انٹارکٹیکا میں نیا سبزہ دریافت، جو پینگوئن کے پاخانے پر زندہ رہتا ہے

سوتک بسواس - بی بی سی نامہ نگار، انڈیا


انڈین سائنسدانوں نے انٹارکٹیکا میں سبزے کی ایک نئی نسل دریافت کی ہے۔

ماہرینِ قطبی حیاتیات سنہ 2017 میں برف سے ڈھکے ہوئے براعظم کی ایک مہم کے دوران کائی کی ایک نوع سے ٹکرائے۔

اس پودے کی شناخت کا عمل کافی محنت طلب تھا اور یہی وجہ ہے کہ سائنسدانوں کو اس بات کی تصدیق کرنے میں پانچ سال لگے کہ اس نوع کی پہلی بار دریافت ہوئی ہے۔

اس دریافت کے بارے میں تفصیل پر مبنی مقالے کو صف اول کے بین الاقوامی جریدے جرنل آف ایشیا پیسیفک بائیو ڈائیورسٹی میں شائع کیا گیا۔

سنٹرل یونیورسٹی آف پنجاب کے ماہرین حیاتیات نے اس نوع کا نام ‘برئم بھارتیائینس’ رکھا ہے۔ ‘بھارتی’ ہندو عقیدے کے مطابق علم کی دیوی ہیں اور انڈیا کے انٹارکٹک میں ایک ریسرچ سٹیشن کا نام بھی ہے۔

ماہر حیاتیات پروفیسر فیلکس باسٹ نے جو انڈین سائنسدانوں کی اس بر اعظم میں چھ ماہ طویل مہم کا حصہ تھے جنوری 2017 میں بحر ہند کی سمت نظر آنے والے لارسمین پہاڑیوں میں گہرے سبز رنگ کی اس تخلیق کو دریافت کیا۔ یہ ‘بھارتی’ کے قریب واقع ہے جو کہ دنیا کا ایک دور دراز ریسرچ سٹیشن ہے۔

پودوں کو نائٹروجن کے ساتھ ساتھ پوٹاشیم، فاسفورس، سورج کی روشنی اور پانی کی ضرورت ہے۔ انٹارکٹیکا کا صرف ایک فیصد حصہ برف سے پاک ہے۔ پروفیسر باسٹ نے کہا کہ ’بڑا سوال یہ تھا کہ چٹانوں اور برف کے امتزاج میں یہ کائی کیسے زندہ رہتی ہے۔‘

سائنس دانوں نے پایا کہ یہ کائی بنیادی طور پر ان علاقوں میں اگتی ہے جہاں پینگوئن بڑی تعداد میں نسل بڑھاتے ہیں۔ پینگوئن کے پاخانے میں نائٹروجن ہوتی ہے۔ پروفیسر باسٹ کا کہنا تھا ‘بنیادی طور پر یہاں کے پودے پینگوئن کے پاخانے پر زندہ رہتے ہیں۔ اس سے گوبر کے آب و ہوا میں گھلنے سے روکنے میں مدد ملتی ہے۔’

Antartica

Felix Bast
تحقیقی ٹیم کے رکن پرفیسر باسٹ

اور سورج کی روشنی کا کیا؟ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اُنھیں ابھی تک پوری طرح سے سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ موسم سرما کے چھ مہینوں میں سورج کی روشنی کے بغیر اور درجہ حرارت کے منفی 76 سینٹی گریڈ تک گر جانے کے باوجود یہ پودے گہری برف کے نیچے کیسے زندہ رہتے ہیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ کائی اس وقت تقریباً ایک بیج کی حد تک سوکھ جاتی ہوگی اور ستمبر میں گرمیوں کے دوران سورج کی روشنی پڑنے پر دوبارہ پُھوٹ پڑتی ہوگی۔ سوکھی ہوئی کائی بھی پگھلنے والی برف سے پانی جذب کرتی ہوگی۔

نمونے جمع کرنے کے بعد انڈین سائنسدانوں نے اگلے پانچ سال کا وقت اس پودے کے ڈی این اے کی ترتیب سمجھنے اور اس کا دوسرے پودوں سے موازنہ کرنے میں صرف کیا۔

اب تک سب سے خشک، اور انتہائی سرد اور تیز ہواؤں والے براعظم انٹارٹیکا سے کائی کی 100 سے زیادہ انواع دریافت کی جا چکی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

وہ لاپتہ براعظم جس کو تلاش کرنے میں 375 سال لگے

انٹارکٹکا میں پگھلتا ’ڈومز ڈے‘ گلیشیئر

زمین کا سب سے گہرا مقام کہاں دریافت ہوا؟

’لاہور جتنا بڑا‘ برفانی تودہ انٹارکٹیکا سے ٹوٹ کر علیحدہ

سائنسدانوں کے لیے پریشان کن بات ماحولیاتی تبدیلی کے وہ ‘تشویش ناک شواہد’ تھے جو انھوں نے اس مہم کے دوران دیکھے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے پگھلتے گلیشیئر اور پگھلے ہوئے برفانی پانی کی جھیلیں دیکھیں۔

پروفیسر باسٹ کا کہنا تھا ’انٹارٹیکا سرسبز ہوتا جارہا ہے۔ پودوں کی متعدد سمندری نسلیں جو پہلے اس منجمد براعظم میں زندہ نہیں رہ سکتی تھیں اب براعظم کے گرم ہونے کی وجہ سے ہر جگہ نظر آتی ہیں۔‘

سنٹرل یونیورسٹی آف پنجاب کے ایک ممتاز ماہر حیاتیات اور وائس چانسلر پروفیسر راگھویندر پرساد تیواری نے کہا کہ ’انٹارکٹیکا کے سرسبز ہونے کی دریافت پریشان کن تھی۔‘

’ہم نہیں جانتے کہ برف کی دبیز چادروں کے نیچے کیا ہے۔ یہاں مرض پیدا کرنے والے جرثومے ہوسکتے ہیں جو گلوبل وارمنگ کی وجہ سے برف پگھل جانے پر سامنے آسکتے ہیں۔‘

براعظم میں تحقیقی سٹیشن کے قیام کے بعد چار دہائیوں میں یہ پہلی بار ہوا ہے جب انڈیا نے کسی پودے کی قسم کو دریافت کیا ہے۔

یہاں پہلا سٹیشن 1984 میں قائم کیا گیا تھا اور 1990 میں برف کے نیچے دب جانے کے بعد اسے ترک کر دیا گیا تھا۔ میتری اور بھارتی نامی دو سٹیشنوں کو 1989 اور 2012 میں شروع کیا گیا تھا اور یہ پورا سال کام کرتے رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp