سنیماٹوگرافی: برصغیر میں دکھائی جانے والی لومیئر برادران کی پہلی فلمیں اور انڈیا میں فلم انڈسٹری کی ابتدا

عقیل عباس جعفری - محقق و مورخ، کراچی


لومیئر

سات جولائی 1896 کو بمبئی کے ٹائمز آف انڈیا میں ایک اشتہار شائع ہوا جس میں اہلیانِ شہر کو واٹسن ہوٹل میں ’صدی کے سب سے بڑے کارنامے اور دنیا کے سب سے بڑے عجوبے‘ کو دیکھنے کی دعوت دی گئی۔

اشتہار کے مطابق عجوبے کو دیکھنے والے عوام کو شام میں چار مختلف اوقات پر ہال میں آنے کی اجازت ہو گی اور ہر ’شو‘ کا ٹکٹ ایک روپیہ طے ہوا جو اس زمانے کے لحاظ سے خاصی بڑی رقم تھی۔

https://twitter.com/mumbaiheritage/status/1015844193607012352

یہ عجوبہ کچھ اور نہیں بلکہ برصغیر میں ’متحرک تصاویر‘ کی پہلی نمائش تھی جنھیں ہم آج ’فلم‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ اتفاق سے (یا شاید اس میں کوئی اتفاق کی بات ہے ہی نہیں) آج ممبئی کا شمار دنیا میں فلم سازی کے بڑے مراکز میں ہوتا ہے اور یہاں سالانے ہالی وڈ سے بھی زیادہ فلمیں بنتی ہیں۔

لیکن 1896 میں شام چھ تا دس تک جاری رہنے والے چار شوز دیکھنے آنے والی عوام کو ناچ گانا، بہترین ڈائلاگ بازی اور تیز رفتار ایکشن دیکھنے کو نہیں ملا۔ اس رات نمائش کے لیے پیش کی جانے والی سب سے خوفناک فلم کا عنوان Arrival of a Train یعنی ’ٹرین کا آمد‘ تھا۔

آپ کو تعجب ہو رہا ہو گا کہ یہ کیسی فلم ہے، تو ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ سنیما کے ابتدائی دنوں میں زیادہ تر فلمیں بالعموم کسی ایک واقعے کی عکس بندی پر مشتمل ہوتی تھیں اور ان کی نوعیت ان نیوز ریلز جیسی ہوتی تھی جو پہلی عالمی جنگ اور اس کے بعد کئی سالوں تک سنیما گھروں میں دکھائی جاتی رہیں۔

ان فلموں کو بنانے اور انڈیا کی سرزمین تک لانے والے دو فرانسیسی بھائی، لوئی اور آگست لومیئر تھے جن کی بنائی گئی کمپنی ’سنیماٹوگرافی‘ کا نام آج تک فلم سازی کے شعبے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

لومیئر

لومیئر برادران: لوئی لومیئر (دائیں) اور آگست لومیئر

مہیر بوس اپنی کتاب ’بالی وڈ‘ میں لکھتے ہیں کہ دونوں بھائیوں نے اس سے قبل 28 دسمبر 1895 کو پیرس کے گرانڈ کیفے میں اس نوعیت کی فلموں کی نمائش کی تھی اور پیرس میں کامیابی کے بعد انھوں نے لندن کی ریجنٹ سٹریٹ پر بھی اپنی ایجاد کا عوامی مظاہرہ کیا۔

یہاں The Arrival of a Train at La Ciotat Station نامی فلم، جس میں ایک ٹرین کو سٹیشن میں داخل ہوتے ہوئے دکھایا گیا تھا، کی نمائش کی گئی۔

فلم میں اگرچہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو آپ کے لیے حیران کن ہو، بس ایک ٹرین پلیٹ فارم پر آ کر رک رہی ہے۔ تاہم جب یہ منظر لندن میں بڑے پردے پر پہلی بار دکھایا گیا تو فلم کے ناظرین کو یوں لگا جیسے ٹرین پردۂ فلم سے نکل کر ان کی جانب آ رہی ہے اور وہ چند ہی لمحوں میں اس کے نیچے آ کر کچلے جانے والے ہیں۔

چنانچہ فلم کی نمائش کے دوران کچھ لوگ تو دہشت زدہ ہو کر اپنی نشستوں سے اٹھ کر دروازے کی طرف دوڑ پڑے جبکہ بعض خواتین کو غش آ گیا اور انتظامیہ کو نرسیں بلانی پڑیں کہ ان شہیدان شوق کی تیمارداری کی جائے۔

ایرک بارنو اور ایس کرشنا سوامی کی کتاب ’انڈین فلمز‘ بھی مہیر بوس کے اس دعوے کی تائید کرتی ہے۔

اس کے مطابق ’لومیئر برادران نے دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اپنی سینماٹوگرافی فلمیں دکھانے کا فیصلہ کیا۔ وہ اپنی بنائی ہوئی فلموں کی نمائش کے لیے آسٹریلیا روانہ ہوئے مگر راستے میں بمبئی آ گیا اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ کچھ وقت کے لیے اس کاسموپولیٹن شہر میں رک کر اپنی فلموں کی نمائش کی جائے۔‘

انڈین فلمی صنعت کی سب سے جامع تاریخ So Many Cinemas (اتنے سارے سنیما) کے مطابق ’ہر شو میں 17، 17 میٹر لمبی چھ فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔‘

یہ فلمیں محض کسی عام منظر کی فلم بندی پر مبنی تھیں لیکن اس زمانے میں لوگوں کے لیے انتہائی دلچسپ تھیں کیونکہ انھوں نے اکثر ایسی چیزیں دیکھی ہی نہیں تھیں۔

مثال کے طور پر Demolition یعنی منہدم کرنے کے منظر میں چند مستری کسی عمارت کی ایک دیوار گرانے کا کام کرتے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک معمولی سی بات ہے تاہم اپنے سامنے پردے پر دیوار کے گرائے جانے کا منظر اُس وقت کے ناظرین کے دِلوں میں یقیناً ویسے ہی جذبات پیدا کرتا ہو گا جیسے آج کسی بڑے بجٹ والی ایکشن فلم دیکھ کر ہوتے ہیں۔

لومیئر

فیکٹری سے اخراج یا Leaving the Factory میں لومیئر فیکٹری میں سے باہر آنے والے مزدوروں کو فلم بند کیا گیا تھا

اسی کتاب کے مطابق ’بمبئی کے شہریوں میں یہ فلمیں بہت مقبول ہوئیں اور چند روز بعد 14 جولائی 1896 سے بمبئی کے ناولٹی تھیٹر میں تین روز تک ان فلموں کی نمائش کا دوبارہ اہتمام کیا گیا۔

لومیئر برادران نے عوام کے ذوق و شوق کے پیش نظر ناولٹی تھیٹر میں شائقین کے لیے چند فلموں کا اضافہ بھی کر دیا۔ یہ سلسلہ بھی بے حد مقبول ہوا اور فلم بینوں کے اشتیاق کو دیکھتے ہوئے فلموں کی یہ تعداد بعد ازاں 24 تک بڑھا دی گئی۔

شائقین فلمیں دیکھنے کے لیے ناولٹی تھیٹر پر ٹوٹ پڑے اور یوں ان فلموں کی نمائش کا یہ سلسلہ تین روز کی بجائے ایک ماہ تک جاری رہا۔ اس دوران ایسے افراد کی سہولت کے لیے جو پردہ دار خواتین اور اہل خانہ کے ہمراہ یہ فلمیں دیکھنے کے لیے آتے تھے، باکس کا بھی اہتمام کیا گیا۔

فلم کے ٹکٹ کی قیمت پر بھی نظرثانی کی گئی اور چار آنے سے دو روپے تک مختلف قسم کی نشستوں کا اہتمام کیا گیا۔

چار آنے والا ٹکٹ سب سے پچھلی نشست والوں کے لیے اور دو روپے کا ٹکٹ سب سے آگے آرکسٹرا کے ساتھ بیٹھنے والے تماشائیوں کے لیے تھا۔

بمبئی میں ان فلموں کی نمائش کا یہ سلسلہ 15 اگست 1896 تک جاری رہا۔ پریم پال اشک نے اپنی کتاب ’فلم شناسی‘ میں لکھا ہے کہ ٹائمز آف انڈیا نے ان فلموں کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’لومیئر برادران کی یہ ایجاد دور جدید کی ایک عظیم سائنسی اختراع ہے۔‘

جن دنوں برصغیر میں یہ فلمیں دکھائی جا رہی تھیں انہی دنوں دنیا کے دیگر ممالک میں بھی لومیئر برادران کی جانب سے اسی نوع کی فلموں کی نمائش کا سلسلہ جاری تھا۔ مثلاً سات جولائی 1896 کو، جس دن بمبئی میں ان فلموں کی نمائش کا آغاز ہوا، اسی دن روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ میں بھی پہلی مرتبہ متحرک فلمیں دکھائی گئیں۔

تقریباً اسی زمانے میں چین، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں بھی ان فلموں کی نمائش کی گئی۔ یورپ اور امریکہ کے متعدد شہروں میں یہ فلمیں چند ہفتے یا چند ماہ پہلے ہی دکھائی جا چکی تھیں۔

ایرک بارنو اور ایس کرشنا سوامی کے مطابق اس جلد بازی کی وجہ شاید یہ ہو کہ لومیئر برادران جلد از جلد دنیا کے تمام براعظموں میں اپنی ایجاد کے ثمرات دیکھنا چاہتے تھے کیونکہ انھیں خطرہ تھا کہ اگر انھوں نے ذرا بھی تساہل سے کام لیا تو دوسرے موجدین اس موقع سے فائدہ اٹھا لیں گے۔

اور شاید ہوتا بھی یہی۔

اگلے چند برسوں میں کئی دوسرے فلم ساز ادارے اپنی فلمیں لے کر برصغیر آئے۔ جنوری 1897 میں سٹیورٹ، ستمبر 1897 میں ہیوز اور 1898 میں پروفیسر اینڈرسن نے بمبئی میں اپنی فلموں اور فلم سازی کے آلات کی نمائش کی۔

اس کے علاوہ کلکتہ بھی ان موجدین کی دلچسپی کا مرکز بنا جہاں سٹار تھیٹر میں مسٹر سٹیونز نے اپنی فلموں کی نمائش کی۔

لومیئر برادران کی جانب سے تو ان فلموں کی نمائش کا سلسلہ 15اگست 1896 کو ختم ہو گیا تھا مگر اب شائقین کو ان متحرک فلموں کا چسکہ لگ چکا تھا۔ چنانچہ چند ہی ماہ بعد 4 جنوری 1897 سے ممبئی کے گائٹی تھیٹر میں درآمد شدہ فلموں کی نمائش کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہو گیا۔‘

مزید پڑھیے

وہ دور جب کراچی کے ہر کونے میں ایک سینما تھا

’حمزہ بابا‘ اور بمبئی میں بننے والی پشتو زبان کی پہلی فلم

ذکر پاکستان کی ایک گمشدہ فلم کا


فیروز رنگون والا اپنی کتاب ’اے پکٹوریل ہسٹری آف انڈین سینما‘ میں لکھتے ہیں: ’جلد ہی ان فلموں میں نت نئی تبدیلیاں اور اختراعات بھی کی گئیں۔ مثلاً اب کچھ دستاویزی اور تاریخی نوعیت کی فلمیں بھی عام نمائش کے لیے پیش کی جانے لگیں جن میں گلیڈسٹون کی تدفین، نیلسن کی وفات، یونان اور ترکی کے درمیان جنگ اور لندن کے فائر بریگیڈ پر مبنی فلمیں شامل تھیں کچھ ایسی فلمیں بھی پیش کی گئیں جو برصغیر ہی میں تیار کی گئی تھیں۔‘

’سنہ 1898 میں کرسمس کے خصوصی شو میں ممبئی میں ٹرین کی آمد اور پوناریس 1898 کی فلمیں دکھائی گئیں۔ یہ فلمیں غیر ملکی فلم سازوں نے بنائی تھیں۔ ساتھ ہی ساتھ غیر ملکی فلموں کی درآمد بھی بدستور جاری رہی اور یکم جنوری سنہ 1900 کو 25 نئی فلمیں نمائش کے لیے پیش کی گئیں جو برطانیہ کے علاوہ امریکہ، اٹلی، ڈنمارک اور جرمنی سے درآمد کی گئی تھیں۔‘

مہیر بوس لکھتے ہیں: ’برصغیر میں نمائش کے لیے پیش کی جانے والی ان فلموں کے ناظرین میں اکثریت انگریزوں کی یا ان ہندستانیوں کی ہوتی تھی جو انگریزی طرز معاشرت کے دلدادہ تھے۔ کچھ مقامی باشندوں پر ان فلموں کے بڑے اہم اثرات مرتب ہوئے۔ ایسے ہی ایک مقامی باشندے مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والے ہریش چندر سکھارام بھاٹوادیکر تھے جنھیں عرف عام میں سیودادا کہا جاتا تھا۔‘

سنیما

’وہ پیشے کے اعتبار سے فوٹو گرافر تھے اور انھوں نے 1880 کے لگ بھگ بمبئی میں اپنا فوٹو گرافی سٹوڈیو کھولا تھا۔ 1896 میں جب انھوں نے لومیئر برادران کی متحرک فلمیں دیکھیں تو وہ ان کے جادو کے اسیر ہوگئے۔ انھوں نے فوراً لندن سے ایک موشن پکچر کیمرا منگوایا جو غالباً برصغیر میں درآمد ہونے والا اس نوع کا پہلا کیمرا تھا۔ یہ کیمرا 1897 میں ہندوستان پہنچا۔ اس کی مدد سے سیودادا نے ممبئی کے ہینگنگ گارڈنز میں دو پہلوانوں، پنڈالک دادا اور کرشنا نیہادی کے درمیان منعقد ہونے والی ایک کشتی فلم بند کی فلم پروسیسنگ کے لئے لندن بھیج دی۔‘

’اسی دوران انھوں نے پروجیکٹر بھی خرید لیا۔ جب کشتی کی فلم لندن سے واپس آئی تو انھوں نے اس کی نمائش کا اہتمام کیا۔ انھوں نے دوسری فلم سرکس کے بندروں کی تربیت کے موضوع پر بنائی۔ اس کے بعد انھیں ایک بہت اہم واقعے کو فلم بند کرنے کا موقع ملا: ایک ہندوستانی طالب علم آر پی پرانجپائی نے کیمبرج یونیورسٹی میں ریاضی میں نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ جب وہ دسمبر 1901 میں وطن لوٹے تو ان کا پرجوش استقبال کیا گیا۔ سیودادا نے اس تقریب کو فلم بند کیا اور جب اسے نمائش کے لئے پیش کیا گیا تو قوم پرست بھارتیوں نے اس کی والہانہ پزیرائی کی۔ یہ برصغیر کی فلمی تاریخ کی پہلی نیوزریل تھی۔‘

2013 میں نند کشور وکرم کی کتاب ’عالمی اردو ادب، سینما صدی نمبر‘ منظرعام پر آئی۔ اس کتاب میں دعویٰ کیا گیا کہ ہندوستان میں بننے والی پہلی فلم ایک غیر ملکی پروفیسر سٹیونسن نے تیار کی تھی۔ 1898 میں بننے والی اس فلم کا نام A Panorama of Indian Scenes and Processions تھا۔ 1899 میں اس فلم کی نمائش لندن میں بھی ہوئی۔ یہ فلم برٹش فلم انسٹیٹیوٹ میں آج بھی محفوظ ہے۔

ٹی ایم رام چندرن کی مرتبہ کتاب ’سیونٹی ایئرز آف انڈین سینما‘ کے مطابق ’اسی دوران 1900 میں ایک اور فلم ساز چارلس پاتھے نے بھی بھارت میں فلموں کا کاروبار شروع کیا۔ ان کی فلموں کی خاص بات یہ تھی کہ ان میں ہندوستانی مناظر بھی دکھائے جاتے تھے۔‘

پاتھے

ایرک بارنو اور ایس کرشنا سوامی کے مطابق ہریش چندر سکھا رام اور پاتھے کی کامیابیاں دیکھتے ہوئے چند اور بھارتی بھی فلمیں بنانے کی طرف متوجہ ہوئے جن میں ایف بی تھانہ والا، ہیرا لال سین اور جے ایف مدن کے نام بہت اہم ہیں۔ ایف بی تھانہ والا نے ممبئی کے مناظر اور ایک میت جلوس کی فلم بندی کرکے انھیں نمائش کے لئے پیش کیا۔ ہیر لال سین نے جن کا تعلق کلکتہ سے تھا، رائل بائیسکوپ کے تحت سات مقبول بنگالی ڈراموں کے مختلف مناظر فلم بند کئے۔ جے ایف مدن اور اس کی الفنسٹن بائیسکوپ کمپنی (کلکتہ) نے 1905 میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت فلمیں بنانے کا آغاز کیا۔

ان فلموں کی نمائش عام طور پر تھیٹروں میں کی جاتی تھیں، بعض اوقات یہ فلمیں ڈراموں اور جادو کے کھیلوں کے بعد خصوصی آئٹم کے طور پر بھی پیش کی جاتی تھیں۔ کلکتہ میں ہیر لال سین نے جن مشہور ڈراموں کے مناظر فلم بند کئے تھے وہ ان ڈراموں کے بعد دکھائے جاتے تھے۔ 1898 میں ممبئی میں مشہور شعبدے باز کارل ہرٹز اپنے شعبدوں کے بعد متحرک فلمیں دکھایا کرتا تھا ۔

بڑے شہروں میں تو ان فلموں کی نمائش تھیٹروں میں ممکن ہوجاتی تھی مگر چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں اکثر باغوں اور میدانوں میں ٹینٹ لگا کر ان فلموں کی نمائش کی جاتی تھی۔ یہ چلتے پھرتے سینما جلد ہی پورے بھارت میں مقبول ہوگئے۔ مگر برصغیر میں فلموں کو مقبول بنانے میں ایک بہت اہم کردار جے ایف مدن نے ادا کیا جن کا پورا نام جمشید جی فرام جی مدن تھا۔

وہ ممبئی کے ایک پارسی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ تھیٹر کا شوق انھیں کلکتہ لے گیا۔ جہاں انہوں نے کورنیشن ہال میں بالکل معمولی کرداروں سے اپنے کیریئر کی ابتدا کی اور رفتہ رفتہ ایک معروف اداکار بن گئے اور پھر ایک دن وہ بھی آیا جب انہوں نے وہ تھیٹر کمپنی ہی خریدلی۔ جے ایف مدن تھیٹر کے علاوہ کئی دوسرے کاروبار سے منسلک تھے، جن میں کھانے پینے کی اشیا، شراب، دوائیں، انشورنس اورجائیداد کی لین دین کے کاروبار شامل تھے۔

انڈین سنیما

وہ زندگی بھر تھیٹر کے علاوہ دوسرے کاروبار بھی خاصی کامیابی کے ساتھ چلاتے رہے۔ 1902 میں جے ایف مدن نے فلم سازی کا سازوسامان خریدا اور کلکتہ کے وسط میں ایک میدان میں ٹینک لگا کر اپنا بائیسکوپ دکھانے کا اہتمام کیا۔ یہ فلم سازی، تقسیم کاری اور نمائش کی ایک عظیم الشان سلطنت کی ابتدا تھی جو تین دہائیوں تک نہ صرف ہندوستان بلکہ برما اور سیلون میں بھی چھائی رہی۔ ان تین دہائیوں میں وہ 37 سینمائوں کے مالک بن چکے تھے۔

اسی زمانے میں عبدالعلی یوسف علی نے ٹینٹ میں فلمیں دکھا دکھا کر اپنے کریئر کا آغاز کیا۔ 1901 سے 1907 تک وہ پورے جنوبی ایشیا (سنگاپور، سماٹرا، جاوا، برما اور سیلون) میں اپنے بائیسکوپ کی نمائش کرتے رہے۔ 1908 سے 1914 تک انھوں نے پورے ہندوستان میں بائیسکوپ کا مظاہرہ کیا۔

یہ بھی پڑھیے

کیا آپ نے پاکستان کی یہ دس ’بہترین‘ فلمیں دیکھی ہیں؟

سلطان راہی جنھوں نے ’گنڈاسا کلچر‘ سے 25 سال پنجابی فلموں پر راج کیا

صبیحہ خانم: جو اپنی معصوم اداکاری سے پاکستانی سینما کی خاتون اول بن گئیں

جس ٹینٹ پر یہ فلمیں دکھائی جا رہی تھیں وہ 100 فٹ لمبا اور 50 فٹ چوڑا ہوتا تھا اور اس میں تقریباً ایک ہزار آدمی سما جاتے تھے۔ عبدالعلی یوسف علی یہ فلمیں لندن سے منگوایا کرتے تھے اور ایک شو میں چالیس پچاس فلمیں دکھایا کرتے تھے۔ جن میں مزاحیہ خاکے، اوپیرا، سفری فلمیں اور کھیلوں کے مقابلے شامل ہوا کرتے تھے۔ اسی زمانے میں انھوں نے ملکہ وکٹوریہ کی تدفین اور جنگ بوئر کے مناظر پر مشتمل فلمیں نمائش کے لیے پیش کیں یہ فلمیں بھی بہت مقبول ہوئیں۔

سنہ 1914 میں عبدالعلی یوسف علی نے ممبئی میں ایک پارٹنر کے ساتھ مل کر الیگژینڈرا سینما خریدا اور 1918 میں میجسٹک سینما تعمیر کیا جہاں 1931 میں برصغیر کی پہلی متکلم فلم ’عالم آرا‘ بھی نمائش کے لیے پیش کی گئی۔

تاہم فیروز رنگون والا کے مطابق کسی مربوط کہانی پر مشتمل برصغیر کی پہلی فلم کا نام ’پنڈالک‘ تھا۔ یہ فلم آر جی تورنے اور این جی چترا نے تیار کی تھی اور یہ مہاراشٹر کے ایک مشہور بزرگ کے حالات زندگی پر مشتمل تھی۔

یہ فلم 18 مئی 1912 کو ممبئی کے کورونیشن سینما میں نمائش کے لیے پیش کی گئی اور ہندوئوں کو یہ فلم دیکھنے کے لیے بالخصوص دعوت دی گئی، بعض فلمی مؤرخین پنڈالک کو برصغیر کی پہلی خاموش فلم خیال کرتے ہیں۔ تاہم بیشتر مؤرخین یہ اعزاز راجا ہریش چندر کو دیتے ہیں جو پنڈالک کی ریلیز کے کوئی ایک برس بعد تین مئی 1913 کو ریلیز ہوئی تھی اور جسے مشہور فلم ساز دادا صاحب پھالکے نے تیار کیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp