ڈی آئی جی کی محبوبہ (1)


پہلے میرے تین چار بیانات سن لیں تاکہ اس قصے کو پڑھتے وقت آپ کو میرے حوالے سے کوئی ویاکو لتا ( ہندی میں کنفیوژن) نہ ہو۔ مجھے ایسی بڑی گنجلک باتیں کرنے کا بہت شوق ہے مگر میں آگے چل کر بہت سادہ انداز اختیار کروں گی۔ آپ اگر توجہ اور دل چسپی سے میری داستان شرارت سنیں گے تو یہ چاروں باتیں آپس میں گہرا تال میل رکھتی ہیں۔

پہلی بات۔ یہ میرا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ کوئی شادی اچھی یا بری تو ضرور ہو سکتی ہے مگراس میں لذت اور مزے نہ تلاش کریں۔ شادی دھندہ ہے۔ پارٹنر ٹھیک چلیں گے تو دھندہ ٹھیک چلے گا۔ ویسے میں ایک راز کی بات بتا دوں ایک پارٹنر لازماً Cheat کرتا ہے۔ میری شادی بھی اسی طرح کی ہے۔

دوسری بات۔ جانے کیوں سہاگ رات کی صبح، غسل غیر واجب کے دوران جب گرم شاور کے قطرے میرے بدن پر گرے اور مجھے لگا کہ دھوم دھڑکوں اور ابٹن میک اپ کی دھول جو مجھ پر ملگجے بوجھل خوابوں کی صورت میں جم گئی تھی وہ شیمپو صابن کے جھاگ سے دھل رہی ہے تو یہ ادراک ہوا کہ میں تنہا نہ سہی پر اکیلی ضرور ہوں۔ اس خیال کو میں نے اپنے بدن کو آئینے میں تکتے ہوئے شاور کے نیچے بغیر جنبش کیے دس منٹ تک سوچا اور خود کو باور کرایا کہ نی بینو

چھڑے چھانڈ لوگ سدا کے آزاد۔ یعنی A single person is always free person

تیسری بات کسی پر بھروسا یا اعتماد نہ کرنے کی بس دو ہی وجوہات ہوتی ہیں۔ آپ یا تو انہیں اچھی طرح سے جانتے ہیں یا آپ انہیں ٹھیک سے نہیں جانتے۔ جن تین مردوں کو میں جانتی ہوں اور جن سے میرے تعلقات کا بیان ہوگا ان تینوں کو میں ایسے جانتی پہچانتی ہوں جیسے اپنے بدن کے ان حصوں کو جن پر میری باآسانی نگاہ پڑ سکتی ہے۔

چوتھی اور آخری بات۔ کچھ معاشقے دھرتی کی مٹی دھول جیسے ہوسکتے ہیں۔ انہیں آپ ادھر ادھر پھینک سکتے ہیں۔ چھپا سکتے ہیں مگر ان کا وجود دھرتی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غائب نہیں کر سکتے۔ ٹیپو کہتے تھے (یہ نام پلیز یاد رکھ لیں )

All water is old water

میری زندگی میں تین مرد، ایک معاشقہ اور دو عدد شادیاں ایسی ہی دھول مٹی ہیں۔ جنہیں میں غائب نہیں کر پائی۔

آئیں میں آپ سے اپنا تعارف کراؤں۔

میرا نام سبین ہے۔ میرے کے ابو کی تقلید میں آپ بھی مجھے آئندہ بینو پکاریں گے۔

جیمز بانڈ کی فلمیں دیکھی ہیں نا آپ نے۔ سن ستر بہتر کی دہائی کی اصلی جیمز بونڈ والی۔ ابو کہتے تھے ابھی سنیما میں ابھی ہم اپنی سیٹ تلاش ہی کر رہے ہوتے تھے کہ فلم میں گولی وج (پنجابی۔ چل جانا) جاتی تھی۔ اب آپ پوری فلم میں قاتل کو ڈھونڈتے پھریں۔ کئی دفعہ فلم دیکھنی پڑتی تھی اور ایک دفعہ ناول بھی پڑھنا پڑتا تھا تب کہیں جاکر معما کھلتا تھا۔

اس سے پہلے کہ کہانی کے اندھیرے سنیما ہال میں آپ کا دماغ بھی اپنا سیٹ نمبر تلاش کرے میں بھی اک گولی وجا دیتی ہوں۔

میری زندگی میں لے دے کے کل ساڑھے تین ہی مرد آئے ہیں۔ ایک مرد یعنی میرے میاں نے دو دفعہ انٹری ماری ہے۔ میں اسے مگر ایک ہی شمار کرتی ہوں۔ آدھا مرد میرا بیٹا ہے۔ اوزان۔ ترکش نام ہے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے داستان گو۔ ظہیر، میرے میاں اسے پیار سے زونی کہتے ہیں۔ ایک میری دو سال کی بیٹی بھی ہے اس کا نام ماہیما ہے۔ پاسپورٹ پر اس کا نام ماہیما محمود راج ہے۔ ماہیما کا مطلب ہندی میں عظمت ہوتا ہے۔ ہم اسے ماہی پکارتے ہیں۔ وہ بھی یہاں وینکور۔ کینیڈا میں ہی پیدا ہوئی تھی۔ کل ملا کے ہمارے دو بچے ہیں دونوں ہی ہماری کینیڈا آمد کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔

باقی مردوں کا بھی ذکر ہو جائے گا اتنی شتابی کاہے کی؟ اب میں، میرے میاں ظہیر، ہمارے پرانے مہربان ڈی۔ آئی۔ جی محمود ٹوانہ صاحب۔ جنہیں میں پیار سے تھری ایم یعنی محمود مغفور و مفرور کہتی ہوں۔ انہیں یہ نام بہت پسند ہے۔ ہم سب مل جل کر وینکور میں ہی رہتے ہیں۔ وینکور کینیڈا میں مہاجرین کا پسندیدہ علاقہ ہے، مرطوب، شانت اور موسم کی چیرہ دستیوں سے محفوظ۔ ٹوانہ صاحب نے نیب اور دیگر ایجنسیوں کے ڈر سے حلیہ بھی بدل لیا ہے۔

ہمارے افسر عالی مقام، ٹوانہ جی جن دنوں لاہور میں ڈی ٓآئی جی ہیڈ کوارٹر کی مال بناؤ پوسٹنگ پر تھے انہوں اپنا حلیہ بالکل تبلیغیوں جیسا بنا رکھا تھا۔ ملتان میں ایسے نہیں تھے قدرے چھیل چھبیلے ہوتے تھے۔ یہاں لاہور والی پوسٹنگ میں تو بس نہیں چلتا تھا ورنہ مفتی صاحبان والا سفید اور لال چیک کا رومال جسے عرب کوفیہ کہتے ہیں۔ وہ اپنی پولیس کیپ کے نیچے یاسر عرفات مرحوم کی طرح ڈال لیتے۔ یہ حلیہ، فون پر نعتوں والی رنگ ٹونز، بات بے بات مولانا طارق جمیل کے حوالے یہ مزارات کے چکر، ۔ ان سب کی پشت پرایک بڑا خفیہ ایجنڈا تھا۔ دو دفعہ تو وہ مجھے اور میرے میاں ظہیر کو بھی لاہور کے مزارات پر بچے کی منت مانگنے کے لیے لے گئے۔

یہاں وینکور آن کر ایک دم بدل گئے ہیں۔ گھر بھی سری لنکن تاملوں کے کسی محلے میں لے رکھا ہے۔ نام میں خاصی تبدیلی کر کے انہی کے جیسا، راج محمود اچاری رکھ لیا ہے۔ ٹوانہ کو سرے سے غائب ہی کر دیا ہے۔ انہیں ا کثر لوگ اب راج اور اچاری جی کے نام سے پہچانتے ہیں۔ محمود ٹوانہ کو یہاں کوئی نہیں جانتا۔ مجھے تو شک ہے کہ ان کے پاس پاسپورٹ بھی سری لنکا کا ہے۔ سنا ہے کوئی سیکسی سی تامل عورت بھی گھر میں ڈالی ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ اوپن ریلیشن شپ میں رہتے ہیں۔

پاکستان سے ہمارے باجماعت فرار کی وجہ یہ بنی کہ پولیس کی بہت ساری سرکاری زمین حضرت اچاری جی نے ایک طاقتور بلڈر کو الاٹ کردی تھی۔ ڈیل میں چیف منسٹر اور آئی جی صاحب بھی شامل تھے۔ الزام ان بے چاروں گریڈ بیس انیس کے نچلے افسروں پر آیا۔ ایک ڈی، سی صاحب تو دھرے بھی گئے۔ بلڈرز کی طرف سے ساری ادائیگی کیش میں تھی۔ انہوں نے ظہیر کو کراچی بھیج کر یہ رقم ہارون منی چینجر کے ذریعے حوالہ ہنڈی کرا کے کینیڈا بھیج دی۔ اس وجہ سے ظہیر کو ایڈوانس پارٹی بنا کر فرار بھی کرایا۔ یہاں وینکور میں حالات ساز گار تھے۔

ملتان میں جہاں سے ہم کینیڈا کی جانب مفرور ہو گئے میری یہاں آمد اور سکونت کو قانونی بنانے کے لیے لاہور میں ایک خفیہ نکاح نامہ کا سوانگ رچایا گیا۔ میرا پاسپورٹ بھی بطور میاں بیوی کے بنوا لیا۔ کردار کے اتنے اچھے ہیں کہ نکاح نامہ ہوتے ہوئے بھی، یہ جان کر کہ ظہیر کو انہوں نے کراچی سے کینیڈا بھجوایا ہے۔ مجھے سے دست درازی میں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔ حضرت نے مجھے اس وقت تک ہات تک نہیں لگایا جب تک میرے والد اور ظہیر کی باقاعدہ رضامندی سے نکاح نہ پڑھ لیا گیا۔ ایجاب و قبول ایک مولوی صاحب کی اعانت اور گواہوں کی موجودگی میں ہوا۔ سلامی، مہر، نان نفقہ انگوٹھی سب ہی مرحلے طے پائے۔ تھری ایم یعنی محمود مغفور و مفرور کی میں اصلی بیوی تھی اور وہ وظیفہ زوجیت ادا کرنے کے مستحق و مجاز تھے۔ میں نے ماہی والے دنوں میں پوچھا کہ لاہور میں وہ جو فضائیہ کی زبان میں نچلی پروازیں ہیں وہ تو کیں مگر وظیفۂ زوجیت کیوں نہ ادا کیا تو شریف انفس انسان کہنے لگا

”لاہور میں تو نکاح نامہ جعلی تھا۔ نکاح خواں بھی اصلی نہ تھا بلکہ تھانے کا پولیس والا تھا جو کسی تھانے سے جڑی مسجد میں رشوت کی رقم جیب میں ڈال کر اہل ایمان کو بطور موذن حی علی الفلاح، حی علی الصلوۃ کی جانب بلاتا تھا۔ یہاں تم میری Conjugal Partner ہو۔ کینیڈا کے قانون کے حساب سے میری بیوی۔ اسلام کہتا ہے تم کسان ہو اور عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں۔ انہیں جیسے جی چاہے برتو۔ تم پر کوئی پابندی نہیں۔ میں نے تنک کر کہا مسلمان شوہر وہ ظالم بے مروت کسان ہیں جو اپنی کھیت کو جوتے بھی مارتے ہیں۔ اس پر تیزاب بھی پھینکتے ہیں۔ کہنے لگے جانو سیکس کے ٹائم پر کڑوی باتیں نہیں کرتے۔

Hold me tight and always be mine
میں آپ کو ایک راز کی بات بتاؤں۔ ان پولیس والوں میں Sense of Properiety بہت ہوتا ہے۔ اب میں آپ کو اتنے مشکل الفاظ اردو میں کیسے سمجھاؤں۔ اس کا مطلب ہے ہر شے اپنے معیار اور ضابطوں کے مطابق ہو۔ آملیٹ کھاتے وقت بھی یہ پہلے مرغی کا نکاح نامہ چیک کرلیتے ہیں۔

یہ لڑکی بینو تو نہیں لیکن کچھ کچھ ملتی ضرور ہے مجھ سے

ایک بات اور جس سے آپ کی الجھن ختم ہو۔ کینیڈا کے قانون میں Conjugal Partner اسے مانا جاتا ہے جس مرد یا عورت کا ازدواجی تعلق ایسا ہو جو کینیڈا سے باہر ایک سال سے قائم ہو۔ یہ نکاح نامہ تاریخ کے حساب سے جس دن ہم کینیڈا آئے پورے دو سال پرانا تھا۔ محمود مغفور و مفرور نے اپنی کینیڈا کی نیشنلٹی کراچی میں ایس پی والی پوسٹنگ کے دوران ہی پکی کر لی تھی۔ سندھ میں افسر کہیں ہوتا ہے اور کاغذات کہیں کے بن رہے ہوتے ہیں۔ یہ سندھ کے لوگ بہت چالاک ہیں۔

ایسی ادھوری گھمن پھیری باتوں کو کہ وہ میں اور ظہیر کس ازدواجی تکون میں فٹ ہیں، کریدنے کا نہ مجھے شوق ہے نہ میں آپ کو اس کی اجازت دوں گی۔ سو پلیز
Keep with in your limits

جب میں اور ظہیر بستر میں ساتھ ہوتے تھے تو ہم دونوں بہت سی باتیں کرتے تھے۔ وہ اس لیے بھی کہ کچھ اور زیادہ کرنے کو نہ تھا۔ جب ہم یعنی میں اور میرے ٹیپو سلطان جن کا ذکر آگے آئے گا ایک دوسرے کی بانہوں میں پگھل رہے ہوتے تو میں ظہیر کو بھی کبھی بھولے سے دماغ میں نہ لاتی۔ میری ساس کہتی ہے فیرنی کھاتے وقت قورمے کو یاد کرنے والے نہ فیرنی کا مزہ لوٹ سکتے ہیں نہ قورمے کا۔ ٹوانہ صاحب کے ساتھ بھی کم و بیش میں اسی پالیسی پر عمل پیرا ہوں۔ ٹوانہ جی کی جب مفروری چل رہی تھی، پہلوٹی کا زونی میرے پیٹ میں تھا۔ آپ کا دماغ فضول میں چل پڑا نا کہ یہ تخم پردازی کس کی تھی؟! ۔ سو کان کھول کرسن لیں زونی کے ابو ٹیپو ہیں۔ آ گیا قرار؟

ہاں میں بتا رہی تھی کہ جن دنوں ٹوانہ جی سندھ میں تعینات تھے۔ اس دوران ان کی اپنی بیگم کا عشق ایک جواں سال اے ایس پی سے چل نکلا۔ ظہیر کہتے ہیں یہ چکر ان کی سہالہ پوسٹنگ میں زور پکڑ گیا تھا۔ وہ افسر گوجر خان میں ایس پی تھا۔ ظہیر نے ایک دو دفعہ اس کو بیگم صاحب کے ساتھ دیکھا بھی تھا۔

مجھے یہ پریم کہانی ان کی پنجاب پوسٹنگ سے کچھ پرانی ہی لگتی تھی۔ کیوں کہ وہ ملتان کبھی نہیں آئیں۔ ممکن ہے یہ عشق کے جراثیم وہ کراچی سے لائی ہوں۔ کراچی اس لحاظ سے بہت برا شہر ہے۔ نہ کوئی قوم نہ مسلک۔ پٹھان مہاجروں سے مہاجر پنجابیوں اور پنجابی سب کے ساتھ سبزی پلاؤ اور رائتہ بن کر رل مل گئے ہیں۔

میں نے خبر نہیں نکالی کہ وہ بھی کراچی میں ملازم تھا کہ نہیں۔ اتنا ضرور پتہ ہے کہ پختون تھا اور بیگم کے علاقے مردان کا تھا۔ بیگم، محمود مفرور و مغفور کے آبائی گھر پر بھی قابض ہو گئی ہیں اور اسی سے شادی بھی کر لی۔ میں نے سنا ہے اس نئے والے سے بھی نہیں بنتی۔ کچھ عورتوں سے گھر میں ٹک کر نہیں رہا جاتا۔

ہم میں وینکور کے علاقے سرے میں برنابی کی طرف رہتے ہیں۔ اچاری جی نے اپنی لوکیشن بتانے سے منع کیا ہے۔ ظہیر اور ان کے باس راج محمود اچاری کا کاروبار فریزر پورٹ پرLong Haul Carriers کا ہے۔ بڑے بڑے ٹرک۔ محمود نے مجھے ایک چھوٹا سا ڈھابہ کھول دیا ہے۔ نام ہے بینو دا ڈھابہ۔ ہمارا کسٹم کیٹرنگ کا بھی اچھا کام ہے۔

آپ کو اگر بہت تجسس ہے تو میں بتا دیتی ہوں کہ ماہی کے ابو، ظہیر کے باس راج جی ہمارے محمود مفرور و مغفور ہیں۔ ہمارا معاملہ پیچیدہ ہے میں رہتی ظہیر کے ساتھ ہوں۔ اب میں ماہی کی پرائیویسی کی وجہ سے اس موضوع پر مزید گفتگو نہیں کروں گی۔ ظہیر اور راج بھی اس لب کشائی کا برا منائیں گے۔

ہمارے محلے سے دو گلیاں چھوڑ کر راج جی جیسے کئی سرکاری افسر رہتے ہیں کچھ مفرور ہو کر آئے ہیں۔ وردی، باوردی ہر نسل بھات زبان کے ہیں۔ کئی ایک نے تو دولت لوٹنے کے دوران ہی دوہری قومیت پکڑ لی تھی۔ یہاں بے خوف ہو کر چین سے مگر ناخوش جیتے ہیں۔ کینیڈا کا قومی ترانہ
O Canada!
Our home and native land!
اے کینیڈا ہمارا مسکن، ہمارا وطن گاتے ہیں۔
پاکستان میں سیاست دانوں، جرنیلوں، اور تھانے داروں کی کرپشن اور نا اہلی پر تبرہ بھیجتے ہیں۔ اللہ سبحانہ کو، تواب الرحیم مان کر سب نے داڑھیاں رکھ لیں ہیں۔ دوران ملازمت جو مال کمایا ہے وہ بیگمات کے کولہوں کی چربی اور ہوا کی خصوصیات (Properties) کی طرح ہے۔ وزن بھی رکھتا ہے۔ جگہ بھی گھیرتا ہے مگر دکھائی نہیں دیتا۔

ارے میں بھی کیسی جھلی ہوں اپنے بارے میں تو کچھ بتایا ہی نہیں اور درمیان سے داستان چھیڑ دی۔ پلیز ایک بات کا خیال رکھیں میں نے ٹوانہ صاحب، ظہیر، ماہی راج اور ایک اور اہم ہستی جن کا ذکر آگے آئے گا جو کچھ بھی بتایا ہے وہ اسٹیٹ سیکریٹ تو نہیں مگر اعتماد کا سلسلہ ہے۔ یہ نہ ٹوٹے خیال رکھیے گا۔

(جاری ہے)

اقبال دیوان
Latest posts by اقبال دیوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 99 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments