سائنس اور ا سلام کے مباحثہ میں علی گڑھ اسکول کا نقطۂ نظر (2)


\"\"سائنس میں وجدان اور مکاشفات کا مقام

بیسویں صدی میں سائنس پر ا سلامی تنقید کے باب میں حسین نصر کا مقام بہت بلند ہے۔ سائنسی فکر اور طریقہ کار کے بعض پہلوؤں پر حسین نظر کی تنقید در اصل اُس نقصانِ عظیم کی بنا پر ہے جو انسانی فکر و نظر اور معاشرتی و اخلاقی اقدار کو سائنس کے اِرتقاء اور اُس کی فکر کے نتیجہ میں اٹھانا پڑا ہے۔سائنسی فکر نے جس طرح روایتی اقدار، نظریۂ علم اور ذرائع علم کی نفی کر کے خالص مادّیت پر مبنی نظریات اور اقدار کو پروان چڑھایا اُس کے نتیجہ میں اِنسان اپنے ماضی سے بتدریج دور ہوتا گیا اور اِس طرح معاشرہ اور انسانی ذات بڑ ے زبردست انتشار کا شکار ہو گئی۔حسین نصر کے یہاں سائنس کی بنیادوں پر تنقید ہے۔ اُن کے یہاں سائنس کے ذریعہ مذہبی حقائق کا یا مذہب کے ذریعہ سائنسی حقائق کا Authentication نہیں ہے۔ وہ بنیادی طور پر ایک ناقِد ہیں اور سائنسی قوانین اور نظریات کے جلو میں جو فکر پنپتی اور خود اِنسانی عمل اور نقطۂ نظر کو تبدیل کرتی ہے اُس کے تجزیہ نگار اور معاشرہ پر پڑنے والے اُس کے اثرات پر متوجہ کرنے والے کی حیثیت میں ان کی شخصیت اُبھرتی ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ وہ اسلامی فکریات و تاریخ سے بھی ایسے نظریات کی تلاش کرتے ہیں جن کی موجودہ سائنس کے نظریات کو ضرورت ہے۔

یہ حقیقت واضح رہنا چاہئے کہ حسین نصر سائنس کی تنقید کے باب میں اُس انتہائی مضبوط روایت کے امین ہیں جس کا آغاز بیسیوں صدی کے اوائل میں Rene Guenon نے کیا تھا۔جنھوں نے سائنس کی حد درجہ مادّہ پرستی اور معاشرہ و فرد پر اُس کے بڑھتے ہوئے اثرات کواُس وقت محسوس کیا تھا جب سائنس کی ترقی کا آغاز ہوا ہی تھا۔ رینے گینوں نے زندگی کے ہر پہلو اور تہذیب کے مختلف النوع اظہار پر اِس مادہ پرستی کے اثرات کو محسوس کرتے ہوئے مختلف مذاہب میں ایک طرح کے یکساں رجحان کی شناخت کرتے ہوئے روایتی یاTraditional فکر کا تعارف کرایا اور کہا کہ سائنسی فکر اِس روایتی فکر کی حریف ہے اور اِس طرح مذہب پر مشتمل تہذیبوں اور معاشروں میں شدید نوعیت کی پریشان فکری کا باعث ہے۔ ریلے گینوں (Rene Guenon) اپنے گیتوں کی فکریات کا تذکرہ بڑی کثرت سے حسین نصر کے یہاں مل جاتا ہے۔حسین نصر بنیادی طور پر رینے گینوں کی فکر کے حامل ہیں۔اور اپنی تنقیدی کاوش میں انھوں نے جن نکات کو اہمیت دی ہے ان کا ناقدانہ جائزہ درج ذیل ہے۔

1۔ جدید سائنسی حقیقت (Reality) محض مادّی اِظہار سے ہی تعلق رکھتی اور عملاً اِس کوہی تسلیم کرتی ہے۔نتیجہ میں حقیقت کی دوسری سطحوں سے مکمل لاتعلّقی اوّلاً تو اِن کے اِنکار کی مترادف بن جاتی ہے۔ اور دوئم اگر انکار نہیں تو غیر اہم ہونے کا اعلان تو کرتی ہی ہے۔ حسین نصر کے یہاں جدید سائنس کی اس کمزوری کا احساس بہت واضح طور پر ملتا ہے اور اُس کی بنیادوں پر قائم معاشروں اور اِنفرادی شخصیات کی تعمیر میں اِس کمزوری کے اثرات پر مشتمل ایک معیاری تنقیدی رویہ کی تعمیر حسین نصر کا خاصّا ہے۔

2۔ حقیقت کی مختلف سطحوں کے وجود کو تسلیم کرنے کے بعد ان کے مطالعہ کا طریقہ کار بھی اپنی جگہ اہم ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ مادّی سطح کے مطالعہ کے لئے Scientific Method کی اہمیت کے بعد وجود کی دوسری سطحوں کے مطالعہ کے لئے دوسرے طریقوں کو بھی تسلیم کرنا ہو گا۔ حسین نصر کا اہم کام Plurality of Methods کا تصور ہے۔ یہاں اس کائنات میں وجود یعنی حقیقت کی مختلف سطحیں پائی جاتیں ہیں۔ یعنی مادی کے ساتھ غیر مادی حقائق بھی موجود ہیں جن کا مطالعہ مادّی وجود کے لئے تسلیم شدہScientific Method کی مددسے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے دوسرے طریقوں کی ضرورت ہے۔

3۔ مادّی وجود کے مطالعہ کے لئے جہاں حسّی ذرائع پر مشتمل طریقہ کار کی اہمیت ہے وہیں غیر مادّی وجود کے لئے وحی ایک ذریعہ ہے۔ جس میں وجدان اور کشف بھی شامل ہیں۔ چنانچہ حسین نصر نے وجدان کو سائنسی طریقۂ کار کے ضمن بڑی اہمیت دی ہے۔ سائنسی تحقیق میں وجدان کے وجود سے انکار ممکن نہیں لیکن اسے ایک Methodکا مقام عطا کرنا خاصا محل نظر ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وجدان ایک مستغرق ذہن کو ہی اشارہ کرتا ہے۔یہ اشارہ محض اشارہ ہی رہتا ہے جب تک کہ تجربوں کے ذریعہ ثابت نہ ہو جائے۔ چنانچہ سائنس میں اصل اہمیت تجربہ اور مشاہدہ ہی کو ہے نہ کہ وجدان کو۔

حسین نصر کی تنقید کے وہ پہلو جن سے حقیقت کی مختلف سطحوں کا وجود، انفرادی اور اجتماعی زندگی پر محض مادیت کو تسلیم کرنے کے اثرات اور تحقیق کے لئے متعدد طریقوں کو تسلیم کرنا اور ان کی ضرورت کا ادراک ہونا بڑے ہی اہم ہیں۔اور حقیقت یہ ہے کہ سائنس پر اسلامی پس منظر میں اس سے بہتر تنقید نہیں ہوسکتی۔ لیکن وجدان(intution ) کی اہمیت پر ان کے یہاں جو زور اور شدت پائی جاتی ہے اس کے نتیجہ میں ان کے نقطۂ نظر پر خاصی تنقید ہوئی اور اسطر ح وہ ایک Controversial ناقد بن گئے ہیں۔ اور وجدان و مکاشفہ کیونکہ اصلاً تصوف سے وابستہ اصطلاحیں ہیں اس لئے ان کی پوری تنقید ایک صوفیانہ تنقید کی شکل میں سامنے آتی ہے۔وجدان اور وجدا نہ کہ وجدا کا مقام:۔موا مکاشفہ تصوف میں علم کے ذرائع تسلیم کئے جاتے ہیں۔ اس لئے انھیں سائنس میں ایک معتبر ذریعہ علم تسلیم کرنے کا مطلب سائنس میں صوفیانہ روایت کو متعارف کرانا ہے۔ جس کے نتیجہ میں سائنس کا وہ پہلو جو مسائل کو حل کرنے سے عبارت ہے، غیر اہم ہو جاتا ہے۔ مزید یہ کہ سائنس میں reproducibility کو جو مقام حاصل ہے وجدان پر مشتمل سائنسی روایت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ اس نوع کی تنقید ایک خوبصورت اور دلوں کو چھو لینے والا مباحثہ تو بن سکتی ہے لیکن تہذیب کے ارتقاء کے باب میں یہ کسی وقعت کی مالک نہیں بن سکی۔ اس تنقید اور اس فکر کا ماحصل محض یہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں ہم اسلامی سائنسی ثقافت (تہذیب نہیں) کی ایک جھلک دیکھ سکتے ہیں۔

حسین نصر نے ماحولیات کے مسائل میں جو اسلامی نقد کی ہے وہ ایک معرکۃ الآرا کام ہے اور اس باب میں انسان و کائنات، انسان و انسان اور انسان و خدا کے درمیاں رشتوں کی نشاندہی کر کے ماحول کی وضاحت کے ساتھ ترقی و ارتقاء کے باب میں جو نئی نظریاتی بنیادیں فراہم کی ہیں وہ بڑی پائیدار اور ماحولیاتی پالیسیاں بنانے میں ممد و معاون ہو سکتی ہیں 14۔حسین نصر کے نقطۂ نظر کے حاملین میں ایک اہم نام ملیشیا کے عثمان بکر کا بھی ہے جو ان کے شاگرد ہیں اور سائنس کے سلسلہ میں حسین نصر کی ہی ترجمانی کرتے ہیں۔

  اسلامائزیشن آف نالج کی بحث

یہ بحث جس کا عالمی سطح پر آغاز بیسویں صدی کی اسّی کی دہائی میں اسماعیل راجی الفاروقی کی کوششوں کے نتیجہ میں ہوا ایک انتہائی منظم کوشش تھی جس کا پس منظر دراصل احیاء اور قوت کا حصول تھا۔ یہاں یہ امر واضح تھا کہ ملت اسلامیہ کے احیاء اور مغرب کی فکری و تہذیبی غلامی سے نجات اور بالآخر غلبہ کے لئے علم سے آراستہ ہونا ضروری ہے۔ غلبہ کا حصول نصب العین تھا جس کے لئے طاقت کا حصول ضروری ہے جو علم کے حصول کے بغیر ممکن نہیں۔ Knowledge is power کا نظریہ جو فکریاتِ جدید سائنس میں بیکن Francis Becon سے منسوب ہے اسلامی مفکّرین نے اسے جوں کا توں لے لیا تھا۔ چنانچہ بیسویں صدی کے آغاز میں جو بھی تحریکیں آزادی کے لئے اٹھیں انھوں نے غلبہ کو اپنا مطمح نظر بنایا اور حصول علم کو اسی پس منظر میں دیکھا۔ ترکی کے سعید نورسی مصر کے عبدالقادر اور برِ صغیر کے جمال الدین افغانی اور بعد کے لوگوں میں ہندوستان سے اٹھنے والی تحریکِ اسلامی کے بانی مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی وغیرہ نے سائنس یا علوم جدید کو قوت کے حصول کا ذریعہ جانا اور اس مقصد نے ان علوم کے تئیں ان کے رویّوں کو تشکیل کی۔ بیسویں صدی کے نصف آخر اور با الخصوص اسّی کی دہائی میں اسلامائزیشن کی تحریک کا آغاز ہوا۔ ا سماعیل فاروقی سے ذرا قبل ملیشیا کے مفکر سید نقیب العطاس بھی اسی اصطلاح کی دریافت کر چکے تھے البتہ ان کی کوششیں ذاتی نوعیت کی تھیں جبکہ اسماعیل فاروقی نے اسے ایک عظیم اسلامی علمی جدوجہد کی شکل میں بر پا کیا۔ کیونکہ اسلاما ئزیشن آف نالج کی جدید بحث میں یہی دو حضرات یعنی العطّاس اور ا سماعیل فاروقی اہمیت کے حامل ہیں اس لئے یہاں ہم ان دو حضرات پر زیادہ بحث کریں گے۔ ابتداء میں جن مفکرین کے نام آئے ہیں وہ بنیادی طور پر قومی آزادی اور تحریکات اسلامی یعنی اپنے ملکوں میں اسلام کے غلبہ کے لئے قائم کرنے والی تنظیموں سے متعلق رہے ہیں اور ان کے یہاں علم اور اس کے اسلامیانے کی بحث ایک ضمیمہ کے طور پر ہی تھی۔ ان کی اصل معروضات در اصل معاشرہ، سیاست و معیشت وغیرہ پر اسلامی نظریات کے عملی و فکری انطباق پر مرکوز تھیں۔چنانچہ ان کے یہاں علمِ سائنس ایک ضمنی ضرورت بن کر ابھرا۔ اور کیونکہ سائنس میں با الخصوص اُس وقت کی سائنس میں تصور کائنات اور اقدار کی کارفرمائی واضح نہ ہوسکی تھی اس لئے اعلیٰ تر مقاصد کی بجا آوری کے لئے طاقت کا حصول ان کے پیش نظر تھا۔ البتہ اس سلسلہ میں العطاس کی بحث میں ـ’ ادب‘ کی اصطلاح علوم کے درمیان سائنس کی روز افزوں اہمیت اور بالآخر اس کا انسانی اور قومی نصب العین بن جانا ایک بڑی زبردست، سماجی خرابی کا پتہ دیتی ہے۔ العطّاس بتاتے ہیں کہ ادب کے معنی ہیں چیزوں اور رویوّں کا ان کی صحیح اور مناسب جگہ پر رکھنا۔ زباں کے پس منظر میں ادب کی اصطلاح الفاظ کا ان کی صحیح اور مناسب جگہوں پر استعمال کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ سائنس اور علوم کے پس منظر میں یہ اصطلاح اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ انسانی زندگی میں علم یا سائنس کی مناسب جگہ یعنی اہمیت کا تعین ہو۔ تعین اگر غلط ہو گا توسائنس تمام دوسرے علوم پر حاوی ہو جائے گی۔ اور اگر صحیح ہو گا تو اعلی نصب العین کا حصہ ہو گی۔چنانچہ انسانی زندگی کی جو جو ضروریات ہیں ان کے لئے جن جن علوم کی ضرورت ہے اپنی ضرورت اور اہمیت کے اعتبار سے انھیں جگہ ملنی چاہئے۔ جدید سائنسی کا ارتقاء جس پس منظر میں ہوا ہے نقیب العطاس کے مطابق وہ ہر سطح پر غالب ہو گئی ہے اور اس طرح اس نے انسانی زندگی میں بڑا زبردست ہیجان پیدا کر دیا ہے اور فطری توازن کو بھی بگاڑ دیا ہے۔اور یوں یہ بے ادبی کی مرتکب ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر ذکی کرمانی 1950 میں بلند شہر میں پیدا ہوئے۔ کیمسٹری میں اعلیٰ تعلیم پائی۔ ڈاکٹر کرمانی گزشتہ چار دہائیوں میں سائنس اور اسلام کی فکری بحث میں ایک اہم مفکر کے طور پر شریک رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا زیر نظر مقالہ اس موضوع پر خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی علمی افادیت کے پیش نظر اسے مکمل متن کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے۔  


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments