پنشن، بیوہ اور نظام


انسان بڑا نا شکرا ہے وہ خدا کی دی ہوئی نعمتوں اور آسائشوں کو بغیر کسی شکر گزاری کے احساس کے صدیوں سالوں برتتا ہے اور اس کو اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے پھر جب خدا کی طرف سے کوئی آزمائش آئے تو احساس ہو تا ہے کہ وہ کس قدر نوازی ہوئی زندگی گزار رہا تھا۔ اس پر اللہ کا کس قدر کرم تھا انہی نعمتوں میں سے ایک نعمت اللہ کے بنائے ہوئے رشتے ہیں جس میں اولین رشتہ آدم و حوا کا ہے جن کے طفیل ہم سب اس دنیا میں روبہ طہور ہوئے یعنی مرد اور عورت کا رشتہ جسے اسلام نے بڑی خوبصورتی سے میاں اور بیوی کے رشتہ کا نام دیا اور دونوں کو کچھ حقوق و فرائض دیے گئے ہیں۔

مرد کا رشتہ عورت کے لیے ایک سائبان ایک شجر سایہ دار کا ہے جس کی گھنی چھاؤں میں وہ ساری عمر پناہ لیتی ہے، سستاتی ہے اور پھر اپنے روز مرہ کے کاموں میں الجھ جاتی ہے اور اگر یہ چھاؤں کسی ناگہانی آزمائش کی صورت میں اس پر سے ہٹ جائے تو مانو عورت تپتی دھوپ میں آجاتی ہے۔ مجھے اس سے اندازہ ہوا کہ جہاں ہمارے ملک میں عام آدمی کا خوشحال زندگی سے یہ مہرباں سایہ اٹھ گیا اور کرونا کا شکار گیا تب مجھے اندازہ ہوا کہ جہاں ہمارے ملک میں عام آدمی کا خوشحال زندگی گزارنا مشکل ہے بیوہ کا تو سانس لینا بھی محال ہے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی مذل کلاس گھر کے کفیل کے یوں اچانک چلے جانے سے گھر والوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پرتا ہے اس کی طرف حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ سرکاری ملازم کے وفات پاتے ہی اس کے تمام بنک اکاؤنٹس منجمد کر دیے جاتے ہیں اور پنشن اور اثاثوں کی تقسیم کے لیے جانشینی سرٹیفیکیٹ، خاندان کی تفصیل، شناختی کارڈ اور ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنوانے کے لیے تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہر ادارے کے الگ الگ اصول و ضوابط، ڈیڈ لائنز اور طریقہ کار ہیں۔

پنشن جو ایک سرکاری ملازم کے گھر والوں کا حق ہے اس کے لیے کوئی ایسا طریقہ وضع نہیں کیا گیا کہ وہ بغیر کسی دھکوں یا سفارش کے بغیر ایک مقررہ وقت میں گھر والوں کو مل سکے۔ اگر تو بیوہ کے باپ بھائی یا دیگر مرد رشتہ دار مدد گار ہیں تو ٹھیک ورنہ اسی بھاگ دوڑ میں اس کے کئی مہینے ضائع ہو جاتے ہیں گھر کا خرچ اور بچوں کی تعلیم پوری کرنے کی ذمہ داری خاوند کے جانے کے غم سے کہیں زیادہ تکلیف دینے لگتی ہے۔ ہر ادارے میں الگ الگ اشٹام دینے پڑتے ہیں Lawful Widowہونے کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔ کسی Website پر کوئی تفصیل مہیا نہیں کی جاتی کہ کون سا کاغذ کب چاہیے نہ آپ کوئی کاغذ Onlineجمع کروا سکتے ہیں۔

ہم ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں جہاں بیوہ کو عدت کے فریضہ کو انجام دینا ہوتا ہے تو اس صورت میں ایسا خود کار نظام وضع کرنا ضروری ہے کہ جوں ہی کسی مرد خاص طور پر کسی سرکاری ملازم کا انتقال ہو تو نادرا جیسے ادارے میں ڈیتھ سرٹیفیکیٹ جمع کروانے کے بعد ہی خود کار نظام کے تحت تمام اداروں کو خبر ہو جائے اور کسی ایک ادارے میں کاغذات جمع کرواتے ہی جہاں جہان سے Graduaty، پنشن یا دیگر اکاؤنٹ سے اثاثوں کی توقع ہو تو وہ خود بخود محکمانہ کارروائی کے بعد محدود مدت کے اندر مرحوم کے گھر والوں کو ادا ہوئے تاکہ بیوہ اور اس کے بچے جگہ جگہ کاغذات جمع کراتے ہوئے لوگوں کے برے اخلاق کا شکار ہو، نہ وقت کا ضیاع ہو نہ وہ جذباتی طور پر عدم تحفظ کا شکار ہوں۔

میری ارباب اختیار سے درخواست ہے کہ اس مسئلے پر فی الفور توجہ دی جائے تاکہ بیوہ جو اس نقصان کے بعد جذباتی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہے اس کی عزت نفس مجروح نہ ہو، وہ ذہنی آسودگی کے ساتھ زندگی کے باقی معاملات کو دیکھ سکے اور اس طرح اس کے غم کی تھوڑی سے تشفی کی جاسکے اور پنشن جو جو بیوہ اور بچوں کا بنیادی حق ہے اس کی رسائی اور دستیابی آسان ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments