر طالبان نے قبول کی ہے اس طرح انہوں نے حکومت کو اپنی موجودگی کا پیغام دینے کے علاوہ یہ واضح کیا ہے کہ یہ تخریبی قوتیں مصالحت اور بات چیت پر آمادہ نہیں ہیں۔ پاکستان میں پاک فوج کے نئے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقرری کے بعد امید کی جارہی تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم ہوگی اور تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔ جنرل باجوہ نے گزشتہ ماہ افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے فون پر بات کی تھی۔ ان دونوں لیڈروں نے پاک فوج کے سربراہ کو کابل کا دورہ کرنے کی دعوت دی تھی۔ آج ہونے والے حملہ کے بعد افغانستان کی طرف سے پاکستان پر شکوک کا اظہار کرنے کے علاوہ الزامات بھی عائد کئے جائیں گے۔

افغان حکمران پاکستان کو افغان طالبان کا سرپرست سمجھنے کے علاوہ قبائیلی علاقوں میں حقانی نیٹ ورک کی موجودگی کو افغان مفادات کے خلاف قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج نے آپریشن ضرب عضب کے دوران ان عناصر کے خلاف کارروائی نہیں کی ہے۔ اس طرح یہ گروہ افغانستان میں دہشت گرد حملوں کے لئے بدستور پاکستانی علاقوں کو استعمال کرتا ہے۔ اگرچہ پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا ہے لیکن امریکہ بھی افغانستان کے مؤقف کی تائد کرتا ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران افغان صدر نے بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ مل کر دہشت گردی کی سرپرستی کرنے کے حوالے سے پاکستان پر سخت الزامات عائد کئے ہیں۔ اس طرح 2013 میں جنرل راحیل شریف کے آرمی چیف بننے کے بعد پاکستان اور افغانستان میں تعلقات بہتر بنانے کی جن کوششوں کا آغاز ہؤا تھا، وہ الزام تراشی کے ماحول میں ختم ہو چکی ہیں۔ افغانستان واضح طور سے بھارت کا ہمنوا بن چکا ہے اور دونوں ملک مل کر پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

افغانستان میں حکومت کے خلاف جد و جہد کرنے والے طالبان عسکری گروہ بدستور مذاکرات سے انکار کررہے ہیں۔ امریکہ اور افغانستان کے علاوہ پاکستان کے قریب ترین حلیف چین کو بھی امید تھی کہ پاکستان طالبان کے ساتھ طویل وابستگی کی وجہ سے انہیں بات چیت پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ تاہم حالات نے ایسی کروٹ بدلی کہ پاکستان خواہش کے باوجود ان عناصر کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اب یہ خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں کہ پاکستان کو طالبان کی نئی قیادت پر پہلے جیسا اثر و رسوخ حاصل نہیں ہے۔ طالبان کی اشتعال انگیزی کی ایک وجہ ان گروہوں کے باہمی اختلافات ہیں۔ اس کے علاوہ داعش نے بھی طالبان کے حلقوں میں اپنے اثرو رسوخ میں اضافہ کیا ہے۔ اس وجہ سے بھی طالبان قیادت مزید انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ذریعے مختلف گروہوں اور علاقوں پر اپنا اثر برقرار رکھنے کی تگ و دو کررہی ہے۔

پاکستان نے ابھی تک افغان طالبان کے حوالے سے واضح پالیسی اختیار نہیں کی ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان بدستور طالبان کو افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ کے خلاف پاکستان کا بہترین اثاثہ سمجھتا ہے۔ پاکستان امریکی ڈررون حملہ میں افغان لیڈر ملا اختر منصور کی ہلاکت اور افغانستان کے علاقے قندھار کے راستے بھارت کی بلوچستان میں مداخلت کو طالبان کی قوت کی وجہ قرار دیتے ہوئے واضح کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ اسی لئے طالبان لیڈر اب پاکستان کی بات پر کان نہیں دھرتے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کو بھی اس کی ایک وجہ بتایا جاتا ہے۔ تاہم یہ سارے عذر پاکستان کی پوزیشن واضح کرنے کے لئے کافی ثابت نہیں ہورہے۔ پاکستان کے بعض حلقوں میں افغان طالبان کے لئے بدستور ہمدردی کے جذبات پائے جاتے ہیں اور حکومت مسلسل اپنی پالیسی میں دو عملی کا شکار ہے۔ اگر افغانستان میں طالبان پاکستانی مفادات کے برعکس کارروائیاں کررہے ہیں تو اسے فوری طور پر ان کے ساتھ ہر قسم کے رابطے ختم کرکے اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہئے۔

پاکستانی حکومت اور فوج کو سمجھنا ہوگا کہ اب دنیا دہشت گردی کے ہاتھوں اس قدر عاجز آچکی ہے کہ کسی بھی ملک کے لئے کسی دہشت گرد گروہ کو خارجہ پالیسی کے مقاصد کے لئے استعمال کرنا انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جو عناصر دو دہائیوں سے دہشت گردی اور جنگ جوئی میں ملوث ہیں اور پاکستان کے لئے مشکلات کا سبب بن رہے ہیں ، ان کے ساتھ ہمدردی یا سرپرستی کا رویہ پاکستان کی سلامتی اور مفادات کے برعکس ہے۔ پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے اپنی دیرینہ پالیسی کو تبدیل کرکے تمام ابہام ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دوست دشمن یکساں طور سے یہ جان سکیں کہ پاکستان اب کسی عسکری گروہ کے ساتھ دوستی یا درپردہ تعلق پر یقین نہیں رکھتا۔ اسی طرح بھارت کے پروپیگنڈا اور افغانستان اور امریکہ کی شکایتوں کا ازالہ ممکن ہے۔

ملک میں پاک چین اقتصادی معاہدہ کے حوالے بات کرتے ہوئے اسے گیم چینجر قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاہم اب پاکستان کے ارباب بست و کشاد کو اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ اس علاقے میں عسکری گروہوں اور انتہا پسندی کے خاتمہ کے بغیر یہ منصوبہ بھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پائے گا۔ اس طرح طالبان خواہ وہ پاکستان کے خلاف بر سر پیکار ہوں یا افغانستان کے خلاف سرگرم ہوں، انہیں ختم کرنا اور سیاسی مفاہمت پر آمادہ کرنا بے حد ضروری ہے۔ افغانستان میں بدامنی اور دہشت گردی کی فضا میں پاکستان اپنی ترقی اور خوش حالی کا خواب نہیں دیکھ سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments