کیا ہم سب حریم شاہ ہیں؟


نسیمہ میرے بچپن کی دوست ہے۔ اس کا گھرا نہ قدامت پسند تھا، وہ اکثر اپنی ماں سے اپنے نام دقیانوسی پر جھگڑا کرتی۔ وہ اپنی سہلیوں سے سیمی کہلوانا پسند کرتی تھی۔ مگر میرے منہ پر نسیمہ ہی چڑھا تھا، جس پر وہ اکثر مجھ سے ناراض ہو جاتی تھی۔ اسے ماڈرن کپڑے پہننے اور امیر لڑکیوں جیسے رہن سہن رکھنے کا شوق تھا۔ خود بھی وہ امیر گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ باپ اس کا درزی تھا۔ گو کہ اب اس نے کاریگر رکھ لیے تھے۔ اور خود دکان پر نہیں بیٹھتا تھا۔

اور اب قیوم ٹیلر کے نام سے جانا جاتا تھا۔ بڑا بھائی جب میٹرک میں تین بار فیل ہوا تو ابا نے اسے ڈیفنس میں دکان کروا دی۔ پیسے کی ریل پیل تھی۔ ایک منزلہ مکان اب تین منزلہ ہو چکا تھا۔ اس غریب بستی میں سب سے اچھا گھر اسی کا تھا۔ لیکن وہ اپنی سہیلیوں کو یہ ہی تاثر دیا کرتی کہ وہ کلفٹن میں رہتی ہے۔ ہم بھی پہلے اسی محلے میں رہتے تھے۔ لیکن دادا کے مرنے کے بعد جائیداد کے حصے بخرے ہونے پر ابو کے ہاتھ میں جو رقم آئی، تو وہ گلشن میں فلیٹ خرید کر وہاں منتقل ہو گئے۔

وہ شہر کے جس مہنگے اسکول میں پڑھتی تھی وہ میرے گھر سے پیدل کے رستے میں تھا۔ اس کی ساری سہیلیاں ماڈرن تھیں، اکثر کی مائیں انہیں ڈراپ کرنے آتیں، یا وہ ڈرائیور کے ساتھ آتیں۔ گاڑیاں تو اس کے گھر میں بھی دو دو تھیں ایک بڑا بھائی لے کر چلا جا تا، دوسری چھوٹے بھائی کے استعمال میں رہتی۔ اس نے اپنے باپ سے لاکھ کہا کہ وہ ڈرائیونگ سیکھے گی لیکن ابا نے سختی سے منع کر دیا۔ ڈرائیور رکھنا ان کی نظر میں فضول جھنجٹ تھا۔ باپ نے اسے رکشہ لگوا دیا تھا۔

کالج میں جب بھی کوئی فنکشن ہوتا وہ اپنی کلاس فیلوز جیسا نظر آنے کے لیے ماڈرن لباس پہنتی۔ اس کے لیے اس نے یہ طریقہ نکالا تھا کہ پارٹی میں جا نے سے پہلے میرے گھر آتی۔ اپنے ساتھ لایا ہوا ماڈرن لباس پہنتی،

میک اپ کرتی اور ہاتھ میں پرس لہراتے پارٹی میں پہنچ جاتی۔ واپسی پر میرے گھر سے لباس تبدیل کر کے اپنے گھر چلی جاتی۔

اس کے لباس میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی انفرادیت ہوتی تھی، جو بعد میں موضوع بحث ہوتا۔ ایک مرتبہ اس نے بہت چھوٹا سا بلاؤز اور لہنگا پہنا۔ دوسرے روز گو کہ اسے میڈم نے آفس میں بلا کر وارننگ دی۔ ایک مرتبہ اس نے ایک مشہور ماڈل کی دیکھا دیکھی ایک آستین والی میکسی پہنی تب بھی وہ زیر بحث آئی۔ لیکن اس کی یہ انفرادیت اور اعتماد کئی لڑکیوں کے لیے باعث رشک بھی تھا۔ پر اس کے جیسی ہمت کس میں تھی۔

میرا یونی ورسٹی میں ایڈمیشن ہوا تو، اس نے میرا حوالہ دے کر بڑی مشکل سے ماں باپ، دادی دادا کو اپنے ایڈمیشن کے لیے منایا۔ یونی ورسٹی جا کر تو اس کے انداز ہی بدل گئے۔ لڑکوں کے ساتھ دوستیاں، ہاتھ پر ہاتھ مار کر بات کرنا، گھر جانے میں دیر ہو جاتی تو گھر والوں سے جھوٹ بول دیا کرتی کہ وہ میرے گھر رک گئی تھی، یا میرے ساتھ تھی۔ جب کہ اس سے میرا سبجیکٹ الگ ہونے کی وجہ سے ہمارا آمنا سامنا کم کم ہی ہو تا تھا۔

ایک روز وہ پریشانی کے عالم میں میرے پاس آئی اور اس نے بتایا کہ اس کے ماں باپ نے اس کا رشتہ طے کر دیا ہے۔ لڑکا گو کہ لندن سے پڑھ کر آیا ہے، لیکن مولوی ہے۔

میں نے اسے سمجھایا یہ کوئی برائی نہیں، ایک مرتبہ تم اس سے مل تو لو، کہنے لگی میں ملی ہوں اس سے، وہ مجھ سے بڑا متاثر ہے۔ مگر تم تو جانتی ہو، میں اندر سے وہ نہیں جو وہ مجھے سمجھتا ہے۔ میں ایسے شخص سے شادی کرنا چاہتی ہوں جو پینٹ شرٹ پہنتا ہو کلین شیو ہو، فلمیں دیکھتا ہو، گانے شوق سے سنتا ہو۔

پتہ ہے گاڑی میں سارے راستے قوالیاں اور نعتیں سنتی رہی ہوں۔ کہیں سے نہیں لگتا کہ وہ لندن سے پڑھ کر آیا ہے۔

اچھی بات ہے وہ اپنی اقدار نہیں بھولا۔ میں نے اسے یہ کہہ کر لاکھ سمجھانے کی کوشش کی مگر اس نے کہہ دیا کہ وہ جان دے دے گی مگر اس سے شادی نہیں کرے گی۔

پھر ایک دن اس نے بتایا کہ اسے اس کے خوابوں کا شہزادہ مل گیا ہے۔ پر اس کے گھر والے نہیں مان رہے، لیکن وہ بھی ضدی تھی، سب کو منا کر دم لیا۔ دھوم دھام سے شادی ہوئی ماں باپ نے ڈھیروں جہیز کے ساتھ ایک پلاٹ بھی دیا۔

اس کا شوہر روشن خیال تھا۔ وہ اس کے ساتھ بہت خوش تھی۔ جدید فیشن کے کپڑے پہننا، مخلوط پارٹیوں میں جانا اس کا معمول ہو گیا۔ مگر اب گزرتے وقت نے نسیمہ کو کافی برد بار اور سنجیدہ کر دیا ہے۔ درس کی محافل میں شرکت کرنے لگی ہے۔ قبر کے عذاب اور آخرت کے خوف نے اس کے دل میں ایسا گھر کیا ہے کہ ہر وقت تو بہ استغفار میں لگی رہتی ہے۔ اس کے تین بیٹے ہیں۔ دو کالج میں اور ایک یو نی ورسٹی میں ہے۔ اس کے میاں نے ایک یو ٹیوب چینل کھول رکھا ہے۔ اس کے چینل کی اسکرین پر ”بچے نہ دیکھیں“ یا ”صرف بالغوں کے لیے“ جیسی ہدایات آنے کی وجہ سے دیکھنے والوں کی کثیر تعداد ہے۔

میرے گھر آتی ہے تو اکثر مجھے میری بیٹیوں کے پہناووں پر انہیں ٹوکتی ہے۔ میری بیٹیاں جب اس سے ترکی بہ ترکی کرتی ہیں تو مجھے نصیحت کرتی ہے کہ میں انہیں دینی اقدار، اور کچھ تمیز تہذیب سکھاؤں۔

کل میرے گھر آئی تو لڑکیاں ہم ٹی وی کے ایوارڈ میں شرکا کے لباس پر اظہار خیال کر رہی تھیں۔

کہنے لگی، انجم مت دیکھنے دیا کرو لڑکیوں کو ایسے بے ہودہ پروگرام۔ میں نے بھی کل تھوڑا سا دیکھا، اتنی بے شرمی مجھ سے نہ دیکھی گئی، میں نے ٹی وی بند کر دیا۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ایسے بے حیائی پھیلانے والے چینل کو بند کیوں نہیں کیا جا تا۔

جی نسیمہ خالہ حریم شاہ بھی یہ ہی کہتی ہے۔ میری بڑی بیٹی جھٹ سے بولی۔
تو کیا غلط کہتی ہے۔
اٹ مینز خالہ یو ڈونٹ نو حریم شاہ۔
آئی نو ہر بیٹا، تمہارے خالو کے چینل کو برکت اسی کی وجہ ملی ہے۔ اللہ جس کو چاہے ہدایت دے۔
اٹ مینز وی آر آل حریم شاہ، خالہ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments