گونجتی سرگوشیاں (افسانے )۔


مرتبین : فرحین خالد، صفیہ شاہد
مبصر : راشد جاوید احمد

محترمہ فرحین خالد نے نہایت محبت و تکریم سے مجھے یہ کتاب بھیجی۔ بھیجی تو انہوں نے بقول ان کے ”میرے ذوق مطالعہ“ کے لیے تھی لیکن کتاب کے مطالعے نے مجھے اس پر کچھ لکھنے کو اکسایا۔ بندہ اگر پیشہ ور نقاد نہ ہو تو مضمون لکھنا کافی مشکل امر ہوتا ہے، سو میری گزارشات مضمون کی صورت ہیں۔

افسانوں کے اس مجموعے میں سات افسانہ نگاروں، ابصار فاطمہ۔ ثروت نجیب۔ سمیرا ناز۔ صفیہ شاہد۔ فاطمہ عثمان۔ فرحین خالد اور معافیہ شیخ کی 35 سرگوشیاں ہیں جنہیں گونج سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ان میں سے ثروت نجیب کا تعلق کابل، افغانستان سے ہے اور باقی سب ہماری ہم وطن ہیں۔

مرتبین نے کتاب کے آغاز میں لکھا ہے کہ ”یہ مجموعہ دھنک رنگی سرگوشیاں ہیں جو کہ صرف عورت ہی نہیں بلکہ ابن آدم سمیت مختلف دم توڑتی معاشرتی اقدار، نفسیاتی مسائل، منافقانہ رویوں اور معاشرے کے دوہرے رخوں کو بے نقاب کرتے ہوئے ایک گونج کی صورت اختیار کرے گا۔“ امید واثق ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔ مجموعی طور پر ان افسانوں کی زبان سادہ اور کہانی یا داستان کا عنصر لیے ہے۔

ابصار فاطمہ :: کے افسانوں میں ہمارے ارد گرد کی عورت کو درپیش زندگی کی مشکلات کو خوبصورت طریقے سے اجاگر کیا گیا ہے۔ ابصار فاطمہ کو اپنے زمانے کا نہ صرف مکمل ادراک ہے بلکہ اس پر ان کی گہری نظر بھی ہے۔ سماجی موضوعات کو حقیقت سے افسانے میں تبدیل کرنا ان کے ہنر کے طور پر سامنے آیا ہے۔ کہانی پن، جزئیات، مشاہدہ اور اسلوب سے عیاں ہے کہ اردو افسانے میں ان کا نام معتبر طور پر ابھر کر سامنے آئے گا۔ ”لچھی کی کرسی“ اور ”ناٹ سو لٹل رائڈنگ ہڈ“ نے مجھے ذاتی طور پر بہت متاثر کیا ہے۔

ثروت نجیب :: کا تعلق کابل، افغانستان سے ہے۔ ان کے کئی افسانے پہلے بھی نظر سے گزرے ہیں۔ چونکہ افغانستان میں کئی عشروں سے خانہ جنگی کی صورت حال ہے اس لئے ان کے افسانے زیادہ تر اسی بیک گراؤنڈ کے ہیں۔ لیکن یہ محض اس ابتر صورت حال کے عکاس ہی نہیں، ثروت نے ان میں جو کردار تخلیق کیے ہیں وہ جانتی ہیں کہ ان کو کس مقام پر رکھنا ہے اور کیسے استعمال کرنا ہے۔ ان کے افسانوں میں تجسس کا ایک عالم بھی پایا جاتا ہے۔ اس مجموعے میں شامل ان کا افسانہ ”خاک و آتش“ بہت عمدہ افسانہ ہے۔ مزید یہ کہ ثروت نجیب ایک عمدہ تجزیہ نگار بھی ہیں۔

سمیرا ناز: سمیرا ناز کا کہنا ہے کہ ”ایک لکھاری کا کام زندگیوں کی تلخیوں کو سمیٹ کر اپنی انگلیاں فگار کرنا ہی نہیں بلکہ ان فگار انگلیوں سے نئے کردار تخلیق کرنا بھی ہے۔“ اس مجموعے میں ان کے افسانوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف کردار تخلیق کیے بلکہ اپنی فگار انگلیوں سے منظر نامے بھی پینٹ کیے ہیں۔ دوران مطالعہ قاری اپنے آپ کو ان منظر ناموں میں کا حصہ محسوس کرتا ہے۔ ان کے افسانوں میں ”بولتے دائرے“ ایک مختلف طرز کا افسانہ ہے۔ اس کے علاوہ ”بلا“ اور ”سوڈے کی بوتل“ بڑے جاندار افسانے ہیں۔

صفیہ شاہد : گونجتی سرگوشیوں میں شامل صفیہ شاہد کے افسانوں میں ان کے مشاہدے اور مطالعے کو ہم آہنگ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ بقول ان کے لاروے سے تتلی بناتی ہیں تو اس کے پروں کے رنگ افسانے کے رنگوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ”بے چاری انار کلی“ ایک اچھی کاوش ہے۔ ”کہانی کے کردار کا حقیقی انجام“ بہت خوبصورت افسانہ ہے۔ ”طیب“ جیسا افسانہ پہلے پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ اردو افسانے میں یہ ایک توانا اضافہ ہے۔ ”گنتی کے بوجھ تلے دبی لاش“ ۔ اس افسانے کا انجام کچھ دھندلا گیا ہے۔ مرد عام طور پر اتنے حساس نہیں ہوتے اس لیے یہ ذرا مختلف سا تاثر چھوڑتا افسانہ ہے۔

فاطمہ عثمان : مجھے اس سے پہلے ان خاتون کا کوئی افسانہ پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ اس مجموعے میں شامل ان کے افسانے چونکا دینے والے ہیں۔ فاطمہ عثمان نے بغیر کسی ڈر خوف کے سماج کی سفاک، ننگی حقیقتوں کو افسانوی شکل دی ہے۔ اور بجا طور پر دی ہے۔ بادی النظر میں تو لگتا ہے کہ افسانہ لکھتے وقت کردار ان کے سامنے یا ذہن میں تھے لیکن اسلوب بیان ان پر اس قدر حاوی ہوتا ہے کہ کردار افسانے سے الگ کوئی چیز نہیں لگتے۔ ”اجالوں کا اندھیرا“ وراثتی جبر کے خلاف ایک بہت ہی عمدہ افسانہ ہے۔ ایسے مزید افسانے لکھے جانا چاہئیں۔ ”اشک لازم“ اور ”مجرا“ بھی قابل تحسین افسانے ہیں۔

فرحین خالد :: موجودہ دور کے اردو افسانہ نگاروں میں فرحین خالد کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ بلا شبہ آمنہ مفتی، مایا مریم، مریم عرفان، سارا احمد، فارحہ ارشد، رابعہ الربا، طاہرہ اقبال، اور منزہ احتشام گوندل جیسے افسانہ نگاروں کے قبیلے کی افسانہ نگار لگی ہیں مجھے۔ گونجتی سرگوشیوں میں شامل ان کے افسانے ان کے ارد گرد پھیلی زندگی کے سوشل، معاشی اور نفسیاتی، تلخ و شیریں واقعات سے کشید کردہ کہانیاں ہیں۔

ان میں روایات اور مذہب اور سماج کے روزمرہ گورکھ دھندے اور مہذب اور پر تعفن زندگی کے نشان ملتے ہیں۔ افسانوں کے جملوں یا کردار کے ڈائیلاگ کی ساخت بہت ہی دلپذیر اور پر کشش ہے۔ فرحین خالد کے افسانوں کے عنوان بھی بہت الگ ہیں۔ کہیں وہ در زنداں وا کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور پھر اسے بند کر دینے ہی میں عافیت سمجھتی ہیں، کہیں سائبر ورلڈ کی بھول بھلیوں کا نوحہ بیان کرتی ہیں۔ کہیں ”بے ڈھب بڑھیا“ کی نامحرم زمین میں غریب الوطنی کی داستان رقم کرتی ہیں۔ ان کا افسانہ ”ڈبل ایکس ایل“ تو سماج کی سوچ پر ایک زناٹے دار تھپڑ ہے۔ یہ بلا شبہ ایک عمدہ اور بلند آہنگ افسانہ ہے۔ ”تم کیا جانو پریت“ جیسے افسانے فرحین خالد کے گہرے مشاہدے، وسیع مطالعے اور منفرد اسلوب کا ایک نمونہ ہیں۔

معافیہ شیخ :: ہر افسانہ یا تخلیق، خالق کو اپنی اولاد کی طرح عزیز ہوتی ہے۔ لیکن قاری کے پڑھنے اور سمجھنے کی ایک الگ سطح ہوتی ہے۔ مجھے معافیہ شیخ کے افسانوں میں وہ پنچ نظر نہیں آیا جو اس مجموعے کی دیگر افسانہ نگاروں کے افسانوں میں محسوس ہوا۔ بقول معافیہ کے، سٹور روم میں رکھی کہانیاں تعفن زدہ ہو جاتی ہیں اگر ان کو باہر نہ نکالا جائے۔ تو اپنے تئیں انہوں نے کھڑکیاں تو کھولی ہیں کہ تازہ ہوا در آئے لیکن میرے یال میں ابھی انہیں مزید پڑھنا اور مشاہدہ درکار ہے۔ ان کے افسانوں کا مجموعی تاثر ایسا ہے کہ ہیں کہانی نظر آتی ہے کہیں غائب۔ ”دیواریں“ اور ”کوزہ گر کا گلدان“ تاہم اچھے افسانے ہیں۔

اس مجموعے کے آغاز میں ”زیب داستاں“ ہی کافی تھا جس میں ساتوں رنگ کی قوس قزح بنا دی گئی۔ چار پانچ ادیبوں کے تبصرے نے کتاب کو بوجھل کر دیا ہے۔ جناب محمد حمید شاہد کے بھاری بھرکم مضمون کی تو ہر گز جگہ نہیں بنتی کہ آپ نے 23 صفحات کے مقالے میں 17 صفحات اردو ادب کی خواتین قلم کاروں کی تاریخ لکھنے میں صرف کر دیے ہیں اور باقی 6 صفحات، 7 افسانہ نگاروں کے حصے میں آئے ہیں۔ ویسے بھی اب وقت تبدیل ہو چکا ہے اور جینڈر کی تفریق ختم ہوتی جا رہی ہے۔ قلم کار مرد ہے یا عورت یا تیسری نسل۔ جو اچھا لکھے گا اسی کا کام زندہ رہے گا۔

کتاب کا سرورق اور افسانہ نگاروں کی تصویروں کے سکیچ بہت خوبصورت ہیں اور گیٹ اپ کے اعتبار سے بھی اس کتاب کی شیلف ویلیو کم نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments