منظر کے سامنے تو ہیں لیکن کیا ہم ہیں؟


ہو سکتا ہے یہ تحریر پڑھتے ہوئے آپ دوستو کے ساتھ کسی ڈھابے پر محو گفتگو ہیں لیکن آپ نے موبائل اٹھا لیا ہے، یہ بھول چکے ہیں کہ آپ احباب کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ آپ نے تو آج کئی دنوں بعد کچھ لمحات دوستو کے درمیان گزارنے تھے، لیکن اب تو یہ سب ذہن سے محو ہو چکا اور آپ موبائل پر مختلف ایپس سے تصویروں، ویڈیوز کی سکرولنگ کرنے میں مصروف ہیں۔

منظر میرے خیال سے یکسر مختلف بھی ہو سکتا ہے۔ یوں بھی تو ہو سکتا ہے آپ نے نماز ادا کرلی ہو اور فوری سے موبائل کی سکرین پر نظریں جمالی ہوں اس امید کے ساتھ شاید دو سے تین منٹ میں کوئی اہم پوسٹ یا نوٹی فکیشن تو نہیں آ گیا۔ وہ سٹیٹس جو شام لگایا تھا اس کو کتنے افراد نے لائک کر لیا ہے شیئر کیا ہے۔ اسی پوسٹ کو بار بار دیکھتے ہیں نیچے کمنٹ میں کا ری ایکٹ بھی کر دیتے ہیں۔

یہ بھی امکان ہے آپ کے ہاتھ میں موبائل اس لیے ہے کیونکہ آج سہ پہر آپ نے کوئی کتاب پڑھنے کا ارادہ کیا تھا لیکن بوریت ہوئی تو پھر ٹھک سے موبائل نکالا اور انگلیوں کا لمس سکرین کی سطح پر جاری ہے اور ”بیٹھے رہے تصور جاناں کیے ہوئے“

یہ سب کیسے ہوا؟ ہم پہلے سوشل میڈیا کا استعمال لطف اندوز ہونے کے لیے استعمال کرتے رہے بعد ازاں سکرین ٹائم بڑھ گیا ویسے بھی سب کو اپنی اپنی پڑی ہے یوں ہمارا تنہائی کا احساس بھی ختم ہو گیا۔ اگلے مرحلہ میں ہم سوشل میڈیا کے ایسے عادی ہوئے کہ ”نشہ“ ہوگیا۔

یہ نشہ صحت اور دماغ دونوں کے لیے مضر ہے۔
اب سوال یہ ہے ہمیں یہ نشہ کیوں ہوجاتا ہے؟

جب آپ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کے بعد اور بھی اچھا محسوس کرتے ہیں تو، آپ کا دماغ اس عمل کو فائدہ مند قرار دیتا ہے جسے آپ دہرانا چاہیے۔ جب بھی آپ خود ہی کوئی پوسٹ بناتے ہیں اور مثبت تاثرات حاصل کرتے ہیں تو اس طرح کا ردعمل زیادہ محسوس کیا جاسکتا ہے۔ سوشل میڈیا کے استعمال کے دوران جو مثبت احساسات محسوس ہوتے ہیں وہ صرف عارضی ہوتے ہیں۔ آپ کا دماغ جیسے ہی اس سرگرمی میں شامل ہوتا ہے اپنی دوسری عادتوں کے ساتھ شامل کرلیتے ہیں اور جیسے ہی کسی دوسرے خوشگوار احساس سے توجہ ختم ہوتی ہے ہم واپس اس مسحور کن عادت یعنی سوشل میڈیا کی سکرولنگ پر واپس آ جاتے ہیں۔

گویا موبائل ایک الگ سے الیکٹرانک کھلونا نہیں بلکہ ہمارے وجود کا لازمی جزو بن چکا ہے۔ ہر لمحہ ہر نئی بات ہر نئے سٹیٹس اور نیوز فیڈ سے آگاہ رہنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ ایک ان دیکھی زنجیر نے ہمیں اس آلہ سے باندھ کر رکھ دیا ہے تجسس کے بدلتے احساس نے سوشل میڈیا کا استعمال اس قدر بڑھا دیا ہے کہ نجی محفل میں ہماری گفتگو کا محور فیسبک کی سٹوریز ہوتی ہیں جو ہمارے میوچل فرینڈ نے لکھی ہوتی ہیں یا پوسٹ کی ہوتی ہیں۔ کسی شاعر نے ایک خیال دیا ہے کہ اب کی بار ”ہم ملے تو گھڑیاں اتار دیں گے“

صورتحال یہ ہو چکی ہے اب ملنے والوں کو دوران ملاقات موبائل استعمال نہ کرنے کا عزم کرنا چاہیے۔

صحت کے لیے نقصان دہ اس عمل کو ختم نہیں لیکن کم جا سکتا ہے اگر ہم فون کو کام کے دوران، کھانے اور تفریحی سرگرمیوں کے دوران بند کردیں تاکہ سامنے بیٹھے زندہ انسانوں کو وقت دے سکیں۔ ہر دن سوشل میڈیا کے لئے وقت مختص کریں اور اس کی یاد دہانی کے لیے سکرین ٹائمنگ الارم لگائیں۔ زندگی میں ایک ایسی عادت بھی اپنائیں جس کا تعلق ٹیکنالوجی سے نہ ہو۔ اور یہ یاد رکھیں آپ جس شخص کے سامنے موبائل استعمال کر رہے ہیں وہ انسان ہے روبوٹ نہیں۔

ہم شکوہ کرتے ہیں کہ نئی نسل کتابوں سے دور ہو گئی ہے کہیں ہم انسانوں سے تو دور نہیں ہو رہے ہیں؟

آج کے انسان نے موبائل کو انسانی ذہن کا جزو اور انسانی وجود کا حصہ بنالیا ہے۔ ہمارا سکرین ٹائم بڑھ چکا ہے اور ہمارے گردونواح میں بسنے والے لوگ، سرسبز و شاداب مناظر، حسین منظر بھی ہماری نظروں سے محروم ہیں، ہم منظر کے سامنے تو ہیں لیکن ہم نہیں ہیں۔ کیا ہم احساس کے ساتھ ساتھ حس جمالیات کے ذوق سے بھی محروم ہو رہے ہیں؟

علامہ اقبال نے اس لیے تو کہا تھا
کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments