افغان خواتین کے شیلٹر بچانے کے لیے کوشاں ماری اکرمی


ماری اکرمی نے افغانستان میں خواتین کے لیے دودرجن سے زائد شیلٹر قائم کیے ہیں۔
کابل — افغانستان کے دارالحکومت کابل کے ایک چھوٹے سے ریستوران کے باورچی خانے میں تندور کے گرد افغان خواتین جمع ہیں۔ یہ دوپہر کے کھانے کے لیے ریستوران میں آنے والوں کے لیے روٹیاں تیار کر رہی ہیں۔

یہ خواتین گھریلو تشدد کی متاثرین ہیں اور ان میں کئی ایسی ہیں جو کبھی اپنے گھر واپس نہیں جا سکیں گی۔

ایسی خواتین کے لیے سماجی کارکن ماری اکرمی نے ایک شیلٹر اور ریستوران بنایا تھا۔ یہ ریستوران میں کام کرتی ہیں اور شیلٹر ان کے آرام کے لیے ہے۔ البتہ غیر ملکی افواج جنہوں نے جنگ زدہ افغانستان میں خواتین کے حقوق کی بحالی کا وعدہ کیا تھا ان کے انخلا کے بعد ان خواتین کو یہ ٹھکانا چھن جانے کا خدشہ ہے۔

ماری اکرمی افغانستان میں غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے ایک اتحاد افغان ویمن نیٹ ورک کی ڈائریکٹر بھی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری نے ہماری حوصلہ افزائی کی۔ ہمارے ساتھ تعاون کیا۔ عطیات دیے اور اب ہمیں نظر انداز کر دیا۔

مستقبل کے خدشات

افغانستان سے امریکہ اور دیگر ممالک کی افواج کا انخلا ہونے والا ہے اور طالبان ملک کے ایک بڑے حصے کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں۔ ان حالات میں افغان افواج بحران کا شکار ہیں۔

اکرمی کو اپنے قائم کردہ شیلٹرز میں رہنے والی خواتین اور اپنے تحفظ سے متعلق بھی خدشات لاحق ہیں۔ کشیدگی کے باعث ان کا ایک شیلٹر پہلے ہی بند ہو چکا ہے۔

افغان خواتین ماری اکرمی کے ریستوراں کے کچن میں کام کررہی ہیں۔
افغان خواتین ماری اکرمی کے ریستوراں کے کچن میں کام کررہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اپنے گھروں سے نکلنے والی خواتین کے لیے کوئی جگہ نہیں رہے گی اور ان میں سے کئی خواتین اور لڑکیوں کو گلیوں اور سڑکوں پر رہنا پڑے گا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ان کے پاس اذیت رسانی اور جنسی و جسمانی تشدد کی شکار خواتین کے کیسز آتے ہیں۔

ماری اکرمی نے 1996 سے 2001 تک کا طالبان کے دورِ اقتدار کا عرصہ پاکستان میں گزارا تھا۔ امریکہ کے حملے کے بعد طالبان کی حکومت ختم ہوئی تو وہ افغانستان واپس آگئی تھیں۔

انہوں نے 2002 میں بعض یورپی این جی اوز کی مدد سے خاندانی تشدد کے باعث گھر چھوڑنے والی خواتین کے لیے شیلٹر قائم کیا تھا۔

اب تک اکرمی کے بنائے گئے دو درجن سے زائد شیلٹرز میں 20 ہزار خواتین رہ چکی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق ساڑھے تین کروڑ آبادی کے ملک افغانستان میں خواتین کی اکثریت جسمانی، جنسی یا نفسیاتی تشدد کا سامنا کر چکی ہیں۔ اے ایف پی کے مطابق مقامی ثقافت میں اپنے خاوند سے راستے جدا کرنے والی خواتین کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔

ملک کے بعض علاقوں میں آج بھی قرض کی ادائیگی یا تنازعے کے تصفیے کے لیے خواتین کو بطور ہرجانہ استعمال کیا جاتا ہے اور انہیں نام نہاد ’غیرت کے نام پر قتل‘ کے واقعات کا بھی سامنا ہے۔

طالبان دور میں لڑکیوں اور خواتین پر تعلیم اور روزگار کے دروازے بند کر دیے گئے تھے۔ ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد بڑی جدوجہد کے بعد خواتین کو مواقع میسر آئے اور اب خواتین جج، پولیس اہل کار اور پارلیمنٹ کی رکن بھی ہیں۔ اسی طرح لڑکیوں کے اسکول بھی کھل گئے تھے۔

کابل کے شیلٹر میں رہنے والی خواتین تعلیم حاصل کررہی ہیں یا کام کرتی ہیں۔
کابل کے شیلٹر میں رہنے والی خواتین تعلیم حاصل کررہی ہیں یا کام کرتی ہیں۔

افغان حکومت خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا قانون منظور کرچکی ہے لیکن صوبوں کی جانب سے ان کے نفاذ کے معاملے پر غیریقینی صورتِ حال ہے۔

’ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا‘

کابل کے شیلٹر میں رہنے والی خواتین تعلیم حاصل کر رہی ہیں یا کام کرتی ہیں۔ دن بھر کی مصروفیت کے بعد وہ رات کو یہاں آکر آرام کرتی ہیں۔

ان میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جو شیلٹر کے احاطے میں اپنے بچوں کی پرورش کر رہی ہیں۔

جن خواتین کے پاس کوئی موقع نہیں تھا ان کے لیے اکرمی نے ایک ریستوران کھول دیا تھا۔

ماری اکرمی کا کہنا ہے کہ جب انہیں معلوم ہوا کہ گزشتہ برس امریکہ نے فوج کے انخلا کے لیے طالبان کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اس میں خواتین سے متعلق کوئی مطالبہ نہیں تھا تو انہیں ایسا محسوس ہوا کہ ان کے ساتھ ’دھوکہ‘ ہو گیا ہے۔

افغان حکومت کے ساتھ ہونے والے امن مذاکرات میں طالبان نے اسلامی اقدار کے مطابق خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق چند مبہم وعدے کیے ہیں۔

گزشتہ برس ستمبر سے اب تک 180 افراد کو قتل کیا جا چکا ہے جن میں میڈیا، عدلیہ اور سماجی کاموں سے متعلق ممتاز خواتین بھی شامل ہیں۔ امریکہ اور افغان حکومت ان کارروائیوں کے لیے عسکریت پسندوں کو ذمے دار ٹھیراتے ہیں۔

بعض سماجی کارکن ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن عام خواتین کے پاس حالات میں آتی ابتری دیکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

اکرمی کہتی ہیں کہ افغانستان میں عورت ہونا آسان نہیں۔ میں لڑتے لڑتے تھک چکی ہوں اور سب کچھ کھو دینے کے قریب ہوں۔

اس خبر میں تفصیلات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے شامل کی گئی ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments