شاعری سے تعلق کیسے بنتا ہے


سکول کے زمانے میں میرا خیال تھا کہ کورس کی کتابوں کے علاوہ دنیا میں جو واحد کتاب ہے وہ قرآن ہے۔ باقی ڈائجسٹ ہوتے ہیں اس کے علاوہ شعر و شاعری اور لطیفوں کے پاکٹ سائز کتابچے جو ہر سال رمضان سے پہلے ایک پر اسرار سا شخص تھیلا اٹھائے سکول میں آتا اور پانچ روپے میں شاعری، لطیفوں کے پاکٹ سائز کتابچے کے علاوہ ایک عدد جنتری ہوتی تھی۔ اس جنتری میں پورے سال کا کیلینڈر، ستاروں کے احوال کے علاوہ کالا جادو سیکھنے کے طریقے اور الو کے خون سے تعویز لکھنے کا طریقہ وغیرہ شامل ہوتے تھے۔ تین کتابچوں کا سیٹ وہ پانچ روپے میں دیتا تھا اور میں اتنے پیسے ہر سال خاص طور پر جمع رکھتا تاکہ یہ سیٹ خرید سکوں۔

جنتری اور لطیفوں سے نہیں مجھے دلچسپی شاعری میں تھی۔ عید کارڈ پر لکھنے کے لئے عید کی مناسبت سے اشعار بھی خاص طور پر اس میں تلاش کیے جاتے۔

عید آئی ہے زمانے میں
علی گر پڑا غسل خانے میں
سویاں پکی ہیں سب نے چکھی ہیں
یاسر تم کیوں روتے ہو تمھارے لئے بھی رکھی ہیں
(یاسر کی جگہ کسی بھی دوست کا نام لکھا جا سکتا تھا)
عید الفطر پر یہ اشعار تقریباً ہر دوسرے عید کارڈ پر لکھے جاتے۔ شاعری کے ساتھ یہ میرا پہلا تعلق تھا۔

آٹھویں جماعت میں تھا جب پہلی بار سوچا کہ شاعری خود بھی کرنی چاہیے۔ ایک دوست کی سالگرہ پر نظم کے نام پر تک بندی کی۔ جب میں نے مکمل کر لی تو دشواری یہ کہ اب دکھاوں کسے۔ کون سنے اور کہے کہ اچھی لکھی ہے۔ میں کھیتوں کی جانب گیا جہاں میرا انڈر میٹرک دوست چارا کاٹ رہا تھا۔ میں نے اسے کہا یہ نظم سنو۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آئی بس کہہ دیا اچھی ہے۔ پھر مجھے آئیڈیا آیا۔ اس کی تین فوٹو کاپیاں کروائیں۔ ایک کاپی روزنامہ دن کے سنڈے میگزین ”کرنیں“ میں بھیج دی۔

خط لکھا کہ امید ہے آپ اسے شائع کریں گے۔ انہوں نے مایوس نہ کیا اور یہ نظم شائع ہو گئی۔ اردو کے سلیبس میں موجود شاعری ہی میری استاد بنی اور میں نے غزل کے پیٹرن کو کاپی کر کے ایک غزل لکھ دی۔ روزنامہ دن نے وہ بھی چھاپ دی۔ میرا حوصلہ بڑھتا ضرور گیا مگر یہ ایسی خوشیاں تھیں جو ان دنوں کسی کے ساتھ شیئر نہیں کر سکتا تھا کیونکہ شاعری اور ڈائجسٹ پڑھنے والوں کو ہمارے ہاں مشکوک سمجھا جاتا تھا۔ شعر و شاعری والی ڈائری بھی چھپا کر رکھی جاتی تھی۔ میٹرک کے بعد 2004 میں کراچی گیا۔ وہاں ایک پرانی کتابوں والی ریڑھی سے میں نے شاعری کی کتاب خرید لی تو میرے کزن نے کہا اسے اپنے بیگ میں رکھنا، ابو کے سامنے نہ آئے۔ تو یہ ہیں وہ خطرات جو درپیش تھے، شاعری کو پسند کرنا اپنے کریکٹر کو داو پر لگانے کے مترادف تھا۔

آٹھویں کلاس سے ایف اے سیکنڈ ائر کے دوران میں نے اپنا شعری مجموعہ مکمل کر لیا تھا۔ انتساب تک لکھ کر رکھا ہوا ہے کہ جب خودکفیل ہوا اسے شائع کرواوں گا۔ اخبار کے دنوں میں کچھ پنجابی نظمیں اور غزلیں لکھیں۔ مگر پھر یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔

شاعری پسند کرنے والوں کے بھی لیولز ہیں۔ جیسے سموکرز کے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار پی لیتا ہوں۔ دوستوں میں بیٹھوں تو ورنہ نہیں۔ ”چین“ سموکر نہیں ہوں۔ محفل کے مطابق ایڈجسٹ کر لیتا ہوں وغیرہ۔ سموکنگ کی طرح اکثر شاعری کی پسندیدگی کو بھی چھپاتے ہیں انہیں ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ”شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے“ والا معاملہ نہ ہو جائے۔

پاکستان کے نامور ڈرامہ رائٹر خلیل الرحمن قمر صاحب کے گھر بیٹھے تھے۔ انہوں نے واقعہ سنایا کہ جب ایک ایوارڈ شو میں انہوں نے اپنی نظم ”میں بزنس مین ہوں جاناں، چھوٹا سا بیوپاری ہوں“ پڑھی تو اگلی صبح ان کی بیوی نے ناشتہ رکھتے ہوئے طنزیہ کہا ”بزنس مین صاب۔ کر لو ناشتہ“

نظم کا کچھ حصہ ملاحظہ کیجئے۔
میری شہرت، میرا ڈنکا، میرے اعزاز کا سن کر
کبھی یہ نہ سمجھ لینا میں چوٹی کا لکھاری ہوں
میں بزنس مین ہوں جاناں، میں چھوٹا سا بیوپاری ہوں
میری آڑھت پے برسوں سے جو مہنگے داموں بکتا تھا
تیرے غم کا سودا تھا
تیری آنکھیں تیرے آنسو تیری چا ہت تیرے جذبے
یہاں شیلفوں پے رکھے ہیں وہی تو میں نے بیچے ہیں
تمہاری بات چھڑ جائے تو باتیں بیچ دیتا ہوں
ضرورت کچھ زیادہ ہو تو یادیں بیچ دیتا ہوں

اکثر آپ کوئی اچھا شعر یا غزل شیئر کر دیں تو لوگ اس کے اندر سے آپ کو جج کرنے لگتے ہیں۔ اداس شاعری ہو تو خیریت ہے ناں؟ اس قسم کے کمنٹس شروع ہو جاتے ہیں۔ شاعری سے پکی یاری تب ہوتی ہے جب آپ شاعر کے تخیل، ندرت خیال اور مصرعوں کی بنت کا لطف لیتے ہیں۔ لکھاری، شاعر و ادیب بھی اداکار ہوتے ہیں۔ ہنسی خوشی ایسی اداسی تخلیق کر دیں کہ پڑھنے والا دم بخود رہ جائے۔ عید کارڈ کے اشعار سے شروع ہو کر فیض احمد فیض تک کا سفر۔ شاعری سے تعلق مزید پختہ اور میچور ہوتا گیا۔ اس تعلق سے فائدہ ڈھونڈنے والے بد ذوق کہلاتے ہیں۔

گاؤں میں ہمارا ایک دوست شیجی (شمریز۔ آج کل بحرین میں ہے ) ہے اسے کرکٹ سے عشق ہے مگر اس نے ساری زندگی بلا نہیں پکڑا۔ بس باہر بیٹھ کر میچ دیکھتا ہے۔ مجھے ویڈیو گیمز بہت پسند تھیں مگر کبھی کھیلتا نہیں تھا، ایک دوست کو ٹوکن خرید کر دیتا تاکہ وہ کھیلے اور میں دیکھتا رہوں۔ شاعری سے عشق کے لئے بھی ضروری نہیں کہ آپ شاعری کرتے بھی ہوں یا لازمی روگی ہوں۔ یہ بھی لطف لینے کی چیز ہے، لیکن یہ لطف ہر کسی کی دسترس میں نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments