عثمان مرزا: اسلام آباد میں تشدد، ہراسانی کا نشانہ بننے والے جوڑے کی پولیس سے ملاقات، ملزمان چار روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


خواتین

اسلام آباد پولیس رواں ہفتے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں تشدد اور ہراسانی کا نشانہ بنائے جانے والے متاثرہ جوڑے تک پہنچ گئی ہے جبکہ ملزمان سے ملنے والی مزید تفصیلات تفتیشی ٹیم کو اس دن کے واقعات کا پسِ منظر جاننے میں مدد کر رہی ہیں۔

جمعے کو عدالت دارالحکومت اسلام آباد کی ایک عدالت نے تمام ملزمان کو چار دن کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا۔

دوسری جانب اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ اہلکاروں کی متاثرہ جوڑے اور ان کے خاندان سے ملاقات ہوئی جس کے بعد ایس پی عطا الرحمان کا کہنا تھا کہ ‘اس واقعے میں ملوث حیوانی ذہنیت رکھنے والے افراد کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے اور یہ ہمارا اپنا مقدمہ ہے ہم اسے آخر تک لڑیں گے۔’

لڑکا، لڑکی کی جانب سے تصدیق کی گئی کہ ان دونوں کی اب شادی ہو چکی ہے۔

ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس کی جانب سے متاثرہ جوڑے تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی کیونکہ مقدمے میں ان کے بیانات بھی خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔

اسلام آباد پولیس نے لڑکے کا بیان ریکارڈ کرتے ہوئے اسے تفتیش کا حصہ بنا دیا ہے جبکہ متاثرہ لڑکی نے بیان ریکارڈ کروانے کے لیے مزید وقت مانگا ہے۔

خیال رہے کہ رواں ہفتے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس ویڈیو کے کچھ کلپس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ملزم عثمان مرزا اور اس کے ساتھی ایک کمرے میں نوجوان لڑکے اور لڑکی پر تشدد کر رہے ہیں۔

ویڈیو میں ملزم لڑکے اور لڑکی کو گالیاں دیتے ہیں اور ان کے چہرے پر بار بار تھپڑ مارتے ہیں۔

یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ دونوں کے کپڑے اتارنے کی کوشش کرتے ہیں اور انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔

’اندر فیملی ہے، آپ اندر نہیں جا سکتے‘

مقدمے کی تفتیشی ٹیم میں شامل اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ لڑکی کسی دوسری شہر کی رہائشی ہے۔ وہ اس واقعے کے دن ایک امتحان کے سلسلے میں اسلام آباد آئی تھیں اور اپنے منگیتر سے شہر میں رہائش کا بندوبست کرنے کا کہا تھا۔

اہلکار کے مطابق متاثرہ لڑکے نے اس مقدمے کے مرکزی ملزم عثمان مرزا کے ایک دوست سے فلیٹ ایک رات کے لیے کرائے پر لیا۔

اہلکار کے مطابق جب وہ دوجوں فلیٹ میں موجود تھے تو ملزم عثمان مرزا کا بھائی وہاں آیا اور اس نے فلیٹ کے اندر جانے کی کوشش کی۔ اس پر عصمان مرزا کے دوست نے اسے بتایا کہ اندر فیملی موجود ہے جس کی وجہ سے وہ اندر نہیں جا سکتے۔

پولیس اہلکار کے مطابق یہ سن کر ملزم کے بھائی نے عثمان مرزا کو فون کیا جو اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ وہاں آ گیا اور لڑکے اور لڑکی کے ساتھ بدسلوکی کی۔

پولیس اہلکار کے مطابق اس بدسلوکی کی ویڈیو بنانے کے بعد ملزمان نے انھیں دھمکی دی کہ اگر انھوں نے کسی سے اس واقعے کا ذکر کیا تو وہ یہ ویڈیو وائرل کر دیں گے۔

اسلام آباد پولیس کے سربراہ قاضی جمیل الرحمٰن کے مطابق ملزم عثمان مرزا شادی شدہ ہے اور اس کے بچے بھی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’ہماری اجتماعی ناکامی ہے کہ انصاف کے لیے ویڈیو وائرل ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے‘

دامن کوہ: پولیس اہلکار، فوجی افسر کی تلخ کلامی، ہاتھا پائی پر کیا ایکشن ہوا؟

مقدمے کی کارروائی میں کیا ہوا؟

جمعے کو جب ملزم عثمان مرزا اور اس کے دو ساتھیوں فرحان اور عطا الرحمن کو جب عدالت میں پیش کیا گیا تو مقدمے کے تفتیشی افسر نے کہا کہ انھیں ملزمان سے ڈیٹا حاصل کرنے کے علاوہ دیگر معاملات پر بھی تفتیش کرنی ہے جس کے لیے ملزمان کا مزید جسمانی ریمانڈ درکار ہے۔

تاہم عثمان مرزا کے دونوں ساتھیوں کے کے وکلا نے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے میں ان کے موکلوں کا کوئی کردار نہیں ہے۔

ان کے وکلا کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دونوں کا اس فعل میں کوئی کردار نہیں بلکہ وہ عثمان مرزا کو ایسا کرنے سے منع کر رہے ہیں۔

ملزمان کے وکلا کا کہنا تھا کہ پولیس کے پاس اس ویڈیو کے علاوہ اور کوئی مواد موجود نہیں ہے تو پھر ملزمان کا مزید جسمانی ریمانڈ کیوں درکار ہے؟

انھوں نے کہا کہ اگر کوئی اور شہادت سامنے نہیں آئی تو پھر ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا جائے۔

تاہم جب وکلا نے نکتہ اٹھایا کہ یہ واقعہ تو ایک کمرے میں ہوا ہے تو پھر ملزمان کے خلاف درج مقدمے میں دفعہ 354 اے کا اضافہ کیوں کیا گیا جو کہ کسی کی عزت اچھالنے کے بارے میں ہے تو تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ ‘ابھی ملزمان سے دفعہ 354 اے کے تحت ہی تو تفتیش ہونا باقی ہے۔ سوشل میڈیا پر کسی کی عزت کو تار تار کیا گیا اور ابھی بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ واقعہ تو ایک کمرے میں ہوا ہے۔’

ملزمان کے وکلا نے اپنے دلائل میں کہا کہ اگر فرحان اور عطا الرحمن کسی ویڈیو میں اس مقدمے کے مرکزی ملزم عثمان مرزا کے ساتھ اکھٹے فلیٹ میں جانے نظر آتے ہیں تو بے شک انھیں بھی مرکزی ملزم کے ساتھ سزا دیں لیکن حالات اس کے برعکس ہیں۔

ان کے مطابق پلازے میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں سے ان دونوں ملزمان کی فوٹیج حاصل کرلی جائیں تو حقائق کھل کر سامنے آجائیں گے۔

انھوں نے کہا کہ پولیس نے اس مقدمے کے مرکزی ملزم عثمان مرزا سے جو برآمد کرنا ہے، کر لیں لیکن باقی دو ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جائے۔

تاہم عدالت نے ملزمان کے وکلا کے دلائل سے اتفاق نہیں کیا اور ان تیوں ملزمان کو چار دن کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا۔

https://twitter.com/PakPMO/status/1413417505318637573

وزیراعظم کا نوٹس اور سائبر کرائم کے پہلو

اس معاملے کی بازگشت وزیراعظم ہاؤس تک رہی اور عمران خان نے آئی جی اسلام آباد قاضی جمیل الرحمن سے ملاقات میں اس معاملے پر ہونے والی پیش رفت سے وزار اعظم کو آگاہ کیا گیا۔

ایک بیان کے مطابق آئی جی اسلام آباد نے وزیر اعظم کو بتایا کہ ملزمان کی گرفتاری کے بعد مضبوط فوجداری کارروائی اور انھیں قرار واقعی سزا دلاوانے کے لیے وہ خود اس کیس کی نگرانی کر رہے ہیں اور مزید شواہد اکٹھے کرنے کے لیے تمام تکنیکی وسائل برؤئے کار لائے جا رہے ہیں۔

یاد رہے گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے بھی اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے دارالحکومت کی پولیس کو اس کی جلد از جلد تفتیش مکمل کرنے کا حکم دیا تھا۔

اسلام آباد پولیس نے اس معاملے میں تحقیقات کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کی خدمات بھی حاصل کر لی ہیں۔

پولیس کے مطابق ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے اہلکار ان اکاؤنٹس کے بارے میں معلومات اکٹھی کریں گے جن سے یہ ویڈیو فیس بک اور سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی۔ مقدمے کی تفتیش کرنے والی ٹیم میں شامل ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزمان کے زیر استعمال موبائل فونز کو فرانزک لیبارٹری بھجوا دیا گیا ہے۔

ایس ایس پی آپریشنز مصطفیٰ تنویر نے بتایا کہ ان کی معلومات کے مطابق اس واقعے میں ملوث ملزمان کے نام امیگریشن حکام کو بھی دیے گئے ہیں تاکہ وہ ملک سے فرار ہونے کی کوشش نہ کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp