مردوں کی فرسٹریشن کا علاج (مکمل کالم)


’اگر عورت مختصر لباس پہن کر گھر سے باہر نکلے گی تو اس کے ریپ ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔‘

’معاشرے میں چونکہ فحاشی اور عریانی بڑھ رہی ہے اس لیے مرد بے قابو ہو رہے ہیں، انہیں قابو میں رکھنے کے لیے ہمارے ملک میں مغربی ممالک کی طرز پر نہ کوئی نائٹ کلب ہے اور نہ ایسی کوئی جگہ جہاں ان مردوں کی فرسٹریشن کا مداوا ہو سکے، لہذا یہ بڑھتی ہوئی فرسٹریشن ریپ کا سبب بنتی ہے۔‘

’ملک میں اسلامی سزائیں نافذ نہیں جس کی وجہ سے ریپ بڑھتے جا رہے ہیں۔‘

’جس معاشرے میں عورتیں اپنے جسم کو ڈھانپے بغیر گھروں سے باہر نکلیں اور جس سوسائٹی میں کھلے عام ناچ گانا ہو وہ معاشرہ لا محالہ بے راہروی کا شکار ہوگا، یہی بے راہروی کم سن بچے بچیوں کے ریپ کا باعث بھی بنتی ہے۔‘

’ایسا نہیں ہے کہ مختصر لباس پہننے والی عورتیں ہی ریپ کا شکار ہوتی ہے، دراصل ایسی عورتوں کا لباس مردوں کے جذبات برانگیختہ کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں ان پر شیطان غالب آ جاتا ہے اور پھر وہ اپنی ہوس کا نشانہ بے بس اور لاچار عورتوں، بچوں اور بچیوں کو بناتے ہیں، حالانکہ ان بیچاروں کا نہ لباس نا زیبا ہوتا ہے او ر نہ ان کی حرکتیں فحش ہوتی ہیں۔‘

یہ خلاصہ ہے ان دلائل کا جو ہم آئے روز ریپ کے ضمن میں سنتے ہیں۔ لبرل نکتہ نظر رکھنے والی خواتین ان دلائل کو Victim Blamingکہتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ تمام باتیں دراصل ریپ کا جواز فراہم کرنے کے لیے گھڑی جاتی ہیں، ان کے نزدیک ان نام نہاد دلائل کو درست ماننے کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ مرد بیچارہ معصوم ہے اور وہ محض بھڑکتے ہوئے جذبات کے ہاتھوں بے قابو ہو کر ریپ کرتا ہے، یہ تو عورت کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود اپنی حفاظت کرے اور بناو¿ سنگھار کر کے گھر سے باہر نہ نکلے کیونکہ اگر وہ چست لباس پہن کر گھومے گی تو اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنا ریپ کروانا چاہتی ہے۔ دوسری طرف دائیں بازو کے نظریات کے حامل افراد ان باتوں کا یہ جواب دیتے ہیں کہ ان کے دلائل کو غلط انداز میں پیش کیا جاتا ہے، وہ قطعاً عورتوں کو ریپ کا قصور وار نہیں سمجھتے، وہ تو صرف ریپ کی وجوہات بتانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کوئی احمق اور ذہنی مریض ہی ہوگا جو کم سن بچے بچیوں کے ریپ کا ذمہ دار خود ان بچوں کو ہی ٹھہرائے گا، یہ دراصل ان کے دلائل کو غلط رنگ دینے کی کوشش ہے، حالانکہ ان کی دلیل کی عمارت اس بنیاد پر کھڑی ہے کہ معاشرے میں پھیلی ہوئی فحاشی، عریانی اور اخلاقی بے راہروی ریپ جیسے گھناو¿نے جرم کا سبب بنتی ہے۔

دونوں پارٹیوں کے دلائل اپنی اپنی جگہ بظاہر ٹھوس لگتے ہیں لیکن یہ ممکن نہیں کہ دو متضاد نکتہ ہائے نظر بیک وقت درست ہوں لہذا ان دلائل کی پڑتال ضروری ہے۔ کسی بھی دلیل کی درستگی کو معلوم کرنے کا ایک سادہ سا طریقہ یہ ہوتا ہے

کہ اس دلیل کو پلٹا کر دیکھ لیا جائے کہ پھر اس مقدمے کی کیا صورت بنتی ہے۔ مثلاً اس ریپ والی دلیل کو الٹا دیں۔ دلیل یہ ہے کہ مرد اپنے ارد گرد پھیلی فحاشی، عریانی اور عورتوں کی بے حیائی کو دیکھ کر جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتا اور کسی مجبور اور بے بس عورت یا بچے کا ریپ کر دیتا ہے۔ اگر یہ دلیل درست ہے تو لا محالہ پھر ہمیں یہ دلیل بھی ماننی پڑے گی کہ فلموں اور ڈراموں میں اپنے بازو کی مچھلیاں دکھاتے ہوئے نوجوان ہیرو، بالشت بھر کی ’بکنی‘ پہن کر نہر میں نہاتے ہوئے لڑکے اور ہوٹل اور کلبوں کے سوئمنگ پول میں کھلے عام جسم کی نمایش کرتے ہوئے مرد، عورتوں کے جذبات برانگیختہ کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں عورتیں بے بس مردوں اور بچوں کا ریپ کر دیتی ہیں۔ لیکن کیا آپ نے کبھی یہ خبر پڑھی ہے کہ مدرسے کی معلمہ نے دس سالہ بچے کے ساتھ زیادتی کر دی؟ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ کسی شہر میں لڑکیوں نے نیکر اور جینز پہن کر پھرتے ہوئے کسی لڑکے اغوا کر لیا اور اس کا ریپ کرنے کے بعد قتل کر کے لاش جھاڑیوں میں پھینک دی؟ یا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ گلی محلوں میں لونڈے لپاڑے رنویر سنگھ اور ورن دھون کی طرح اپنے ’ڈولوں‘ کی سر عام نمایش کرتے پھرتے ہیں جبکہ اسی محلے میں پردہ دار بیبیاں بھی رہتی ہیں؟ کیا کبھی ہم نے اڑتی ہوئی بھی یہ بات سنی کہ محلے کی تین بیبیوں نے ’ٹینک ٹاپ‘ پہنے ایک لونڈے کو پکڑا اور اس کا ریپ کر دیا کیونکہ اس کی بے لباسی کی وجہ سے ان بیبیوں کا اپنے جذبات پر قابو پانا ممکن نہیں رہا تھا؟

مجھے اندازہ ہے کہ اس بات کا تمسخر اڑاتے ہوئے یہ جواب دیا جائے گا کہ مردوں اور عورتوں کے جذبات میں فرق ہوتا ہے لہذا یہ دلیل باطل ہے کہ عورتیں جذبات کے ہاتھوں مجبور ہو کر کسی مرد کا ریپ کر سکتی ہیں۔ یہ جواب ہی دراصل مسئلے کی جڑ ہے اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم مردوں کے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں مردانہ سوچ یا مائنڈ سیٹ رکھنے والوں کی اکثریت ہے، اس مائنڈ سیٹ کے تحت یہ بات سوچی ہی نہیں جاتی کہ ریپ دراصل ایک سنگین جرم ہے کیونکہ اگر ریپ کو جرم سمجھا جائے گا تو پھر ماننا پڑے گا کہ یہ جرم کوئی بھی کر سکتا ہے چاہے مرد ہو یا عورت۔ لیکن ہم چونکہ مردانہ ذہن سے سوچتے ہیں اس لیے عورت کا ریپ کرنا ہمیں سمجھ ہی نہیں آ سکتا۔ گویا ریپ کی اس پوری بحث میں ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ مرد تو frustrateہو سکتا ہے اور جذبات کے ہاتھوں مجبور ہو کر کسی کا ریپ بھی کر سکتا ہے مگر عورت فرسٹریشن کا شکار نہیں ہو سکتی چاہے اس کے گرد تمام مرد نیکریں پہن کر ہی کیوں نہ گھومتے پھریں۔ اس سوچ کی وجہ یہ ہے کہ لا شعور میں ہم عورت کو اپنے سے کمتر مخلوق سمجھتے ہیں، اگر ہم عورت کو مرد کی طرح انسان ہی سمجھیں تو کبھی عورت کے ریپ کرنے کے تصور کو مضحکہ خیز خیال نہ کریں۔ ریپ ایک جرم ہے اور یہ جرم کوئی بھی انسان کر سکتا ہے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جب مرد ریپ کرتا ہے تو ہمیں مضحکہ خیز نہیں لگتا لیکن اگر عورت کے ریپ کرنے کی مثال دی جائے تو ہمارا ذہن قبول نہیں کرتا اور وجہ وہی ہے کہ ہم مردانہ مائنڈ سیٹ سے سوچتے ہیں۔ یہیں سے ایک دوسرا مفروضہ جنم لیتا ہے اور وہ یہ کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ریپ جنسی تسکین کا کوئی ذریعہ ہے جبکہ درحقیقت ریپ ظلم کے اظہار کا طریقہ ہے، کوئی بھی شخص، چاہے عورت ہو یا مرد،

جبر کے زور پر جب یہ کام کرے گا تو وہ ریپ کہلائے گا۔ یہاں ایک جواب یہ بھی دیا جا سکتا ہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ ہم نے عورتوں کے ریپ کرنے کی خبریں نہیں پڑھیں مگر دوسری طرف یہ خبریں تو روزانہ پڑھنے کو ملتی ہیں کہ فلاں عورت اپنے آشنا کے ساتھ فرار ہو گئی، تو لا محالہ اس کی وجہ وہی معاشرتی بے راہروی ہے جو مردو زن کو سرکش اور گمراہ کر رہی ہے۔ اب اگر یہ جواب درست مان لیا جائے تو ’عورتوں کے مردوں سے مختلف جذبات‘ والا جواب از خود دم توڑ جائے گا کیونکہ کوئی عورت اگر اپنے آشنا کے ساتھ فرار ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے بھی وہی جذبات ہیں جو کسی مرد کے ہو سکتے ہیں۔ اب رہی اس کے فرار کی بات تو یہ ریپ نہیں کہلاتا، اسے آپ کوئی دوسرا الزام تو دے سکتے ہیں مگر ریپ نہیں کہہ سکتے بشرطیکہ اس نے اپنی مرضی کے ساتھ یہ کام کیا ہو۔

مقدمہ کچھ پیچیدہ ہو گیا۔ سادہ بات یہ ہے کہ ریپ کی وجہ یہ نہیں کہ عورتیں بے حجابانہ پھرتی ہیں، اس سے زیادہ بے حجابانہ عورتیں تو ساحل سمندر پر لیٹی ہوتی ہیں دنیا میں کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا۔ ریپ کی وجہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک اس جرم کا جواز غلط باتوں میں تلاش کر رہے ہیں اور عورت کو ہی اس کا ذمہ دار سمجھ رہے ہیں، ہمیں نہ صرف یہ مائنڈ سیٹ بدلنا ہوگا بلکہ اس بھیانک جرم کی سزا کو یقینی بھی بنانا ہو گا۔ آپ ٹریفک کے اشارے خلاف ورزی کی سزا پھانسی رکھ دیں اور کسی ایک شخص کو بھی پھانسی نہ ہو تو اس سے ٹریفک کی خلاف ورزیاں ختم نہیں ہوں گی، البتہ جس دن اشارہ توڑنے والے ہر بندے کو دو ہزار روپے جرمانہ بھرنا پڑا، اس روز کوئی اشارہ کاٹنے کی جرات نہیں کرے گا۔ ریپ کی سزا نافذ کرنے کا بھی یہی طریقہ ہے۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments