جنرل سرجن اور چائے کی پیالی


میں ایک جنرل سرجن ہوں۔ میرا نام ڈاکٹر نوشاد ہے۔ نوشاد یعنی شاداں و فرحاں۔ نام کا مجھ پر اچھا خاصہ اثر ہے، میں ہر حال میں شادمان رہتا ہوں۔ جنرل سرجن پڑھ کر آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میری پانچوں انگلیاں گھی میں ہوں گی لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہنوز دلی دور است۔ ٹکسالی سرجن بننے کی تمنا بیتاب ضرور ہے مگر اس کے لئے بڑی صبر طلب عاشقی کرنی پڑتی ہے۔ پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ اور بہت سے گن ہونا بھی ضروری ہوتے ہیں۔ لوگوں کی جیب سے روپیہ نکال کر اپنے گلے میں منتقل کرنے کے لئے کئی کوتک کرنے پڑتے ہیں۔

”بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا۔“

کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان سے ماہر جراحی کی ڈگری لئے ہوئے کچھ ہی سال ہوئے ہیں اور پھر مغربی جامعات کا طرہ بھی نہیں اس لئے معروف سرجن کے رتبے تک پہنچنے کے لئے کئی جگہ کلینک اور آپریشن کرتا ہوں۔

میری رہائش نارتھ ناظم آباد میں ہے۔ جب کراچی پاکستان کا دارالحکومت تھا ( 1947۔ 1959 ) تو دوسرے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کے نام پر نارتھ ناظم آباد کو کیپٹل ریزیڈنس اور ڈپلومیٹک انکلیو کے طور پر تیار کیا گیا تھا لیکن جب دارالحکومت اسلام آباد منتقل کر دیا گیا تو اسے، کے ڈی اے، اسکیم نمبر 2، قرار دے دیا گیا۔ شاہراہ شیر شاہ سوری جو دراصل ایم اے جناح روڈ کا تسلسل ہے، سات نمبر کے پل سے ناردرن بائی پاس تک جاتی ہے۔

اس شاہراہ پر آپ کو بیسیوں شادی ہال نظر آئیں گے اور تقریباً اتنے ہی چھوٹے بڑے ہسپتال بھی گنے جا سکتے ہیں۔ ان میں سے چار ہسپتالوں میں کنسلٹنسی کرتا ہوں۔ ایک کلینک کٹی پہاڑی کے علاقے میں بھی کرتا ہوں یہ وہی کٹی پہاڑی ہے جہاں سے گزرنا بھی مال لیوا یا جان لیوا ہو سکتا ہے۔ نارتھ کراچی کے ایک خیراتی اسپتال سے بھی الحاق ہے۔ افلاس زدہ لوگوں کا علاج کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر مریض اچھا ہو جائے تو ڈاکٹر کی پیشہ ورانہ مہارت کا چلتا پھرتا اشتہار بن جاتے ہیں اور اگر۔

مریض اللہ کو پیارا ہو جائے تو آسمان سر پر نہیں اٹھاتے بلکہ مشیت الٰہی جان کر نعش اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ میری فیس ہسپتال کے مقام اور مقامی آبادی کی حیثیت کے مطابق رکھی گئی ہے۔ جس طرح بغیر لفٹ کی عمارتوں میں جوں جوں آپ اوپر کو چڑھیں گے، کرایہ کم ہوتا جاتا ہے، اسی طرح نارتھ ناظم آباد سے نارتھ کراچی اور سرجانی ٹاؤن کی طرف بڑھتے ہوئے میری فیس بھی تنزل پذیر ہوتی جاتی ہے۔

ڈھلتے سورج کا منظر مجھے بہت پسند ہے۔ شام کی چائے برآمدے میں کین کی کرسی پر بیٹھ کر غروب آفتاب سے محظوظ ہوتے ہوئے پیتا ہوں۔ اس روز بھی بیگم صاحبہ نے پھول دار چینی پیالیوں میں چائے انڈیلی ہی تھی کہ فائیو سٹار چورنگی والے ہسپتال سے کال موصول ہوئی۔ ایک نوجوان پیٹ کے درد کے ساتھ ایمرجنسی میں لایا گیا تھا۔ میرا گھر وہاں سے نزدیک ہی ہے اس لئے آنا فانا ہی اسپتال پہنچ گیا۔ معائنہ کرنے پر میری تشخیص تھی کہ اپنڈکس کا درد ہے اور اسے آپریشن کی ضرورت ہے۔

میں نے مریض اور اس کے سرپرستوں کو صورتحال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے فیصلہ کرنے کے لئے کچھ مہلت چاہی۔ تاہم تھوڑی دیر بعد نرس نے بتایا کہ وہ مریض کو کسی اور اسپتال لے گئے ہیں۔ میں بھی اپنے گھر آ گیا اور بیگم سے تازہ چائے بنانے کی درخواست کی۔ افق پر عنابی اور نارنجی رنگ ایک دوسرے میں مدغم ہو رہے تھے میں اپنے دیس کے انگریزی نام والا بسکٹ کترنے لگا۔ بیگم نارنجی رنگ کے مگ میں چائے لے آئی تھیں۔ میری بیگم کو رنگ برنگے مگ اور طشتری والی چائے کی پیالیاں جمع کرنے کا شوق ہے اور موسم اور موڈ کے مطابق چائے کی پیالی کا انتخاب کرتی ہیں۔

ابھی میں نے چائے کا پہلا گھونٹ ہی لیا تھا کہ فون بج اٹھا۔ کے ڈی اے چورنگی والے ہسپتال کی ایمرجنسی سے کال تھی۔ میں چائے چھوڑ کر کے ڈی اے چورنگی روانہ ہو گیا۔ ایمرجنسی وارڈ کے بستر پر نوجوان مریض سر بہ زانو کیے بیٹھا تھا۔ جیسے کی اس نے سر اٹھایا وہ اور میں، دونوں مسکرا دیے۔ میرا مسکرانا تو ڈاکٹر ہونے کے ناتے تہذیب کا تقاضا تھا لیکن تکلیف سے کراہنے کے بجائے اس کے مسکرانے کا سبب یہ تھا کہ یہ وہی نوجوان تھا جو فائیو سٹار چورنگی والے ہسپتال میں دیکھ چکا تھا۔

میری تشخیص اور سرجری کا پلان وہی تھا، مریض اور اعزہ نے بھی وتیرہ نہ بدلا اور وہ مریض کو کہیں اور لے گئے۔ سورج ڈھل چکا تھا۔ شادی ہالوں کی روشنیاں جھلملا نے لگی تھیں اگرچہ ہال رنگین آنچلوں سے فی الحال خالی تھے۔ شہر کے دوسرے حصوں سے کام ختم کر کے آنے والوں نے ٹریفک جام کر رکھا تھا۔ بغل میں گھر ہونے کے باوجود پہنچنے میں نصف گھنٹہ لگ گیا۔ سر میں درد ہو گیا تھا میں نے بیگم سے کڑک چائے اور سر درد کی گولی لانے کو کہا۔ بیگم نے کہا ”خالی پیٹ تو گولی ہرگز نہیں کھانے دوں گی۔ ذرا دم لیں تو شامی کباب تل کر لاتی ہوں“

شامی کباب تو کھا لئے

لیکن جیسے ہی سنہری کنڈے والی سیاہ پیالی اٹھائی فون نے پکار مچا دی۔ نارہ کراچی کے کمیونٹی اسپتال سے نہایت عاجلانہ طلب کیا گیا تھا شاہراہ شیر شاہ سوری پر اب بھی بہت ٹریفک تھا، میں شارع نور جہاں پر گاڑی بھاگتا ہوا شتابی اسپتال پہنچا۔ ایمرجنسی کا ڈاکٹر دوڑ کر میری طرف آیا اور کہنے لگا

”لگتا ہے اپنڈکس پھٹ گئی ہے سر۔ ٹوکزک لک (toxic look ) ہے۔ جنرل پیریٹونائٹس کے سائن بھی ہیں۔ الٹرا ساونڈ کروا لیا ہے آپ رپورٹ ملاحظہ کر لیجیے۔ میں نے الٹراساؤنڈ اور خون کی رپورٹ چیک کریں۔ اور مریض کے بستر پر پہنچا۔ وہ واقعی شدید تکلیف میں تھا پیٹ پر ہاتھ دھرتے ہی اچھل پڑا گویا کسی پھوڑے کو چھو لیا ہو۔ یہ وہی نوجوان تھا اور ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال دوڑنے کے دوران بالآخر اپنڈکس پھٹ گئی تھی۔ میں نے مریض اور اس کے خیرخواہوں سے کہا۔

” دیکھیں مجھے نہیں معلوم ایک ہسپتال سے دوسرے اور پھر تیسرے ہسپتال لے جانے کے پیچھے آپ کی کیا مصلحت کار فرما ہے لیکن ایک بات تو صاف ہے کہ آج کے دن آپ کے نصیب میں ڈاکٹر نوشاد ہی ہے چاہے آپ کہیں بھی لے جائیں۔ میری تشخیص تیسری بار بھی نہیں بدلی ہے بلکہ اب مریض کی حالت بگڑ گئی ہے۔ اور وہ مزید تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ اگر آپ پھر اس کو یہاں سے کسی اور اسپتال لے کر گئے تو ہو سکتا ہے کہ وہاں پہنچنے تک اسے علاج کی ضرورت ہی نہ رہے۔ مریض اور اس کے احباب نے ایک بار پھر مجلس شوریٰ منعقد کی اور بالآخر آپریشن کی اجازت دے دی۔ میری پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر اعتماد کرنے کے صلے میں خیرسگالی کے طور پر میں نے اپنی فیس میں کٹوتی کردی۔ ہو سکتا ہے نارتھ ناظم آباد سے نارتھ کراچی کے کمیونٹی اسپتال تک کے سفر کے پیچھے مالی عوامل کار فرما ہوں۔

آپریشن روم سے باہر نکلا تو مریض کے ہمراہی نے پوچھا۔
”آپریشن کامیاب ہو گیا ڈاکٹر صاحب“

”جی! ، میں اس شر انگیز اپنڈکس کو نکال پھینکنے میں کامیاب ہوا اور مریض کی جان خطرے سے نکلنے میں“ میں نے کہا اور دروازے کی طرف قدم بڑھا دیے۔ تکان سے جسم چور تھا گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے سوچ رہا تھا بیگم سے سکون بخش آسمانی رنگ کے مگ میں مسالہ چائے بنوا کر پیوں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments