گمنام خیالات


اسلام گل نے دیہاتی علاقے کے ایک مسلم گھرانے میں آنکھ کھلی۔ وہ بھی دوسرے بچوں کی طرح بچپن کے دن کھیلنے کھودنے میں گزارنے لگا۔ اب وہ پانچ سال کا ہو چکا تھا۔ گھر والوں نے اس کا داخلہ سکول میں لیا۔ فارغ وقت میں وہ مدرسے جا کر قاری صاحب سے قرآن کریم کی تلاوت سنتا اور سیکھتا تھا۔ اب وہ روزانہ طور پر قاری صاحب کی مختلف مسائل پر نقطہ نظر بھی سنتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ جمعہ کا نماز بھی باقاعدگی سے پڑھنے لگا تھا اور وہاں پر نماز کے بعد امریکا مردہ باد اسرائیل مردہ باد کے اونچی اونچی نعروں سے بھی اس کا ایمان تازہ ہونے لگا تھا۔

وہ عیدین کی نماز کے ساتھ ساتھ دوسرے مذہبی تقریبات میں بھی پیش پیش ہونے لگا تھا۔ اب وہ آٹھویں جماعت میں پڑھ رہا ہے۔ اس کے فیملی والوں نے مزید پڑھنے کے لئے کسی بڑے شہر میں بھیجنے کے لئے سوچ بچار کر رہے ہیں۔ تا کہ وہ آگے مستقبل میں کچھ لکھ پڑھ سکے۔ اب وہ وقت آ گیا کہ اس سے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے گھر چھوڑنا پڑے۔ مالی مسائل کے بنا پر گھر والے بھی شہر منتقل نہیں ہو سکتے تو اب اسلام گل کو بڑے شہر بھی اکیلا رہنا پڑے گا۔

کل وہ شہر جا رہے ہے تو والد محترم جنت گل نے آپ بیٹے کو پاس بلا لیا اور کچھ نصیحتی جملے ان کی خدمت میں عرض کیے ۔ ”بیٹا! ایک بات ہمیشہ ذہن نشین کرو، آپ جتنی بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرو، لیکن آپ نے اپنے بابا اور دادا کا راستہ نہیں چھوڑنا۔ یہی حق اور سچ کی راہ ہے۔ پانچ وقت نماز اور تلاوت کیا کرو۔ یقیناً کامیابی آپ کی ہے“ اسلام گل روشن آنکھوں سے کہہ پڑے، جی بابا آپ کی بات سر آنکھوں پر۔ دوسری بات میری جاں، کہ آگے تعلیم میں چاہیے کوئی جو بھی بولے یا مشورے دیں لیکن آپ نے میڈیکل فیلڈ سلیکٹ کرنا ہے۔

کیونکہ پھر لوگ کہیں گے کہ جنت گل لالا کے اٹھ بیٹوں اور پانچ بیٹیوں میں ایک بیٹا ڈاکٹر ہے۔ اور آخری بات کہ اب آپ بیٹا بڑے ہو گئے ہو، ہر چیز کو سمجھتے ہو، آپ نے کسی بھی پرائی لڑکی سے عشق و محبت وغیرہ نہیں کرنا ہے، کیونکہ یہ چیزیں فضول اور جو آپ کا مقصد و منزل ہے اس میں رکاوٹ ہے۔ ساتھ میں یہ بھی یاد رکھیں کہ گھر میں آپ کی چچا کی بیٹی زرغونہ گل سے آپ کے پیدائش کے دو سال پہلے بات ہم پکی کر چکے ہیں۔ لہذا مجھے اپ کے چچا کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔

اسلام گل نے فخریہ انداز میں جی حضوری فرمائی۔ وقت گزرتا گیا اور وہ بابا کی نصیحتیں ذہن میں رکھ کر تعلیم حاصل کرنے میں مگن تھا۔ لیکن اب وہ تھوڑا بہت سوچنے لگا تھا اور کبھی کبھی مختلف سوالات اس کے ذہن میں ابھر آتے تھے، جس سے وہ شیطانی وسوسہ کرار دے کر ٹال دیتا تھا۔ پچھلے جمعے کی رات بھی وہ یہ سوچ رہا تھا کہ میں نے آپ لئے تو کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ خطا کہ میری پیدائش سے لے کر ابھی تک میں بتائی باتوں پر عمل پیرا ہوں۔

میرا نام گھر والوں نے رکھا دھرم اور مذہب مجھے ورثے میں دی گئی۔ میرے لئے پابندیاں پہلے سے مقرر تھی۔ بس اب تو صرف میں ان چیزوں کے تحفظ اور نگرانی کرنے لگا ہوں جو کہ دوسروں نے میرے لئے چنی ہے۔ زندگی میں مجھ کو اپنا کردار ایک چوکیدار کی طرح لگتی ہے جو کہ اس بینک کی چوکیداری کرتا ہے، جن کو اتنا بھی پتہ نہیں کہ یہ سرکاری بینک ہے یا پرائیویٹ پراپرٹی؟ بس مجھے بتایا گیا ہے کہ یہاں بیٹھ کر بینک کی تخفظ آپ کی ذمہ داری ہے۔

لیکن ساتھ میں یہ حق چھین لیا ہے کہ خبردار! کبھی بھی بینک کے بارے میں پوچھنا نہیں۔ ورنہ گناہ گار ہو جاؤ گے۔ اور گناہ کی معافی ایک صورت ممکن ہے کہ بینک کو ٹیکس جمع کرے، لیکن اگر خطا بڑی کی ہے تو وہ ناقابل معافی ہے اور اس کی ایک سزا سر تن سے جدا کے ہے۔ یہ سوچتے سوچتے اسلام گل سو گیا۔ صبح سویرے دوست کی آواز کانوں میں گونج اٹھی۔ اٹھ جاؤ نماز پڑھ کے کالج جانا ہے۔ وہ خیالات پھر دوبارہ نہ آئے۔ رات گئی بات گئی۔

الحمدللہ موجودہ وقت میں اسلام گل مقامی پرائمری سکول میں بحیثیت استاد اپنے خدمات سر انجام دے رہا ہے۔ اور فارغ وقت میں بچوں سے قرآن کریم کی تلاوت بھی کراتا ہے۔ ایک ماہ پہلے اللہ تعالٰیٰ نے اسلام گل اور اس کی زوجہ محترمہ زرغونہ گل کو ایک بیٹے سے بھی نوازا۔ اور ابھی بھی امریکہ اور اسرائیل کے خلاف جلسوں میں ایمان کی طاقت کے ساتھ پیش پیش رہتے ہے۔ اور امریکی جھنڈا تو لازمی جلاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments