لڑکوں سے زیادتی ”ریپ“ کیوں نہیں؟


بچپن میں تشدد سہنا، ناگوار سلوک برداشت کرنا اور ہتک آمیز رویے جھیلنا ہی کسی فرد کی شخصیت میں توڑ پھوڑ کے لیے کافی ہیں، لیکن جنسی زیادتی تو وہ عمل ہے جس میں یہ سارے افعال یکجا ہو کر بچے کی روح اور احساسات کو کچل ڈالتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بچوں سے زیادتی کے واقعات جس افراط سے اور تواتر کے ساتھ ہو رہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے میں خوف سے لرز جاتی ہوں کہ ہم کتنی بڑی تعداد میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار افراد اور کچلی ہوئی شخصیتیں پیدا کر رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سال 2020 میں اوسطاً ہر روز آٹھ بچوں کے ساتھ مختلف جرائم کے واقعات سامنے آئے ہیں جبکہ بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے واقعات میں 17 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

غیر سرکاری تنظیم ساحل کی جانب سے ’کروئیل نمبرز 2020‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی تحقیق میں پاکستان کے چاروں صوبوں میں بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا ہے۔

ساحل کے مطابق 2020 میں بچوں کے ساتھ رونما ہونے والے جنسی استحصال کے 89 واقعات میں سے 66 واقعات لڑکوں کے ساتھ پیش آئے جب کہ 23 کیسز میں لڑکیاں متاثر ہوئی تھیں۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ جہاں 11 سے 15 سال کے بچوں کے ساتھ ہونے والے ریپ اور جنسی استحصال کے واقعات سامنے آئے وہیں ایک ماہ سے پانچ سال کی عمر والے بچے بھی اس سے محفوظ نہیں رہے۔ میں یہ پڑھ کر لرز اٹھی ہوں کہ ایک ماہ کے بچے بھی درندوں کی درندگی سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ قوم لوط کے اوباش لوگ تو فرشتوں کو لڑکے سمجھ کر انھیں اپنی درندگی کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے، لیکن ہمارے معاشرے کے ”جانور“ تو ننھے فرشتوں کو بھی بخشنے پر تیار نہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے تو شاید پھول، تتلی اور جگنو بھی ہوس کا سامان اور جنس کے استعارے ہوں گے۔

یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ جنسی استحصال کے 89 واقعات میں سے 66 واقعات لڑکوں کے ساتھ پیش آئے جب کہ 23 کیسز میں لڑکیاں متاثر ہوئیں۔ لڑکوں کے جنسی زیادتی کا بڑی تعداد میں نشانہ بننے کے اسباب واضح ہیں۔ ہمارے یہاں لڑکیاں کم عمری میں بھی زیادہ تر گھر پر رہتی ہیں، ان کے مقابلے میں انھی کی عمر کے لڑکے وقت کا ایک بڑا حصہ گھر سے باہر گزارتے ہیں، وہ گھر سے خاصی دور بھی چلے جاتے ہیں۔ پھر اسکول میں اور گھر سے باہر کی زندگی میں ان کا واسطہ بڑوں اور بالغ لڑکوں سے پڑتا ہے، چناں چہ لڑکے بد فطرت افراد کا نسبتاً آسان شکار ہوتے ہیں۔

ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ لڑکی کے ساتھ کنوارپن کا تصور وابستہ ہے، اور اس معاملے میں والدین بہت حساس ہوتے ہیں۔ لڑکی کے ساتھ زیادتی کی صورت میں پکڑے جانے پر اسے زیادتی کا نشانہ بنانے والے شخص کو سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جبکہ لڑکے کے ساتھ ایسا ہونے پر ردعمل میں وہ شدت نہیں ہوتی اور بات اکثر مارپیٹ پر ختم ہوجاتی ہے۔ پھر بالغ لڑکی سے زیادتی میں اس کے حاملہ ہو جانے کا خطرہ بھی ہوتا ہے، لیکن لڑکوں کو ہوس کا نشانہ بنانے میں ایسا کوئی خدشہ نہیں ہوتا۔ لڑکوں کے لے نسبتاً کم حساس ہونے کے باعث والدین ان کے معاملے میں غیروں پر اعتماد کر بیٹھتے ہیں، اور یہ اعتماد بعض دفع نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔

ان وجوہات کے ساتھ ایک قانونی وجہ بھی ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں لڑکی چاہے کسی بھی عمر کی ہو اس سے زیادتی قانوناً ریپ قرار دی جاتی ہے، لیکن لڑکے کے ساتھ کیا جانے والا یہ مکروہ عمل ریپ کے زمرے میں نہیں آتا۔ اس پر تفصیل سے بات کرنے سے پہلے میں اس معاملے کے کچھ پہلو سامنے لانا چاہوں گی۔ لڑکوں سے زیادتی کے مرتکب افراد میں یا تو ’گے‘ یا ہم جنس پرست ہوتے ہیں جنھیں صرف مردوں میں دل چسپی ہوتی ہے یا پھر ایسے مرد ہوتے ہیں جو جنس کے معاملے میں عورت اور مرد کی تخصیص نہیں کرتے۔ بلوغت میں قدم رکھنے والے اور بڑھتی عمر کے وہ لڑکے بھی اس غلیظ فعل میں ملوث پائے گئے ہیں جو غلط ماحول اپنانے کے باعث عریاں وڈیوز اور فلمیں دیکھ کر ذہنی آلودگی اور جنسی بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کم عمر لڑکے باآسانی ان کے ہاتھ آ جاتے ہیں۔ کم عمر لڑکے ان تینوں طرح کے افراد کا نشانہ بنتے ہیں۔

کسی مسئلے کا حل تب نکلتا ہے جب ہم اس کے تمام پہلوؤں اور گوشوں کو سمجھیں، اور سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان پر بات کی جائے۔ لیکن

ہمارے یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے بہت سے موضوعات کو ٹیبو بنا رکھا ہے، جن پر کھل کر بات نہیں کی جاتی، ان میں سے ایک مردوں یا لڑکوں سے جنسی زیادتی بھی ہے۔ اس المیے سے چشم پوشی اور اسے تسلیم کرنے سے گریز ہی ہے کہ ہمارے یہاں لڑکوں سے زیادتی کے جرم کے انسداد کے لیے خاطرخواہ قوانین موجود نہیں ہیں۔

صورت حال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے کم عمر لڑکے اور نوجوان اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر خاموش رہتے ہیں اور اسے دنیا کے سامنے نہیں لاتے۔ وہ اس حوالے سے قانون کی مدد لیتے ہیں نہ یہ بات کسی کو بتاتے ہیں۔ اس کی وجہ ان کی خالص مردانہ سوچ ہے، جو یہ گوارا نہیں کرتی کہ ان کی تذؒلیل کا یہ واقعہ کسی کے علم میں آئے۔ اس کا دوسرا سبب معاشرے کا رویہ ہے۔ ہمارا معاشرہ جنسی زیادتی کا ہدف بننے والی عورت کے لیے تو پھر بھی رحم دل ہے اور ایسی عورت کسی قدر ہمدردی کی جاتی ہے، لیکن ایسا ہی واقعہ کسی مرد کے ساتھ پیش آ جائے تو وہ لوگوں کی تضحیک، توہین اور طنز کا نشانہ بن جاتا ہے۔ اسی لیے وہ خاموش رہنے ہی میں عافیت سمجھتا ہے۔ مگر یہ خاموش انسان کے اندر ایک طوفان برپا کر دیتی ہے۔ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والا مرد نفسیاتی طور پر نہایت شکستہ ہوجاتا ہے اور بعض اوقات وہ خود اس گھناؤنے عمل میں ملوث ہوجاتا ہے۔ یوں وہ اپنے نزدیک اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کا انتقام لے رہا ہوتا ہے۔

چند سال قبل نئی دہلی سپریم کورٹ میں مردوں کی عصمت دری کے متعلق ایک عرضی داخل کی گئی تھی، جسے 2 فروری 2018 کو خارج کر دیا گیا۔ اس عرضی میں عصمت دری جیسے جرائم کو جینڈر فری کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ فی الحال اگر مرد اپنی عصمت دری سے متعلق شکایت کرتا ہے بھی ہے تو ملزم کو دفعہ 377 کے تحت سزا دی جاتی ہے۔ مردوں سے جڑے ایسے جرائم کو ریپ نہیں غیر فطری سیکس کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ دونوں اصناف کے حوالے سے قانون اور ریاست کا یہ متضاد رویہ افسوس ناک بھی ہے اور ناقابل فہم بھی۔

وکی پیڈیا میں ریپ کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے : ”عصمت دری، جنسی زیادتی یا آبروریزی ایک طرح کا جنسی حملہ ہے، جسم میں جنسی

مباشرت یا کسی اور قسم کا جنسی دخول کسی شخص کی مرضی کے بغیر کیا جاتا ہے۔ یہ کام جسمانی زور آوری، زبردستی، عہدے کا غلط استعمال یا کسی ایسے شخص کے خلاف کیا جاتا ہے جو اپنی قانوناً درست مرضی کا اظہار نہیں کر سکتا جیسا کہ وہ شخص بے ہوش ہو، معذور ہو، ذہنی نا اہلیت کا شکار ہو یا فیصلہ لینے کی عمر تک نہ پہنچا ہو۔ ”

اس تعریف کی رو سے عورت اور مرد دونوں میں سے کوئی بھی اس فعل کا نشانہ بن سکتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ لڑکوں کے ساتھ یہی عمل ریپ قرار نہیں پاتا؟ اس سوال کا جواب حکومت، متعلقہ اداروں، ہمارے اعلیٰ منتخب ایوانوں میں بیٹھے افراد اور قانون دانوں کو سوچنا چاہیے اور لڑکوں سے جنسی زیادتی کے غلیظ عمل کو بھی ریپ کی تعریف میں لانے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ پاکستان میں بچوں سے زیادتی کے واقعات کی بڑھتی ہوئی شرح کے پیش نظر ہمارے ملک میں ایسے ادارے ہونے چاہئیں جہاں ماہرین نفسیات زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں اور ایسے افراد جو بچپن یا عمر کے کسی بھی حصے میں ریپ کا شکار ہوئے ہوں، کی ذہنی اور نفسیاتی بحالی کا فریضہ انجام دیں۔ یاد رکھیے یہ ایک نہایت سنگین مسئلہ ہے، جس کی سنگینی پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments