پاکستان کے پہلے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی پیدائش ممکن بنانے والے ڈاکٹر راشد لطیف خاں کی کہانی: جب والد سے پوچھا گیا ’یہ حرام کام آپ نے تو نہیں کیا ہے؟‘

سارہ عتیق - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


’میرے نام میں تو ماں ہے لیکن شاید میرے نصیب میں ماں بننا نہیں۔’

اُم حبیبہ 24 سال کی تھیں جب ان کی شادی ہوئی۔ آج ان کی شادی کو 11 سال سے زیادہ ہو گئے ہیں لیکن ان کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ اُم حبیبہ نے ان 11 برسوں میں پاکستان کے تمام بڑے ڈاکٹروں، حکیموں یہاں تک کہ پیروں تک سے رجوع کر لیا لیکن کسی کے پاس ان کے مسئلے کا حل نہیں تھا اور جو حل ہے وہ اس ملک میں ممکن نہیں۔

’یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ میرے اس مرض کا علاج اور اس کی سہولیات تو موجود ہیں لیکن ہمارا معاشرہ اور قانون اس کے اجازت نہیں دیتا۔‘

متعدد ٹیسٹ کروانے کے بعد اُم حبیبہ کو معلوم ہوا کہ ان کے ایگز کا معیار اس قابل نہیں کہ وہ صحت مند بچے کو جنم دے سکیں۔ ڈاکٹروں نے انھیں ان ویٹرو فرٹیلائزیشن (آئی وی ایف) علاج کا مشورہ دیا۔ یعنی ان کے ایگز اور ان کے شوہر کا سپرم ان کے جسم سے نکال کر لیبارٹری میں ملایا جائے گا اور دو دن بعد ان کی بچہ دانی میں واپس ڈال دیا جائے گا۔

اُم حبیبہ دو مرتبہ اس طریقے سے حاملہ ہوئیں لیکن دونوں ہی بار ان کا حمل زیادہ دیر تک ٹھہر نہ سکا۔ ان کا کہنا ہے کہ آئی وی ایف کی یہ قسم تو ان کے لیے فائدہ مند ثابت نہ ہو سکی لیکن جو قسم ہو سکتی ہے اس کی اجازت پاکستان میں نہیں۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر وہ اپنے ایگز کے بجائے کسی اور کے عطیہ شدہ ایگز استعمال کریں تو ان کے ہاں اولاد ہونے کے امکانات زیادہ ہیں، لیکن انھیں اس کی اجازت نہیں۔

جب پاکستان میں پہلے ٹیسٹ ٹیوب بچے کو ‘حرام’ کہا گیا

پاکستان میں بانجھ پن کے علاج کے لیے آئی وی ایف کا آغاز 1984 میں ہوا اور اس کو پاکستان میں متعارف کروانے والے ڈاکٹر راشد لطیف خاں تھے جنھوں نے لاہور میں پاکستان کے پہلے آئی وی ایف سنٹر ‘لائف’ کا قیام کیا تھا۔

ان کی پانچ سال کی کوششوں کے بعد سنہ 1989 میں پاکستان کے پہلے ٹیسٹ ٹیوب بچے کی پیدائش کو ممکن بنایا گیا۔

جب دنیا کا پہلا ٹیسٹ ٹیوب بچہ برطانیہ میں ہوا تو کسی نے اس کو سچ ماننے سے انکار کیا، تو کسی نے اسے پر تنقید کی یہاں تک کہ انڈیا کا پہلا ٹیسٹ ٹیوب بچہ پیدا کرنے والے ڈاکٹر سبھاش مکھوپادھیائے نے تو مسلسل تنقید اور ہراساں کیے جانے کے بعد تنگ آ کر بلآخر خود کشی ہی کر لی۔

ان کی کہانی کسی اور دن سنائیں گے لیکن ابھی بات کرتے ہیں ڈاکٹر راشد کی جن کا سفر بھی آساں ہرگز نہ تھا اور انھیں بھی کم و بیش اسی قسم کے رویوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن ڈاکٹر صاحب نے ناکامیوں اور تنقید کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے جب تک انھیں ان کے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہو گئی۔

آج پاکستان میں آئی وی ایف سے سالانہ ہزاروں بچے پیدا ہوتے ہیں لیکن جب ڈاکٹر راشد نے اس ٹیکنالوجی کو پاکستان میں متعارف کروانے کا سوچا تو اس وقت اس سے متعلق پوری دنیا ہی میں آگاہی اور وسائل نہ ہونے کے برابر تھے۔

انھوں نے اس کے لیے آسٹریلیا خط لکھا جہاں دنیا کا تیسرا ٹیسٹ ٹیوب بچہ پیدا ہوا تھا اور ان سے اس حوالے سے ٹریننگ کی درخواست کی جو قبول کر لی گئی اور ڈاکٹر راشد اس کا کورس کرنے آسٹریلیا چلے گئے۔ وطن واپسی پر انھوں نے آئی وی ایف سنٹر قائم کیا جہاں اس علاج کا آغاز کیا گیا تاہم پانچ سال تک انھیں کوئی کامیابی نہ مل سکی۔

ڈاکٹر راشد کے مطابق انھیں اس علاج کے لیے کبھی بھی لوگوں کی تلاش نہیں کرنی پڑی اور اولاد کے خواہش مند جوڑے امید کی آس لیے ان کے پاس آتے رہے۔

‘میں نے ہمیشہ اپنے مریضوں کو سچ بتایا کہ ہمیں اس علاج میں کامیابی حاصل نہیں ہو رہی لیکن میرے پاس جو بھی جوڑا آتا اسے مجھ پر اور میری ٹیم پر پورا بھروسہ تھا اس لیے وہ کہتے ڈاکٹر صاحب بسم اللہ کریں ہمارا ہو جائے گا۔‘

ڈاکٹر راشد بتاتے ہیں کہ اس علاج کے نتیجے میں جب پہلا حمل ہوا تو ان کی ٹیم کے ایک فرد کا بھائی پاکستان کے بڑے اخبار میں کام کرتا تھا لہٰذا انھوں نے اس اخبار میں اس سرخی کے ساتھ کہ ‘پاکستان میں آئی وی ایف کا پہلا حمل ہو گیا ہے’ خبر چھپوا دی۔

ان کے مطابق اس خبر کے چھپنے کے بعد دس علما نے اس کے خلاف میڈیا میں بیانات جاری کیے اور اسے حرام اور امریکی سازش قرار دیا۔

ڈاکٹر راشد نے اس وقت اس تنقید کا جواب دینا مناسب نہ سمجھا کیونکہ حمل کے کچھ عرصے بعد ہی انھیں معلوم ہوا کہ یہ ‘اکٹوپک’ حمل ہے اس لیے اسے ضائع کرنا پڑا۔

جب آئی وی ایف کے ذریعے دوسری بار حمل ہوا اور اسے چند ماہ گزر گئے تو ڈاکٹر راشد نے ان تمام علما جنھوں نے آئی وی ایف پر تنقید کی تھی کے پتے نکلوائے اور ہر ایک کے پاس جا کر پوچھا کہ آیا وہ آئی وی ایف عمل کے بارے میں جانتے ہیں بھی یا نہیں تو ان انھیں معلوم ہوا کہ وہ اس سے متعلق آگاہی نہیں رکھتے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ‘اس وقت پاکستان میں بائی پاس نیا نیا شروع ہوا تھا تو میں نے انھیں کہا کہ اگر مرد کے دل کی نالیوں میں موجود خلل کو دور کرنے کے لیے دل کا بائی پاس ہو سکتا ہے تو عورت کی بچہ دانی میں موجود خلل کو دور کرنے کے لیے بھی تو بائی پاس ہو سکتا ہے؟ جس پر ان علماء کو میری بات سمجھ آئی۔‘

پانچ سال کی لگاتار کوششوں کے بعد جب ڈاکٹر راشد اور ان کی ٹیم کو کامیابی حاصل ہوئی اور پاکستان کے پہلے ٹیسٹ ٹیوب بچے کی پیدائش کا دن قریب آیا تو انھوں نے اس کے لیے خاص انتظامات کیے۔

اس بچے کی پیدائش کے لیے چھ جولائی 1989 کا دن منتخب کیا گیا کیونکہ ڈاکٹر راشد کی ٹیم سمجھتی تھی کہ پانچ جولائی کیونکہ ضیا الحق نے مارشل لا لگایا تھا اس لیے شاید کچھ لوگ اس دن کو پسند نہ کرتے ہوں۔

اس کے علاوہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ میڈیا بچے کے والدین کو سوالات پوچھ کر اور تصاویر لے کر ہراساں کرے اس لیے انھوں نے اس دن پانچ بچے پیدا کئے تاکہ یہ معلوم نہ ہو سکے کہ ان میں آئی وی ایف یا ٹیسٹ ٹیوب بے بچہ کون سا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’جب اگلے دن یہ خبر اخبار میں چھپ گئی کہ پاکستان کا پہلا ٹیسٹ ٹیوب بچہ پیدا ہوا ہے تو بچے کے والد نے مجھے آ کر کہا کہ ڈاکٹر صاحب یہ خبر پڑھ کر میرا باپ (بچے کا دادا) پوچھ رہا تھا کہ یہ حرام کام تم نے تو نہیں کیا؟’

آئی وی ایف کیا ہے اور اس پر کتنی لاگت آتی ہے؟

کسی مرد یا عورت میں موجود نقص یا پیچیدگی کی وجہ سے جب مرد کا سپرم عورت کے ایگز تک نہ پہنچ سکے اور اس کی وجہ سے قدرتی طور پر بچے کی پیدائش ممکن نہ ہو تو عورت کے ایگز اور مرد کے سپرمز کو ان کے جسم سے باہر نکال کر ان کو لیبارٹری میں ملا دیا جاتا ہے جس کے دو دن بعد اسے عورت کی بچے دانی میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں یہ عام حمل کی طرح نشو و نما پاتا ہے اور نو ماہ کے بعد بچے کی پیدائش ہوتی ہے۔

تاہم یہ آئی وی ایف کی صرف ایک قسم ہے۔ اس کے علاوہ ‘سروگیسی’ اور عطیہ شدہ ڈونر ایگ اور عطیہ شدہ ڈونر سپرم کے ذریعے بھی بے اولاد جوڑوں کو اولاد کی نعمت کا حصول ممکن ہے۔

سروگیسی کے عمل میں مرد کا سپرم اور عورت کا ایگ ملا کر کسی تیسری خاتون کی بچے دانی میں رکھ دیا جاتا ہے جہاں نو ماہ تک نشوونما پانے کے بعد بچے کی پیدائش ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ اگر مرد کا نطفہ یا عورت کے ایگ کا معیار صحت مند بچے پیدا کرنے کے لیے کافی نہیں تو اس کی جگہ عطیہ شدہ (ڈونر) کسی اور کے ایگز یا سپرمز سے بھی بچے کی پیدائش ممکن ہے۔

یعنی اگر بیوی کے ایگز کا معیار ٹھیک نہیں تو اس کی جگہ کسی اور کا ایگ شوہر کے سپرم کے ساتھ ملایا جا سکتا ہے اور اسے بیوی کی بچے دانی یا کسی اور عورت (سروگیٹ ماں) کی بچے دانی میں نشونما کے لیے رکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر مرد کے سپرم کا معیار اچھا نہیں تو بیوی کے ایگز کو کسی دوسرے مرد کے سپرمز کے ساتھ ملایا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں آج کل آئی وی ایف ذریعہ علاج کی لاگت چار لاکھ روپے تک ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ہر دس میں سے ایک عورت کو لاحق لاعلاج درد ہے کیا؟

’تم مرتے مرتے بچی ہو، اب کبھی بچہ پیدا کرنے کی کوشش نہ کرنا‘

اکٹوپک حمل: ’اتنے حمل ضائع ہوئے کہ مجھے لگا اب میں ماں نہیں بن پاؤں گی‘

وہ خاتون سائنسدان جس نے انسان کی تولیدی زرخیزی کو بدل کر رکھ دیا

آئی وی ایف کے ذریعے ‘بیٹا’ یا ‘بیٹی’ کا انتخاب بھی ممکن ہے؟

آئی وی ایف کے ذریعے پیدا ہونے والے بچے کی جنس کا انتخاب بھی ممکن ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستانی معاشرے میں زیادہ تر افراد بیٹے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور اکثر اوقات اس خواہش کے تکمیل کے لیے ایک کے بعد ایک بیٹی پیدا کرنے اور ایک سے زیادہ شادیاں کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

اس لیے پاکستان میں ‘فیملی سپیسنگ’ کے تحت آئی وی ایف کروانے والے جوڑا بچے کی جنس کا انتخاب کر سکتا ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے آئی وی ایف سینٹر حمید لطیف ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر راشد لطیف کے مطابق ان کے پاس آنے والے جوڑے اس کا انتخاب تو کر سکتے ہیں کہ انھیں آئی وی ایف کے ذریعے بیٹا چاہیے یا بیٹی لیکن اس کے لیے لازمی ہے کہ بیٹے کے خواہشمند افراد کی پہلے ایک بیٹی ہو۔

دنیا کے دیگر مملک میں بھی آئی وی ایف سے ہونے والے بچے کا جنس کا انتخاب کیا جا سکتا ہے لیکن یہ انتخاب والدین کی ذاتی پسند یا نا پسند پر نہیں ہوتا بلکہ والدین میں موجود کسی جینیاتی بیماری کی بچے میں متوقع منتقلی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

کچھ ایسی جینیاتی بیماریاں ہیں جس کا خطرہ لڑکیوں میں زیادہ ہوتا ہے اور کچھ ایسی ہیں جس کا خطرہ لڑکوں میں زیادہ ہوتا ہے تو انھیں دیکھتے ہوئے بیٹے اور بیٹی کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

کیا پاکستانی قوانین اور اسلام میں آئی وی ایف اجازت ہے؟

سنہ 1978 میں جب دنیا کا پہلا ٹیسٹ ٹیوب بچہ پیدا ہوا تو 1980 میں مصر کی جامعہ الازہر نے اس حوالے سے فتویٰ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اگر آئی وی ایف میں استعمال ہونے والے ایگز بیوی اور سپرمز شوہر کے ہوں تو اس سے پیدا ہونے والا بچہ جائز اور شریعت کے مطابق ہو گا۔

اس لیے جب پاکستان میں پہلے ٹیسٹ ٹیوب بچے کی پیدائش ہوئی تو اگرچہ بہت سے علما نے انفرادی طور پر اس پر اعتراضات اٹھائے لیکن جامعہ الازہر کے اس فتویٰ کی بنیاد پر ریاستی سطح پر آئی وی ایف سے متعلق 2015 تک کوئی اعتراضات سامنے نہیں آئے۔

لیکن پھر 2015 میں ایک جوڑے نے آئی وی ایف سے پیدا ہونے والے بچے کی تحویل سے متعلق مسئلہ لے کر وفاقی شریعت کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر فاروق صدیقی اور ان کی بیوی کئی سال سے اولاد سے محروم تھے لہٰذا انھوں نے اخبار میں اشتہار دیا کہ انھیں بچے کی پیدائش کے لیے کرائے کی کوکھ درکار ہے یعنی ان کے ہونے والے بچے کی سروگیٹ ماں بنے اور اس کے لیے اس عورت کو معاوضہ بھی دیا جائے گا۔

اس اشتہار کو پڑھ کر فرزانہ ناہید نے ڈاکٹر فاروق صدیقی سے رجوع کیا اور ان کے بچے کی ماں بننے پر آمادگی ظاہر کی۔ ڈاکٹر فاروق کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ناہید سے زبانی معاہدہ کیا کہ وہ ان کے بچے کو پیدا کریں گی جس کے لیے انھیں معاوضہ دیا جائے گا۔

ڈاکٹر فاروق کے مطابق انھوں نے فرزانہ کو ڈاکٹر کے معائنے اور علاج کے لیے پچاس ہزار روپے دیے۔ فرزانہ نے نو ماہ بعد ایک بیٹی کو جنم دیا لیکن بیٹی کی پیدائش کے بعد انھوں نے بچی ڈاکٹر فاروق اور ان کی بیوی کو دینے سے انکار کر دیا۔

ادھر فرزانہ کا دعویٰ تھا کہ وہ ڈاکٹر فاروق کی بیوی ہیں لہٰذا ڈاکٹر فاروق انھیں بچی کا ماہانہ نان و نفقہ دیں جبکہ ڈاکٹر فاروق کا کہنا تھا کہ خاندان والوں کی تنقید سے بچنے کے لیے انھوں نے فرزانہ سے شادی کا ڈھونگ رچایا لیکن کبھی شادی نہیں کی اور فرزانہ نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے لہٰذا عدالت بچی کو ڈاکٹر فاروق کی تحویل میں دے۔

خاتون

فائل فوٹو

وفاقی شریعت کورٹ نے 2017 میں اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے آئی وی ایف کو صرف اس صورت میں پاکستانی قانون اور شریعت کے مطابق قرار دیا اگر اس میں استعمال ہونے والا ایگ اور بچہ دانی دونوں بیوی کے جبکہ سپرم شوہر کا ہو۔

شریعت کورٹ نے اس فیصلے میں عطیہ شدہ ڈونر ایگز اور عطیہ شدہ ڈونر سپرمز سے پیدا ہونے والے بچے کو ناجائز قرار دیا۔

اس کے ساتھ ساتھ سروگیسی یعنی کرائے کی کوکھ سے بچے کی پیدائش کو غیر قانونی قرار دیا اور تعزیرات پاکستان میں ترمیم کی سفارش کرتے ہوئے سروگیسی کو قابل سزا جرم قرار دینے کو کہا اور اس میں ملوث مرد، عورت اور ڈاکٹر کے لیے سخت سزا تجویز کرنے کی بھی سفارش کی۔

اس فیصلے میں عطیہ شدہ ایگز اور سپرم بینک رکھنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کرنے کو کہا گیا۔ شریعت کورٹ کے اس فیصلے کے مطابق آئی وی ایف سے پیدا ہونے والا بچے کا قانونی باپ وہ ہو گا جس کا سپرم ہو گا اور بچے کی قانونی ماں وہ ہو گی جس کا ایگ ہو گا۔

اس فیصلے میں کہا گیا کہ عطیہ شدہ ایگ یا سپرم سے پیدا ہونے والے بچے کے لیے شریعت کے طے شدہ وراثت کے اصولوں کا اطلاق مشکل ہو گا اس لیے یہ عمل شریعت قوانین کے منافی ہے۔

تاہم ایران اور لبنان میں عطیہ شدہ ایگز کے ساتھ بچے کی پیدائش کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے فتویٰ کے مطابق ایگز اور سپرمز کو عطیہ کرنا جائز ہے۔ شیعہ مکتبہ فکر میں سروگیسی کو بھی جائز قرار دیا گیا ہے اور سروگیٹ ماں کو رضاعی ماں سے تشبیہ دی گئی ہے۔

خاتون

پاکستان میں ہر پانچ میں سے ایک جوڑا بانج پن کا شکار

نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پاپولیشن سٹڈیز کے مطابق پاکستان میں 22 فیصد جوڑے بانجھ پن کا شکار ہیں یعنی ہر پانچ میں سے ایک جوڑا قدرتی عمل سے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے اور انھیں اس کے لیے مدد درکار ہے۔

ڈاکٹر راشد لطیف کہتے ہیں کہ اگرچہ بانجھ پن کے امکانات عورت اور مرد میں ایک جتنے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اولاد نہ ہونے کے لیے زیادہ تر بیوی کو قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے اور مرد اپنا ٹیسٹ کروانے سے بھی کتراتے ہیں۔

ڈاکٹر راشد کا اپنے پاس آنے والے جوڑوں کو ہمیشہ مشورہ ہوتا ہے کہ پہلے مرد اپنا کے ٹیسٹ کروائیں کیونکہ ان کے ٹیسٹ کی قیمت بھی کم ہے اس میں کوئی تکلیف بھی نہیں ہوتی اور نتائج بھی جلدی آ جاتے ہیں جبکہ عورت کے ٹیسٹ میں تکلیف بھی ہوتی ہے اور اس کے لیے وقت اور پیسہ زیادہ درکار ہوتی ہے۔

لیکن ڈاکٹر راشد مانتے ہیں کہ پاکستان میں دستیاب آئی وی ایف علاج ان تمام جوڑوں کے لیے موثر نہیں شاید یہی وجہ ہے کہ اولاد کے خواہشمند افراد اس کے علاج کے لیے ملک سے باہر بھی جاتے ہیں یا پھر غیر قانونی طریقوں کا سہارا لیتے ہیں۔

پاکستان میں آئی وی ایف کی نگرانی کا فقدان

پاکستان میں آئی وی ایف کے آغاز کو 37 سال ہو گئے ہیں لیکن پاکستان میں اب تک کتنے بچے آئی وی ایف سے پیدا ہوئے ہیں اور ہر سال کتنے جوڑے بانجھ پن کے علاج کے لیے آئی وی ایف کا انتخاب کرتے ہیں اور اس وقت ملک میں کتنے آئی وی ایف سینٹرز ہیں اس پر کوئی سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں۔

تاہم ایک غیر سرکاری اندازے کے مطابق سنہ 1989 سے اب تک پاکستان میں دس ہزار سے زائد بچوں کی پیدائش آئی وی ایف کے تحت چکی ہے جبکہ 200 سے زیادہ آئی وی ایف سینٹرز اس وقت پاکستان میں کام کر رہے ہیں۔

پاکستان کے سب کے بڑے آئی وی ایف سنٹر حمید لطیف کے مطابق ان کے پاس سالانہ ایک ہزار جوڑے آئی وی ایف علاج کروانے کے لیے آتے ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت کی جانب سے ان سینٹرز کی باقاعدہ نگرانی کا کوئی نظام موجود نہیں اور نہ ہی اس بارے میں کوئی قانون سازی کی گئی ہے۔

اگرچہ شریعت کورٹ کے 2017 کے فیصلے میں بھی حکومت کو اس پر باقاعدہ قانون سازی کرنے کا کہا گیا تھا۔

تاہم اس سب کے درمیان اُم حبیبہ کی آئی وی ایف سے جڑی امید کچھ کمزور ہوتی جا رہی ہے۔

وہ کہتی ہیں ’میں 35 برس کی ہوں اور بڑھتی عمر کے ساتھ بچے کی پیدائش سے متعلق پیچیدگیوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بڑھتی عمر کے ساتھ آئی وی ایف کی کامیابی کے امکانات کم ہو جائیں گے اس لیے اب میرے پاس یہی راستہ بچا ہے کہ میں عطیہ شدہ ایگز کے ساتھ ہونے والے آئی وی ایف بچے کی پیدائش کے لیے ملک سے باہر جاؤں جو کہ شاید میری استطاعت سے بھی بہت باہر ہے لیکن انسان اولاد کے لیے کیا کیا نہیں کرتا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp