آن لائن ڈیٹنگ ایپس چھوڑنے سے ’مجھے اپنی زندگی واپس مل گئی‘


آن لائن ڈیٹنگ

ڈیٹنگ ایپس کورونا وائرس کی وبا سے پہلے بھی مقبول تھیں مگر مختلف جگہوں پر لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ اور بھی مقبول ہوگئیں۔

دنیا میں سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی ڈیٹنگ ایپ ٹنڈر پر مارچ 2020 میں ایک دن میں تین ارب مرتبہ سوائپ کیا گیا اور اس کے بعد سے یہ ریکارڈ کئی مرتبہ توڑا جا چکا ہے۔

اگرچہ ان ایپس نے کئی سالوں سے کئی سنگل لوگوں کو ایک دوسرے سے ملنے میں مدد کی ہے کچھ لوگوں نے اس حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں کہ یہ کیسا ماحول پیدا کر رہی ہیں۔ یہ خاص طور پر خواتین کے لیے اہم ہے کیونکہ انھیں ان پلیٹ فارمز پر مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہراسانی اور گالم گلوچ کا سامنا ہوتا ہے۔

شینا سلور کہتی ہیں کہ ’میرے لیے سب سے مشکل یہ تھا کہ ایسا لگا کہ مجھے مفت کے سیکس کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اچھا نہیں لگتا اور اس سے دکھ ہوتا ہے۔‘

ٹنڈر

شینا سلور نیویارک میں مقیم ایک مصنفہ ہیں اور ایک ڈیٹنگ پوڈ کاسٹ ’اے سنگل سرونگ‘ کی میزبان بھی ہیں۔ انھوں نے یہ ڈیٹنگ ایپس کئی سالوں تک استعمال کی ہیں۔ ’مجھے اکثر ہیلو سے بھی پہلے کسی جنسی عمل کی درخواست کی جاتی تھی۔ اپنا نام بتانے سے پہلے لوگ ایسا کرتے تھے۔ اس دنیا میں مجھے بار بار رد کیا جا رہا تھا اور اس سے مجھے اپنی اہمیت کم لگنے لگی تھی۔‘

ایسے پیغامات ان پلیٹ فارمز پر بھرے ہوتے ہیں اور یہ مردوں اور عورتوں دونوں کو بھیجے جاتے ہیں۔ مگر خواتین کے ان سے متاثر ہونے کا تناسب کہیں زیادہ ہے۔

پیو ریسرچ سنٹر کے ڈیٹا کے مطابق کئی خواتین ڈیٹگ ایپس اور سائٹوں پر ہراسانی کی شکار ہوتی ہیں۔ 18 سے 34 سال کی عمر کی خواتین میں سے 57 فیصد کا کہنا ہے کہ انھیں جنسی طور پر نازیبا پیغامات بھیجے گئے ہیں یا ایسی تصاویر بھیجی گئی ہیں جو انھوں نے مانگی ہی نہیں۔ یہی حال نوجوان لڑکیوں کا بھی ہے جن کی عمریں 15 سے 17 سال کی ہیں جو کہ ایسی پیغامات ملنے کی اطلاع دیتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ٹنڈر کا انتباہ: ’یہ پیغام بھیجنے سے پہلے ایک بار سوچ لیں‘

ٹِنڈر پر صارفین کی حفاظت کے لیے نئے فیچر متعارف

کروڑ پتی ڈیٹنگ کوچ کی کامیابی کا راز: مارکیٹ میں سب سے سستا کھلاڑی ہونا قابل فخر نہیں

کچھ صارفین نے تو ذہنی دباؤ یا اس سے بھی زیادہ شدید تجربات کا ذکر کیا ہے۔ 2017 میں پیو ریسرچ سنٹر کی ایک تحقیق سے پتا چلا تھا کہ 36 فیصد صارفین کو ان پلیٹ فارمز پر روابط انتہائی پریشان کن لگے تھے۔ 2020 کی تحقیق میں 18 سے 35 سال کی خواتین نے جسمانی نقصان تک کا ذکر کیا۔ 19 فیصد خواتن نے یہ شکایت کی جبکہ 9 فیصد مردوں نے یہ شکایت کی۔

اس کے علاوہ ایک تحقیق میں پتا چلا کہ ہیٹرو سیکشوئل اور بائی سیکشوئل مرد کم ہی ان ایپس سے منسلک خطرات کے بارے میں بات کرتے ہیں۔

نوجوانوں کے کلچر کے بارے میں لکھنے والی نینسی جو سیلز ان ایپس سے اس قدر پریشان ہوئی تھی کہ انھوں نے اس پر ایک کتاب لکھ ڈالی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ چیزیں اتنی جلدی نارمل کر دی گئی ہیں جو کہ کبھی بھی نارمل نہیں ہو چاہیے جیسے کہ نازیبا گفتگو، جسمانی اور ذہنی نقصان وغیرہ۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ٹھیک ہے ان ایپس پر ہر کسی کے ساتھ یہ نہیں ہو رہا مگر یہ اس قدر تو ہو رہا ہے کہ ہمیں اس پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔

احتساب

ٹنڈر

ان مسائل کے حل کے لیے کچھ نظام تو بنائے گئے ہیں۔

مثال کے طور پر ٹنڈر نے ایسا نظام لگایا ہے جو کہ بدزبانی کو ڈیٹیکٹ کرتا ہے اور لکھنے والے کو کہتا ہے کہ وہ اس کا ازسرِ نو جائزہ لیں۔ 2020 میں بمبل نے مصنوعی ذہانت متعارف کروائی جو کہ بھیجی گئی تصاویر کو بلر کرتا ہے اور جب تک سامنے والا رضا مندی نہ دیکھائے یہ تصاویر نہیں دکھاتا۔ کچھ پلیٹ فارمز پر صارفین کی اصل تصویر ہونے کے لیے صارف کی جانب سے ایک سیلفی مانگی جاتی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ جعلی شناخت کے پیچھے چھپ کر غلط رویہ نہ رکھیں۔

سینا سلور کہتی ہیں کہ یہ کوششیں اہم ہیں اور کچھ نہ ہونے سے تو بہتر ہے مگر انھیں ابھی اور بہت بہتری کی ضرورت ہے۔ بہت سے لوگ اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’ہمارے پاس صرف ایک بلاک کا ہی بٹن رہ جاتا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ کسی کو بلاک کرنے کے لیے پہلے آپ کو ان کے برے رویے سے گزرنا پڑے گا۔‘

آن لائن ڈیٹنگ

ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب لوگ آپس میں حقیقی طور پر ملتے ہیں تو جنسی تشدد کا خطرہ ہوتا ہے۔ اگرچہ خواتین نے اس سے بچنے کے لیے اب بہت سے کام کرنا شروع کر دیے ہیں جیسے کہ جانے سے پہلے دوستوں کو بتانا کہ کہاں جا رہی ہیں یا اپنا فون مکمل چارج رکھنا، یہ خطرہ پھر بھی باقی ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق 45 ڈیٹنگ ایپس میں سے صرف 6 ایسی تھیں جو سیکس مجرمان کو اپنے پلیٹ فارم کے استعمال سے روکنے کے لیے کوشاں تھیں۔ مئی 2021 میں امریکی کانگریس میں اس حوالے سے قوانین سازی بھی متعارف کروائی گئی ہے۔

مگر امریکی انٹرنیٹ قوانین میں ایک کمی ہے۔ اس کے مطابق ویب سائٹوں کو اس بات کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ اگر ان کا پلیٹ فارم استعمال کر کے کوئی تیسرا بندہ کسی اور کو نقصان پہنچائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اربوں ڈالر کی اس صنعت میں کمپنیوں کو آپ اس چیز کا ذمہ دار ہی نہیں ٹھہرا سکتے کہ وہ اپنے صارفین کو برے رویے سے روکیں۔

اس قانون کے ازسرنو جائزے کے لیے امریکہ میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

‘رشتہ آ نہیں رہا، رشتہ آ گیا ہے‘

’وزیرِ اعظم خود تین مرتبہ شادی کر چکے لیکن ہمارے لیے ٹنڈر پر پابندی‘

’چالیس ہزار پاؤنڈ اس شخص کو دے دیے جس سے کبھی نہیں ملی‘

کیا چیزیں بہتر ہو سکتی ہیں؟

اس وقت صارفین کو یہ پلیٹ فارم زیادہ حفاظت فراہم نہیں کرتے۔ اور بہت سے لوگ ان پلیٹ فارمز پر مثبت روابط بھی قائم کر پاتے ہیں مگر پھر بھی صارفین کو خطرہ ضرور ہے۔

قانون سازی اور کمپنیوں کی کوششوں کے علاوہ یہ سماجی تبدیلی کی بھی ضرورت ہے۔ مردوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ان کے اعمال دوسروں کو کس طرح متاثر کر رہے ہیں مرد اپنے برے رویے کے اثرات کو بہت کم سمجھ پاتے ہیں۔

شینا سلور کے لیے یہ رویے کافی ہوگئے تھے۔ تقریباً دو سال قبل انھوں نے یہ پلیٹ فارم ایک دم چھوڑ دیے۔ اور وہ واپس جانے کا سوچ بھی نہیں رہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ان سے مجھے کبھی کچھ اچھا نہیں ملا۔ تو میں انھیں استعمال کرنا کیوں جاری رکھتی۔ یہ کچھ ڈرامائی لگے گا مگر ان کو چھوڑنے سے مجھے اپنی زندگی واپس مل گئی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp