ون یونٹ: ’علاقائیت کے خاتمے‘ کے نام پر کیا گیا فیصلہ جو آج بھی پاکستان کو پریشان کر رہا ہے

فاروق عادل - مصنف، کالم نگار


علی بوگرہ

’اب اس ملک میں کوئی بنگالی رہے گا نہ پنجابی، سندھی رہے گا نہ پٹھان، نہ بلوچ، نہ بہاولپوری اور خیر پوری اگر کوئی رہے تو وہ ہو گا پاکستانی اور صرف پاکستانی۔‘

پاکستان کی قومی اسمبلی میں اس روز چہل پہل معمول سے زیادہ تھی، کسی خاص دن کی طرح، پھر یہ دن ایک یادگار کیفیت اختیار کر گیا جب قائد ایوان محمد علی بوگرا اپنے خصوصی پروٹوکول کے ساتھ ایوان میں داخل ہوئے۔

سپیکر قومی اسمبلی نے ایوان کی کارروائی شروع کی اور قائد ایوان کو خطاب کی دعوت دی۔ اس کے بعد ایوان میں وزیر اعظم محمد علی بوگرا کی جانی پہچانی آواز گونجی جس پر ان کا بنگالی لہجہ غالب تھا۔

اپنے پرجوش خطاب میں انھوں نے پاکستان کے مختلف صوبوں کی علاقائی شناختوں کے خاتمے کا اعلان کر کے صرف ایک پاکستانی قومیت کے وجود اور اس کے پھلنے پھولنے کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ تمام شناختیں آج سے ختم ہوئیں، آج سے ہماری ایک ہی شناخت ہے اور وہ ہے، پاکستان۔

اس سفر کی ابتدا 22 نومبر 1954 کو ہوئی تھی جب وزیر اعظم پاکستان محمد علی بوگرا نے گورنر جنرل غلام محمد کی ایما پر ایک مسودہ قانون کی تیاری کا اعلان کیا جو ایک ایسے دور کی تمہید ثابت ہوا جسے آگے چل کر ایک بڑے بحران کا نکتہ آغاز بننا تھا۔ اس اعلان کے ٹھیک دس مہینے کے بعد اسی قومی اسمبلی نے بل کی صورت میں پیش کیے گئے اس قانونی مسودہ کی منظوری دی جس کے تحت مغربی پاکستان کے تمام صوبوں اور علاقوں کو ایک ایک صوبے میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور تجویز کیا گیا کہ باہم ضم کیے گئے ان صوبوں اور علاقوں کو صوبہ مغربی پاکستان کا نام دیا جائے گا۔

اس بل کی منظوری کے ٹھیک دو ہفتے کے بعد یعنی 14 اکتوبر 1955 کو یہ بل نافذ العمل ہو گیا۔ تاریخ میں اس بل کو ون یونٹ منصوبے کے نام سے شہرت حاصل ہوئی۔ علاقائی اور لسانی شناختیں ختم کر کے ایک پاکستانی شناخت والا اعلان اسی قانون کی منظوری کے موقع پر کیا گیا تھا۔

اس بل کی منظوری کے بعد وزیر داخلہ میجر جنرل سکندر مرزا نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی عوام کو یہ خوش خبری سنائی:

‘یہ (بل) صوبائی تعصبات کی لعنت کا خاتمہ کرے گا۔اس کے ذریعے پسماندہ علاقوں میں ترقی کا دروازہ کھلے گا۔ یہ انتظامی اخراجات میں کمی لائے گا، آئین سازی میں آسانی پیدا کرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر مشرقی اور مغربی پاکستان کو زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری کی فراہمی کا ذریعہ بنے گا۔’

مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش)

کیا صوبائی منافرتوں کا خاتمہ، پسماندہ علاقوں کی ترقی، آئین سازی میں سہولت اور زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری کی فراہمی ہی اس فیصلے کی بنیاد تھی؟

پاکستان کی سیاسی تاریخ سے تعلق رکھنے والی بیشتر کتابوں میں شامل تفصیلات اور سیاسی امور کے ماہرین اس سے اتفاق نہیں کرتے۔

سنہ 2002 کے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ ق کی وفاقی حکومت کے وزیر اطلاعات محمد علی درانی کہتے ہیں کہ ان کے پاس 1954 میں تیار کیے جانے والے پاکستان کے پہلے آئین کا وہ مسودہ آج بھی موجود ہے جس میں ملک کے مشرقی اور مغربی حصے کے درمیان آبادی کے توازن کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کر دیا گیا، یعنی ملک کے دونوں حصوں کی آبادی کے تناسب کے عین مطابق قومی اسمبلی میں مشرقی پاکستان کی نشستوں کا تناسب 55 فیصد اور مغربی پاکستان کی نشستوں کا تناسب 45 فیصد تھا جس پر ملک کے دونوں حصوں میں پہلی بار اطمینان محسوس کیا گیا تھا۔

محمد علی درانی نے مجھے بتایا: ‘اس سے پہلے کہ آخری خواندگی مکمل ہونے کے بعد یہ آئین نافذ ہو کر پاکستان کو سیاسی استحکام کے راستے پر گامزن کر دیتا، گورنر جنرل غلام محمد نے اسمبلی ہی کو تحلیل کر کے بحران پیدا کر دیا۔ اس کے بعد جو اسمبلی وجود میں آئی، اس میں ان کے ایما پر انتہائی جلد بازی میں ون یونٹ کے قیام کا اعلان کر دیا جس کے تحت قومی اسمبلی میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی نمائندگی مساوی قرار پائی، اس طرح ملک کے مشرقی حصے کی عددی برتری کو پیریٹی (برابری) کے اس فارمولے کے تحت مغربی حصے کی عددی کمی کے برابر قرار دے دیا گیا۔’

گورنر جنرل غلام محمد ون یونٹ کی ضرورت کیوں محسوس کرتے تھے؟

اس کا اندازہ قیام پاکستان کے بعد پنجاب کے ابتدائی چند برسوں کے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں، تجزیوں اور مضامین کے مطالعے سے سمجھ میں آتا ہے جن میں مشرقی پاکستان کی کثرت آبادی کو حقیقت کے منافی قرار دیا جاتا تھا۔

اس سلسلے میں روزنامہ ‘زمیندار’ میں شائع ہونے والا ایک مضمون خاص طور پر قابل ذکر ہے جس میں کہا گیا کہ مشرقی پاکستان کی بیشتر آبادی نابالغوں پر مشتمل ہے جسے ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں۔ لہٰذا حقیقت یہی ہے کہ مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ نہیں ہے۔

یہ گویا ایک ثابت شدہ حقیقت کو جھٹلانے والی بات تھی جس کے حق میں کئی برس تک ملک میں جارحانہ پروپیگنڈہ جاری رہا جس کے لیے اسی نوعیت کی کئی دیگر تاویلات بھی پیش کی گئیں۔

اس سلسلے میں روزنامہ ‘زمیندار’ ہی نے جنوری 1953 میں اپنے ایک اداریے میں لکھا:

‘دونوں ایوانوں میں نشستوں کی تعداد کا تعین کرتے وقت محض آبادی نہ دیکھی جائے بلکہ رقبہ، آمدنی اور فوجی اور دفاعی مصلحتوں کا بھی خیال رکھا جائے۔’

ممتاز قانون دان حامد خان کے مطابق اس ساری تگ و دو اور پروپیگنڈے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کو مرکز میں اقتدار کے حصول سے روکا جاسکے۔

یہ پس منظر تھا جس کے تحت ملک کے دونوں حصوں کی آبادی کو نظر انداز کر کے قومی اسمبلی میں انھیں برابر نمائندگی دے دی گئی جسے سیاسی تاریخ میں پیریٹی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

ملک کا منتخب ایوان تحلیل کر کے ایک نئے ایوان کے ذریعے اس فارمولے کے نفاذ کی فوری ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟

ڈاکٹر ناظر محمود اپنی کتاب ‘آلٹرنیٹو ہسٹری’ میں لکھتے ہیں کہ اس کا فوری سبب مشرقی پاکستان کے صوبائی انتخابات میں جگتو فرنٹ کی بھاری اکثریت سے کامیابی تھی جس سے خطرہ محسوس کیا جانے لگا تھا کہ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاستِ مرکزی میں بھی اقتدار میں آسکتے ہیں۔

حامد خان نے بتاتے ہیں کہ ‘گورنر جنرل غلام محمد نے ملک کی پہلی قانون ساز اسمبلی کو بھی اسی وجہ سے تحلیل کیا تھا تاکہ اسمبلی کی طرف سے پیش کیے جانے والے 1954 کے آئینی مسودے سے جان چھڑائی جاسکے۔ اگر یہ منصوبہ بروئے کار آ جاتا تو اس کے ذریعے اقتدار مشرقی پاکستان کو بھی منتقل ہو جاتا۔ یہ ملک کے طاقت ور طبقات کے لیے قابل قبول نہ تھا۔’

گورنر جنرل غلام محمد

گورنر جنرل غلام محمد

پیریٹی کے اس منصوبے کا اصل خالق کون تھا؟

ڈاکٹر راج کمار سنگھ نے ساؤتھ ایشیا جرنل میں شائع ہونے والے اپنے مقالے ‘ون یونٹ سکیم آف پاکستان 1955-1970 ری وزیٹیڈ’ میں لکھا ہے کہ اس فارمولے کا خیال سب سے پہلے گورنر جنرل غلام محمد کے ذہن میں آیا۔

ڈاکٹر ناظر محمود نے لکھا ہے کہ اس فارمولے پر پہلے وزیر اعظم فیروز خان نون کے زمانے میں غور کیا گیا جس میں ان کے ساتھ پنجاب سے تعلق رکھنے والی خاتون رہنما جہاں آرا سرفراز شامل تھیں۔ ناظر محمود کے مطابق بانی پاکستان محمد علی جناح اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے زمانے بھی اس منصوبے کی گونج سنائی دی تھی لیکن ان بزرگوں کے زمانے میں یہ منصوبہ شاید اس لیے پروان نہ چڑھ سکا کہ وہ دونوں پنجابی نہ تھے۔

وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے اپنے دور اقتدار میں جو دوسری آئینی سفارشات پیش کی تھیں، ان میں پیرٹی کے اصول کا ذکر کسی نہ کسی طرح موجود تھا جس پر پنجاب کے سیاست دان اور اخبارات تنقید کر رہے تھے۔

اس سلسلے میں پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور عوامی مسلم لیگ کے رہنما نواب افتخار حسین ممدوٹ کی ایک تقریر خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ 11 جنوری 1953 کو انھوں نے موچی دروازہ لاہور میں ایک جلسے سے خطاب میں ان آئینی تجاویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا:

‘پنجاب ڈٹ جائے تو اس کی مرضی کے خلاف کوئی آئین مسلط نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہم کوئی ایسا آئین مسلط ہونے دیں گے جس کی وجہ سے پاکستان کا استقلال خطرے میں پڑ جائے۔’

روزنامہ ‘زمیندار’ نے ‘مشرقی اور مغربی پاکستان کی مساوات’ کے عنوان سے لکھا: ‘مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان اگر مساوات قائم کی جا رہی ہے تو کیا اس کے صاف معنی یہ نہیں ہیں کہ ایک یونٹ کو دوسرے تمام یونٹوں پر (آمدنی، محاصل رقبہ اور فوجی خدمات سے قطع نظر) حاوی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔’

اس کا مطلب یہ ہے کہ مغربی پاکستان میں اس زمانے میں پارلیمان میں مشرقی اور مغربی پاکستان کی برابری کی تجویز بھی قابل قبول نہ تھی اور اسے دوسرے صوبوں پر ایک صوبے کی برتری خیال کیا جا رہا تھا۔ اس تنقید سے مجبور ہو کر وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے15 جنوری 1953 کو پنجاب مسلم لیگ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا:

‘مساویانہ نمائندگی کا فارمولا شہید ملت (یعنی ملک کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان) نے وضع کیا تھا۔’

ان سب مثالوں اور واقعات سے ماہرین آئین اور مؤرخین کی اس رائے کو تقویت ملتی ہے کہ پیرٹی کا یہ فارمولا مشرقی پاکستان کی اکثریت سے جان چھڑانے کی ایک کوشش تھی پھر کیا وجہ تھی کہ 1954 میں جب یہ فارمولا متعارف کرایا گیا اور 1955 میں جب اس کا نفاذ کیا گیا تو اس موقع پر مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاست دان ہی پیش پیش تھے؟

ماہر آئین حامد خان اس سلسلے کے اس زمانے کے وزیر قانون (اور بعد میں وزیر اعظم) حسین شہید سہروردی کا ایک بیان پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق سہروردی کہا کرتے تھے: ’قیام پاکستان کے بعد سے آج تک (ون یونٹ کے قیام تک) ہمیں اقتدار میں جائز حصہ نہیں دیا گیا، اب نصف حصہ مل رہا ہے تو کیوں اسے قبول نہ کریں۔’

باچا خان

ون یونٹ کے منصوبے کا اعلان کیا گیا تو اس کے خلاف تحریک چلانے والے سیاست دانوں میں باچا خان نمایاں ترین تھے، اس منصوبے کی حمایت سے باز رکھنے کے لیے انھوں نے حیسن شہید سہرودری سے ملاقات کی لیکن وہ انھیں قائل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔

ون یونٹ منصوبے کے بارے میں پنجاب کا عمومی اور بنگال کے سرکردہ سیاست دانوں کا ردعمل تو واضح تھا لیکن ملک کے دیگر حصوں میں اس کے بارے میں کیا سوچا جا رہا تھا؟

ون یونٹ فارمولے کی مخالفت سب سے پہلے مرکز قریب ترین صوبے یعنی سندھ سے ہوئی۔ ڈاکٹر ناظر لکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں نمایاں ترین مسلم لیگی رہنما اور وزیر اعلیٰ سندھ عبدالستار پیرزادہ اور محمد ہاشم گزدر تھے۔ ان کے علاوہ عبدالمجید سندھی، جی ایم سید، جی ایم بھرگڑی اور غلام علی تالپور سمیت سندھ اسمبلی کے 74 اراکین مخالفت میں پیش پیش تھے۔ اس مخالفت کا نتیجہ یہ نکلا کہ سندھ کی وزارت توڑ دی گئی۔ یہ گویا ملک کے دیگر صوبوں کے لیے ایک کھلا پیغام تھا۔

یہ بھی پڑھیے

’بہاولپور ون یونٹ سے قبل تین برس تک پاکستان کا صوبہ تھا‘

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ دار کون؟

مشرقی پاکستان اسمبلی کے خوں چکاں واقعات اور ڈپٹی سپیکر کا پراسرار قتل

پاکستانی تاریخ کی ’تاریک ترین‘ رات

اس کارروائی کے بعد سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) اسمبلی نے ون یونٹ کی منظوری دے دی۔ کچھ دنوں کے بعد بلوچستان شاہی جرگے، خیر پور اسمبلی اور چترال نے بھی حمایت کر دی۔ سندھ اسمبلی جہاں سب سے پہلے اس کی مخالفت ہوئی تھی، 104 کےایوان میں سے 100 ارکان نے ون یونٹ کے حق میں ووٹ دیا۔ اس موقع پر جی ایم سید اور دیگر کئی رہنماؤں کو اس الزام میں گرفتار کر لیا گیا کہ وہ کابینہ کے ارکان کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں۔

رہ گیا پنجاب تو ڈاکٹر ناظر کے مطابق اس صوبے میں یہ سودا آسانی سے بک گیا۔ البتہ جنرل آف ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان میں شائع ہونے والے سید منہاج الحسن اوراسما گل کے مشترکہ مقالے کے مطابق پنجاب سے آزاد پاکستان پارٹی کے میاں افتخار الدین اور فیروز خان نون نے اس منصوبے کی مخالفت کی۔

منہاج اور اسما کے مطابق ون یونٹ کی منظوری کے بعد باچا خان کی عرفیت سے معروف خان عبد الغفار خان سب سے پہلے اس کے خلاف متحرک ہوئے اور صوبائی سطح پر اینٹی ون یونٹ فرنٹ قائم کیا۔ اس کے بعد اس فرنٹ کی سرگرمیاں پورے مغربی پاکستان میں پھیل گئیں اور چھ جماعتوں کے اشتراک سے پاکستان نیشنل پارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت وجود میں آئی۔ اس اتحاد میں آزاد پاکستان پارٹی، سندھ عوامی محاذ، سندھی ہاری کمیٹی، ورور پختون اور خدائی خدمت گار شامل تھے۔

اس اتحاد نے مغربی پاکستان کے طول وعرض میں جلسے کر کے ون یونٹ کے خاتمے اور مغربی پاکستان کے سابق صوبوں معاشی، لسانی اور ثقافتی شناخت بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔

اس مطالبے کو مقبولیت حاصل ہوئی اور یہ امکان پیدا ہو گیا تھا کہ مارچ 1957 کے مغربی پاکستان کے بجٹ سیشن میں حکمراں جماعت کو شکست ہو جاتی، سکندر مرزا نے مغربی پاکستان میں آئین معطل کر کے گورنر راج نافذ کر دیا۔

ون یونٹ کے خلاف تحریک کی ایک اور یادگار پاکستان میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی سب سے بڑی جماعت نیپ کے نام سے معروف ہونے والی نیشنل عوامی پارٹی کا قیام تھا جس نے ملک کے ایک بڑے ڈیموکریٹک فورم کی شکل اختیار کی جس سے اینٹی ون یونٹ تحریک کو غیر معمولی تقویت ملی۔

سکندر مرزا

سکندر مرزا

نیپ کا امتیاز یہ تھا کہ اس میں مشرقی اور مغربی پاکستان یعنی ملک کے دونوں حصوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دان شامل تھے جو ملک کے اتحاد کو یقینی بناتے تھے۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں میں نمایاں ترین مولانا عبدالحمید خان بھاشانی تھے۔

یہ اسی تحریک کی بڑھتی ہوئی مقبولیت تھی جس کی وجہ سے سکندر مرزا اور ایوب خان نے مارشل لا کے نفاذ کا فیصلہ کیا۔

اس کا پس منظر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ نیپ اور حکمراں جماعت ری پبلی کن پارٹی نے ایک معاہدے کے تحت اسمبلی سے ایک قرار داد منظور کرائی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ مغربی پاکستان کو ایک سب فیڈریشن بنا کر صوبوں کو بحال کر دیا جائے۔ اس مطالبے کا جواب مارشل لا لگا کر دیا گیا۔

مارشل لا کے نفاذ کے بعد ایوب خان نے دس برس تک اقتدار کے مزے لوٹے لیکن ان کے خلاف لاوہ پکتا رہا جو ان کے خلاف ایک تند و تیز تحریک کی شکل اختیار کر گیا۔ اس تحریک کا اختتام مارچ 1969 میں یحییٰ خان کی قیادت کی ایک نئے مارشل لا کی صورت میں ہوا یہی وجہ تھی کہ حکومت سنبھالنے کے بعد انھوں نے اپنے پہلے ہی اعلان میں ون یونٹ کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔

ون یونٹ کے خاتمے کا ملک بھر میں خیر مقدم کیا گیا، اس سلسلے میں بلوچستان کی سابق ریاستوں کا ردعمل سب سے دلچسپ تھا۔ ون یونٹ کے خاتمے کے اعلان کے بعد ان ریاستوں کے وفاق کا ایک اجلاس خان آف قلات کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر یحیٰ خان کو ایک خط میں خراج تحسین پیش کیا گیا۔ خان آف قلات نے اس خط کا متن اپنی کتاب ‘ان سائیڈ بلوچستان’ میں شامل کیا ہے، خط میں لکھا تھا:

‘یور ایکسیلینسی!

ہمیں ہمارے گھروں اور چولہے چوکے سے بیک جنبش قلم محروم کر دیا گیا تھا، ون یونٹ کا خاتمہ کر کے آپ نے ہمارے دل جیت لیے ہیں۔’

بلوچ ریاستوں کے وفاق نے اس موقع پر مطالبہ کیا کہ اس تاریخی موقع پر بلوچستان کی سابق ریاستوں کو ان کی سابق حیثیت میں بحال کر دیا جائے۔ ون یونٹ کی بحالی کے وقت سابق ریاست بہاولپور کو پنجاب میں شامل کر دیا گیا۔ ون یونٹ کے قیام کے وقت سابق ریاست بہاولپور کی حیثیت ایک مکمل صوبے کی تھی جس کے وزیر اعلیٰ مخدوم حسن محمود تھے۔

اس موقع پر بہاولپور کی علیحدہ صوبے کی حیثیت سے بحالی کا مطالبہ کیا گیا لیکن اس پر توجہ نہ دی گئی لیکن آئندہ برس انتخابات کے موقع پر بہاولپور کے عوام نے ایک بار پھر علیحدہ صوبے کے حق میں اپنی رائے ظاہر کی۔

سابق وفاقی وزیر اطلاعات محمد علی درانی کہتے ہیں ‘ستر کے انتخابات میں بہاولپور صوبہ بحالی محاذ نے اپنی علیحدہ حیثیت سے ان انتخابات میں حصہ لیا اور تقریباً 80 فیصد نشستیں جیت لیں لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں بننے والی حکومت نے اس مطالبے کو نظر انداز کر دیا بلکہ بھٹو صاحب نے سرائیکیت کا مسئلہ اٹھا کر اس مطالبے کو پس منظر میں دھکیلنے کی کامیاب کوشش کی۔ محمد علی درانی کا کہنا ہے کہ ‘یہ اس کے باوجود تھا کہ تاریخی طور پر بہاولپور پنجاب کا حصہ کبھی نہیں رہا۔’

یہ سوال اہم ہے کہ ون یونٹ کے قیام کے پاکستان کی سیاسی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔ حامد خان کے مطابق اس کا سب سے بڑا ردعمل تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں سامنے آیا۔ جولین لی ویسکو اپنے مقالے’ فرام سٹوڈنٹس آرگنائزیشن ٹو ایتھنک پارٹیز: سندھی نیشنلزم ڈیورنگ ون یونٹ’ میں لکھتے ہیں:

‘یہ کام علاقائیت کے خاتمے نام پر کیا گیا لیکن اس کے نتیجے علاقائیت پرستی کاایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔’

یہ ایک ایسا طوفان ہے جو پاکستان کو آج بھی پریشان کر رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp