عہد ساز ہدایت کار: بمل رائے


چند سال قبل کا واقعہ ہے۔ ہندی سینما کے باصلاحیت ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی کی فلم ’دیوداس‘ کا شہرہ تھا۔ ایک محفل میں میرے ایک دوست نے فلم پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ شاہ رخ خان، ایشوریا رائے اور مادھوری ڈکشت نے دیوداس کا حق ادا کر دیا۔ میں نے حیرت سے پوچھا آپ نے دلیپ کمار کی دیوداس دیکھی ہے ؟ انہوں نے روکھے پن سے جواب دیا دیکھنے کی کیا ضرورت۔

کلاسیک فلموں سے ناواقفیت عموماً اسی قسم کے رویوں کو جنم دیتی ہے۔جیسے میرے ایک دوست کا آج بھی ماننا ہے کہ رتھک روشن نے شہنشاہ اکبر کے کردار سے فلم “جودھا اکبر” میں مکمل انصاف کیا ہے۔ دیوداس بظاہر تین بار فلمائی گئی ہے لیکن اگر باریک بینی اور فنی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو وہ صرف ایک ہی بار بنی ہے۔.

بنگالی زبان کے مایہ ناز ناول نگار پنڈت شرت چند چٹر جی کے اس شہرہ آفاق ناول پر پہلی فلم 1934 میں پی سی بروا نے سہگل کو لے کر بنائی، جس میں ہدایت کاری کا رنگ تو تھوڑا پھیکا ہے تاہم سہگل کی اداکاری و گلوکاری لاجواب ہے۔ دوسری بار 1956 کو ہندی سینما کے عہد ساز ہدایت کار بمل رائے نے اسے فلمایا۔دلیپ کمار، سچترا سین، وجینتی مالا اور موتی لال کی لازوال اداکاری، ایس ڈی برمن کی موسیقی، ساحر لدھیانوی کے نغمے اور اردو افسانے کے عظیم نام راجندر سنگھ بیدی کے مکالموں نے مل کر اس فلم کو حقیقی معنوں میں ’امر‘ کر دیا۔ تیسری بار 2002 کو اسے سنجے لیلا بھنسالی نے فلم کا روپ بخشا۔ شاہ رخ خان نے اس فلم میں دلیپ کمار کی ہی نقالی کی اور انہی کے انداز کو کلی طور پر اپنایا۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بمل رائے کہاں کھڑے ہیں۔

آج کی نسبت اس زمانے کے فنکار پڑھے لکھے ہوا کرتے تھے۔ پڑھے لکھے سے مراد یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نہیں بلکہ کتابوں سے ہمہ وقت علم کشید کرنے والے۔ ایک ایسے ہی پڑھے لکھے فنکار بلراج ساہنی نے ، جو متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، بمل رائے کو یونیورسٹی آف آرٹ کا خطاب دیا جبکہ سنیل دت کے بقول بمل رائے کے ساتھ کام کرکے آپ سالوں کا تجربہ مہینوں میں حاصل کرسکتے ہیں اسی طرح اداکارہ نوتن ان کو فلمی انسٹیٹیوٹ سے تشبیہ دیتی ہیں۔

بمل رائے کی فلموں کا اہم ترین کمال یہ ہے کہ ان میں کیمرہ سب سے بڑا راوی ہے، وہ آسان اور عوامی تشبیہات کے ذریعے کیمرے کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ انہیں دولت جمع کرنے کا کبھی شوق نہ رہا، وہ سرتاپا ایک فنکار تھے، حساس فنکار۔ ان کی فلموں میں اداکار محض روبوٹ نہیں ہوتے بلکہ وہ معاشرے کے جیتے جاگتے کردار ہیں جو ہمارے آس پاس زندگی گزارتے ہیں اس لیے ان کی فلمیں محض تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ وہ فلم بین کو غیر محسوس طور پر معاشرے کے سلگتے مسائل پر سوچنے اور ان کے حل پر اکساتے ہیں۔ یہی ان کی عظمت ہے۔

دور حاضر کے باکمال اداکار بومن ایرانی کے بقول ’مجھے بمل رائے کی فلموں نے اداکاری کی جانب راغب کیا اور میں آج بھی اداکاری کے گر سیکھنے کے لئے بمل رائے سے رجوع کرتا ہوں‘۔ عامر خان سے ایک بار پوچھا گیا کہ کیا آپ موجودہ فلموں سے مطمئن ہیں تو انہوں نے فوراً کہا ’نہیں، ہمیں بمل رائے اور گرودت کو دوبارہ دریافت کرنا ہوگا‘۔عامر خان اور سنجے لیلا بھنسالی غالباً بمل رائے کو ہی دریافت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کیونکہ ان کی فلموں بالخصوص ’لگان‘(عامرخان) ، ’دیوداس‘، ’گولیوں کی راس لیلا رام لیلا‘ اور ’باجی راﺅ مستانی” (بھنسالی) پر بمل رائے انداز کا اثر کافی گہرا ہے۔

بمل رائے 12 جولائی 1909 کو ڈھاکہ کے نواحی علاقے سوپور میں ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ کہا جاتا ہے بچپن سے ہی بنگالی ادب کے ساتھ ان کا تعلق بن گیا اور یہ رشتہ نہ صرف عمر بھر رہا بلکہ ان کی پیشہ ورانہ زندگی پر بھی اس کے اثرات نظر آتے ہیں۔ ڈھاکہ کے جگن ناتھ کالج سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1930 میں انہوں نے نوکری کی تلاش میں کلکتہ کا رخ کیا۔

ممبئی کے بعد کلکتہ ہندوستان کی دوسری بڑی فلم انڈسٹری تھی اس لیے انہوں نے ملازمت کی تلاش میں مختلف فلم کمپنیوں کے چکر لگانے شروع کردیے تھوڑی سی تگ و دد کے بعد پی سی بروا کی سربراہی میں قائم نیو تھیٹر کمپنی میں انہیں ملازمت مل گئی۔ان کی اچھی قسمت اس زمانے کے مشہور فوٹوگرافر نیتن بوس نے انہیں اپنا اسسٹنٹ کیمرہ مین بنا لیا۔ کیمرے کا ماہرانہ استعمال انہوں نے اسی دوران سیکھا۔ ان کی قابلیت اور مہارت سے پی سی بروا کافی متاثر تھے ۔ اس لیے جب 1934 میں انہوں نے پنڈت شرت چند چٹرجی کے ناول ’دیوداس‘ کو فلمانے کا منصوبہ بنایا تو لینڈنگ فوٹوگرافر کی ذمہ داری انہوں نے بمل رائے کو سونپی۔ اس فلم کی تیاری میں انہوں نے بروا کے معاون خاص کے فرائض بھی انجام دیے۔

کے . ایل سہگل کی اداکاری اور گلوکاری کو عوام نے کافی پسند کیا مگر بمل رائے کو فلم نہ بھائی اور انہوں نے ٹھان لیا کہ مستقبل میں اس فلم کو اپنے انداز میں بنائیں گے۔ پی سی بروا کو ان کی ناپسندیدگی اور اس سے منسلک تیکنیکی مسائل کا بخوبی ادراک تھا۔ اس لیے انہوں نے اپنی اگلی فلم ’ماں‘ کی ہدایت کاری بمل رائے کے سپرد کردی۔ اس فلم کی ہدایت کاری سے ہی ثابت ہوگیا کہ وہ تقلیدی نہیں بلکہ تخلیقی فنکار ہیں۔

1950ءتک وہ کلکتہ فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے جبکہ اسی سال انہوں نے بلراج ساہنی کو لے کر فلم “پہلا آدمی” بنائی۔ اس فلم نے ہندی سینما پر ان کی دھاک بٹھادی۔.
بمبئے ٹاکیز کی شریک سربراہ اور ہندی سینما کی خاتون اول دیویکا رانی کو مردم شناس مانا جاتا ہے اور کیوں نہ مانا جائے دلیپ کمار جیسے شہنشاہ جذبات سمیت متعدد قابل فنکاروں کو انڈسٹری میں لانے کا سہرا انہی کے سر تو جاتا ہے۔ ممبئی میں بیٹھی دیویکا رانی کی عقابی نگاہوں سے بھلا بمل رائے کیسے اوجھل رہتے، انہوں نے فوراً ان کو ممبئی آکر بمبئے ٹاکیز کا حصہ بننے کی دعوت دی جسے رائے صاحب نے خوشدلی سے قبول کر لیا۔ وہ 1950 میں ممبئی آکر بمبئے ٹاکیز کا حصہ بن گئے تاہم کمپنی کے ساتھ وہ دور تک نہ چل پائے۔ دو یا ڈھائی برس کے بعد انہوں نے کمپنی سے علیحدگی اختیار کرکے اپنی ذاتی پروڈکشن کمپنی کی داغ بیل ڈالی۔.

اسی دوران اطالوی نو حقیقت پسند سینما (Italian neo-realistic cinema) کا بھی انہوں نے بغور مشاہدہ کیا۔.وہ اس اطالوی تحریک سے شدید متاثر ہوئے۔بعد ازاں ان کی تقریباً تمام فلمیں اسی تحریک کے زیر اثر تخلیق ہوئیں۔اطالوی نو حقیقت پسندی نے ہندی سینما سمیت دنیا بھر کے سینماو ¿ں کو متاثر کیا۔ ہندی سینما پر اس کے اثرات کا جائزہ پھر کبھی لینے کی کوشش کریں گے۔ اطالوی سینما کے مشاہدے کے دوران ان کی نظر اطالوی ہدایت کار ویٹوریو دی سیکا(Vittorio De Sica) کی فلم بائیسکل چور (Bicycle Thief ) پر پڑی اس فلم نے ان کے ذہن پر گہرے نقوش چھوڑے۔انہوں نے اس فلم کے تناظر میں ہندوستان اور بالخصوص کلکتہ شہر کا باریکی سے جائزہ لیا۔ آزادی ملنے کے باوجود عام آدمی کی غیر متبدل زندگی، اس کے سخت روز و شب اور دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کو انہوں نے فلمانے کا انقلابی منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے کی کوکھ سے 1953 میں جنم ہوا اس فلم کا جسے ہندی سینما کی دس بہترین فلموں میں گنا جاتا ہے۔ وہ فلم جس کے مرکزی اداکار بلراج ساہنی نے پیوند زدہ کپڑے پہن کر ایک مدت تک کلکتہ کی سڑکوں پر سائیکل رکشہ چلایا، نروپا رائے کو بوسیدہ کپڑے پہننے پڑے۔کاسٹیوم ڈیزائنر کی بجائے ہدایت کار نے چور بازار سے پرانے کپڑے خرید کر انہیں جگہ جگہ سے پھاڑا اور ان پر پیوند لگائے۔ بلاشبہ فلم “دو بیگھہ زمین” نے ہندی سینما میں ایک نئے عہد کا آغاز کیا، حقیقی زندگی، عوام کی زندگی، اصلی بھارت کو دکھانے کی ایک ایسی روایت قائم ہوگئی جس نے اگلی دو دہائیوں تک خود کو برقرار رکھا اور ان دو دہائیوں کو آج بھی ہندی سینما کے سنہری دور کے نام سے یاد رکھا جاتا ہے۔

دادا منی اشوک کمار کے بقول وہ دو بیگھہ زمین کو دیکھ کر سن ہوگئے۔.ان کی فریفتگی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنی ذاتی فلم ’پرینیتا‘ جو شرت چندر چٹرجی کے ناول پر مبنی ہے کی ہدایت کاری کا بار گراں بمل رائے پر ڈال دیا۔ رائے صاحب نے اشوک کمار کو قطعاً مایوس نہ کیا، اشوک کمار اور مینا کماری کو لے کر جو ’پرینیتا‘ سینما پر پیش کی گئی اسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کلاسیک کا درجہ حاصل ہوگیا۔

ابھی عوام پرینیتا اور دو بیگھہ زمین کے سحر سے نکلے ہی نہ تھے کہ 1954 کو انہوں نے “بیراج بہو” پیش کر دی۔ کامنی کوشل، منوج بھٹا چاریہ اور پران کی اداکاری پر مشتمل اس فلم کا اثر بھی کچھ مختلف نہ رہا۔ یہ فلم بھی بنگالی زبان کے نامور ادیب شرت چندر کے ایک اور ناول “بہراج لو” پر مبنی ہے۔ گوکہ اسی سال ان کی ایک اور فلم “باپ بیٹی” بھی سینماﺅں کی زینت بنی جو بے غرض انسانی رشتوں کی متاثر کن کہانی ہے تاہم بیراج بہو کے سامنے اس کی چمک کچھ ماند پڑگئی۔

بے انتہا کامیابیاں سمیٹنے کے باوجود ان کے دل میں ایک خلش باقی رہی، وہ ہنوز “دیوداس” کو نہ بھول پائے تھے۔..انہوں نے اب کے اپنے انداز میں دیوداس کو پردے پر پیش کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔.دیوداس کے کردار کیلئے انہوں نے شہنشاہ جذبات دلیپ کمار کو منتخب کیا جبکہ پارو اور چندر مکھی کے لئے ان کی نظر انتخاب بالترتیب میناکماری اور نرگس پرٹھہر گئی۔ میناکماری کے شوہر کمال امروہوی سے معاملات طے نہ پاسکے جبکہ نرگس نے چندرمکھی بننے کی بجائے پارو بننے کی خواہش ظاہر کی یوں دونوں اداکاراو ں سے بات نہ بنی۔ ناچار ثریا سے رابطہ کیا مگر چندر مکھی بننے سے انہوں نے بھی معذرت کرلی واضح رہے دیوداس کی زبردست کامیابی کے بعد تینوں تاعمر افسوس کرتی نظر آئیں۔

ممبئی سے مایوس ہوکر انہوں نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔.پارو کیلئے بنگال سے سچترا سین اور چندر مکھی، تامل وجینتی مالا منتخب ہوئیں۔وجینتی مالا کے کامیاب فلمی کیریئر میں دیوداس کا بنیادی کردار ہے۔بمل رائے کے متعلق مشہور ہے کہ وہ اداکاروں سے صرف اداکاری ہی نہیں کرواتے تھے بلکہ انہیں اس فن کے اسرار و رموز بھی سکھاتے تھے۔ اس درسگاہ سے وجینتی مالا، نوتن، سادھنا اور بلراج ساہنی سمیت دلیپ کمار بھی فیض یاب ہوئے۔

دیوداس نہ شاہ رخ خان بن پائے نہ سہگل، یہ عزت اور عظمت صرف دلیپ کمار کے حصے میں آئی اور یقیناً یہ بمل رائے کا ہی فن ہے۔..

1958 میں انہوں نے ایک بار پھر تہلکہ مچادیا۔.اس سال انہوں نے دو فلمیں بنائیں، “یہودی” جس میں دلیپ کمار اور مینا کماری نے اداکاری کے جوہر دکھائے۔فلم کامیاب رہی مگر جو کامیابی اور شہرت “مدھو متی” کے حصے میں آئی اس کا آدھا بھی یہودی نہ پاسکی۔ مدھو متی میں دلیپ کمار کے مقابل وجینتی مالا ہیں بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ وجینتی مالا کے سامنے دلیپ کمار ہیں۔.اس فلم نے ریکارڈ توڑ بزنس کیا، متعدد ایوارڈ اپنے نام کیے، عالمی سطح پر اس فلم کو سراہا اور دیکھا گیا، اس فلم کے نغمے آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔.مدھو متی کے اثرات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ چند سال قبل 2007 کو اسی فلم سے متاثر “اوم شانتی اوم” نامی فلم نہ صرف سپر ہٹ قرار پائی بلکہ اداکارہ دیپکا پڈکون کو سپر اسٹار بھی بنا گئی۔

ہندی سینما کی بعض فلمیں اپنے لازوال کرداروں کے باعث یاد رہ جاتی ہیں جیسے وحیدہ رحمان “گائیڈ”، نرگس “مدر انڈیا”، مینا کماری “پاکیزہ”، امریش پوری “مسٹرانڈیا” ٹھیک اسی طرح فلم “سجاتا” سنتے ہی نوتن کا سراپا آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔

بنگالی افسانہ نگار سبودھ گوش کا افسانہ “سجاتا” کہانی ہے ایک اچھوت عورت کی جسے 1959 میں فلمایا بمل رائے نے اور اس عورت کے کردار کو امر کیا نوتن نے۔ یہ وہی فلم ہے جس کے ہیرو سنیل دت نے بعد ازاں کہا کہ بمل رائے نے چند مہینوں میں مجھے برسوں کا تجربہ دیا۔ نوتن کو لے کر انہوں نے 1963 کو فلم “بندنی” بھی بنائی جو ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو معاشرے کے فضول روایات اور بندھنوں سے بغاوت کرتی ہے۔

بمل رائے کے ہاں عورت صنف نازک نہیں بلکہ ایک مضبوط اور رنگارنگ کردار ہے، انہوں نے عورت کو ایک شوپیس کی طرح دکھانے سے ہمیشہ اجتناب برتا۔1960ء کی فلم ’پرکھ‘ میں سادھنا بھی ایک ایسے ہی مضبوط اور جاندار کردار میں نظر آتی ہیں۔ پرکھ کو اگر سادھنا کی ترقی کا اولین زینہ قرار دیا جائے تو شاید غلط نہ ہو۔ عورت کی یہ حیثیت 70 کی دہائی سے کمزور ہوتی شروع ہوگئی البتہ ’نو ون کلڈ جیسیکا‘، “میری کوم” ، “مردانی” اور “پیکو” جیسی حالیہ فلموں کے ذریعے عورت کے کردار کو ابھارنے کی کوششیں ایک بار پھر شروع ہوگئیں ہیں۔

ایک اور فلم کا ذکر رہ گیا۔1956 ءکی فلم “کابلی والا” جو رابندر ناتھ ٹیگور کے اسی نام کے ناول پر مبنی ہے۔.اس فلم میں بلراج ساہنی قریب قریب انسان کو رلا دیتے ہیں تاہم اس فلم کے ڈائریکٹر بمل رائے کی بجائے ان کے عقیدت مند ہمین گپتا ہیں البتہ پروڈیوسر رائے صاحب ہیں۔

بندنی ان کی آخری اہم ترین تخلیق ثابت ہوئی۔ 1965 میں انہوں نے دھرمیندر اور شرمیلا ٹیگور جیسے مہنگے اداکاروں کو لے کر فلم “سہارا” شروع کی مگر ابھی پہلا شیڈول مکمل بھی نہ ہوا تھا کہ ان کی طبعیت ناساز ہوگئی۔.معروف ادیب گلزار جو اس وقت ان کے معاون خصوصی تھے، ان کے مطابق ان کی بیماری کی سب سے بڑی وجہ فلم کا اوور بجٹ ہونا تھا جس کی وجہ سے وہ مالی بحران کا شکار ہوگئے تھے۔گلزار اور ان کے دوسرے عقیدت مند معاون دیبوسین گپتا کے مشورے پر انہوں نے شیکسپیئر کے ڈرامے کو کم بجٹ میں فلمانے کے منصوبے پر کام شروع کردیا۔فلم کا نام “دو دونی چار” رکھا گیا مگر قسمت کی دیوی آنکھیں پھیر چکی تھی، فلم ابھی آدھا راستہ بھی طے نہ کرپائی تھی کہ 08 جنوری 1966 کو بمل رائے انتقال کرگئے۔..

گوکہ ہرشی کیش مکھرجی نے فلم “سہارا” کو سہارا دے کر شرمیلا ٹیگور کی جگہ سائرہ بانو کو لے کر فلم مکمل کی مگر فلم کوئی جادو نہ جگاسکی۔ ایسا نہیں کہ مکھرجی میں صلاحیت اور قابلیت کا فقدان تھا بلکہ وہ تو بمل رائے کے ہی شاگرد رہے ہیں مگر بہرحال استاد تو استاد ہی ہوتا ہے۔.

گلزار اور ہرشی کیش مکھرجی نے بعد ازاں ان کے نقش قدم پر چل کر ہندی سینما کو لازوال تخلیقات سے نوازا۔.اس سے بڑھ کر ایک فنکار کو خراج تحسین پیش کرنے کی صورت بھلا کیا ہوسکتی ہے۔

بظاہر بمل رائے نہیں رہے مگر ان کی فلمیں اور ان کا انداز آج بھی زندہ و تابندہ ہیں۔.

بمل رائے، ستیہ جیت رائے، شیام بینگال، گرودت، رشی کیش مکھرجی، یش چوپڑہ، کے.آصف، محبوب خان اور راج کپور جیسے عظیم ہدایت کار بظاہر اب نظر نہیں آتے مگر فن کی روایت مین کب جانیں کون سامنے آئے اور نئی دنیا کی بنیاد رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments