نہ روزگار، نہ کاروبار، یہاں سب ہیں غدار


شورش زدہ بلوچستان کے وسائل زیادہ اور آبادی کم ہونے کا فائدہ شروع دن سے بالا دست قوت اٹھا رہی ہے۔ جب بھی بلوچستان کے لوگوں نے حق و حقوق کی بات کی انہیں غدار تو ٹھہراتے ہیں لیکن ان کے درد و الم کا مداوا نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ ریاست کا اٹل فیصلہ ہے کہ یہاں ہر کام طاقت اور قوت سے سرانجام دی جائے اور یہاں کے لوگوں کو طاقت کے زور پر زیر کر کے حکمرانی کی جائے۔ اور حکمرانوں کی اس غیر مساوی عدم توازن قومی حقوق کی فراہمی سے بہت سے زندہ ضمیروں بلوچوں نے شدید اختلاف کر کے اب وہ بلوچ حق حکمرانی کی بات کو منوانے کے لئے باغی ہو گئے اور ریاست کی ہر طاقت سے حل کرنے والی بات کو رد کرتے ہوئے نہ مانو کا نعرہ لگا کر آزادی پسند بن گئے۔ اور آج وہ ریاست کی سخت گیر پالیسی سے تنگ آمد بجنگ آمد کے پیروکار بن چکے ہیں۔

مہذب معاشرے کی علامت ریاست جمہور کی فلاح کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ریاست مملکت خداداد کے اصل چشم و چراغ نہ جمہور کی سنتا ہے نہ جمہوری حکومت کو مانتی ہے جس سخت گیر رویہ سے پہلے بلوچستان میں سیاسی قدغن تھا اب عوام کو اسی پالیسی سے دبایا جا رہا ہے لیکن حالیہ چند مہینوں میں اس انتہائی سخت گیر روش کو بلوچستان کے سرحد پار کاروباری لوگوں پو لاگو کیے ہوئے ہیں وہ جلد یا بدیر عوامی ردعمل کے طور بھگتیں گے کیونکہ جب لوگوں کی تذلیل کی جائے انہیں ان کی عزت النفس کو مجروح کی جائے زندگی بسر کرنے کے تمام آسودگی کو اجیرن بنا کر مجرمانہ رویہ اختیار کی جائے تو ان کے نتائج مثبت آنے کی توقع محدود نہیں بلکہ ناممکن ہوجاتی ہے۔

شدید معاشی مشکلات کے شکار لوگ جب کوئی چارہ نہیں دیکھ پائیں گے تو ان کا رد عمل بھی شدید ہونا چاہیے تھا لیکن بلوچ کی قوت برداشت بھی داد کے مستحق ہے کہ وہ موقع سے فائدہ اٹھانے سے موقع فراہم کر رہا ہے ایک تو قدرتی آفت سے لوگ نان شبینہ کے لئے ترس رہے ہوتے ہیں لیکن بلوچستان میں حکمرانوں کی من مانی بزور قوت اور سوچے سمجھے منصوبے سے لوگوں کو نان شبینہ کا محتاج بنا دیا گیا ہے لامحالہ لوگوں کو اذیتوں سے گزار کر ذلیل و خوار کر کے نفرتوں کی بھٹی میں تپ تپا جا رہا ہے یہ کوئی بار گران نہیں کہ حکمران اتنی سخت گیر رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں بلوچ پاک انڈیا کی باب دوستی طرز کا کوئی تفریحی مقام کا مطالبہ نہیں کر رہے ہیں جس دشمن سے مملکت خداداد کو زیادہ خطرہ ہے وہاں باب دوستی کی شکل میں عالی شان اسٹیڈیم بن سکتی ہے روز لوگوں کا جم غفیر انجوائمنٹ اور تفریح کے لئے موجود ہوتے ہیں بچے بوڑھے جوان سب شامیانہ میں بیٹھ کر دو دشمن ملک کے فوج کی موج مستیوں اور پریڈ پر سیٹیاں بجا رہے ہوتے ہیں لیکن دو وقت کی روٹی کمانے والے اپنے شپ و روز کو دھکا لگانے والوں اور ہزاروں سال سے آمد و رفت کرنے والے بلوچستان کے باسیوں کے لئے خورد و نوش لانا شجر ممنوع ہے جبکہ یہ واحد حکمرانوں کی بناوٹی سرحدی پٹی ہے جہاں دونوں جانب سنی بلوچوں کی آبادی ہے آپسی رشتہ داری ہے آمد و رفت کا ایک تسلسل صدیوں سے چلتا آ رہا ہے لیکن آج ریاست نے بغیر کسی عذر و عوض کے نہ کسی غیر ملکی جارحیت کے بہانے بلوچوں کی کھلی میدان، بہتی پانیوں اور آباد باغات کے بیچوں بیچ بلوچ آبادیوں کے بستیوں کو تقسیم کیا باڑ کے آس پاس لوگ ایک دوسرے بڑی حسرت سے دیکھ کر خود پر افسوس کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ طاقت کے آگے غریب کر کیا سکتے ہیں۔

معاشی قدغن کے علاوہ لوگوں کے عزت نفس کو روز سکیورٹی فورسز مجروح کر کے ان کی تذلیل کرتے رہتے ہیں یہ باتیں شاید ملک میں بیٹھے حکمران طبقہ کے لئے کوئی معنی خیز اور اہمیت نہ رکھتے ہو لیکن بلوچستان عام انسان کے دل میں گہری زخم چھوڑ کر نفرتوں چکی تیار کر رہے ہیں ایف سی اہلکار لوگوں کو کبھی ٹوکن کے نام پر جمع کر کے تماشائی بناتے ہیں اور کبھی باڈر ٹریڈ کو قانونی طریقہ کار سمجھانے کے لئے مجمع سجاتے ہیں ان سب اذیتوں کو برداشت کرنے کے باوجود لوگوں کی گلہ شکوہ شکایات باڈر فورسز کے چوکیوں تک محدود رہا ان کی آواز کسی حکومتی اعلٰی سطح تک نہیں پہنچ پاتی نہ ہی انہوں نے اس کے علاوہ کسی ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کا سوچا ہے جب ان سے کہا جاتا ہے کہ کوئی ٹوکن سسٹم سے آپ لوگوں کی شکایات کا ازالہ کیا جائے بیچارے خوش ہو کر ایک سپاہی کے آواز سے ہزاروں کی مجمع پر ساقط طاری ہوجاتا ہے لیکن وعدے وعید کے باوجود کچھ نہیں ہوتا اور انہیں بھگا کر کسی اور تاریخ کا وعدہ دے کر چھٹکارا پاتے ہیں۔

یہ ٹوکن سسٹم کیا ہے؟

ایف سی کی طرف سے دیا گیا ایک پرچی نمبر یا باڈر انٹری پاس کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے اب حکومت جانے اور متعلقہ ادارے کہ یہ حکومتی تصدیق شدہ ضمانت ہے کہ نہیں، جس کو عام وقت میں مبلغ پندرہ ہزار 15000 روپے ادا کر کے سفارش پر حاصل کیا جاسکتا ہے جس کو قیمت ادا کرنے کے بعد بھی ملے خوش قسمت ہی خود کو تصور کرتا ہے اور وقت اور حالت کی وجہ سے اس کی قیمت بڑھتی رہتی ہے کم نہیں ہوتی پچاس سے ساٹھ ہزار تک ایف سی اہلکار بیج دیتے ہیں یہ زر خرید ٹوکن کو گاڑی والے لے کر تب انہیں باڈر کی جانب جانے کی اجازت مل جاتی ہے پہلی چیک پوسٹ پر انٹری کے بعد آگے کئی چیک پوسٹوں سے انٹری کر کے گزرنے کے بعد باڈر کے عقب میں اپنے باری والے دن کا انتظار کرنا پڑتا ہے کہ کب باڈر کو انٹر کی اجازت ہوگی اور اپنے باری والے دن آنے کے بعد گاڑیوں کی لمبی قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے دو سو تین سو گاڑیوں کو پہلے سے خریدے گئے ٹوکن (باڈر انٹری پاس) کے جاری ہونے کی صورت میں باڈر داخلہ ہونے کی اجازت مل جاتی تو دوسرے مرحلے والے آگے بڑھ جاتے ہیں ٹوکن خریدنے اور باڈر انٹر ہونے تک کم از کم پندرہ دن لگ جاتے ہیں یہ آفر صرف چند باڈر کراسنگ میں لاگو ہے جس میں زامران شامل نہیں کیونکہ زامران کے علاقے میں اب تک باڈر مکمل بند ہے اور یہاں کے باشندے جو کہ تمام باڈری حدود میں سب سے زیادہ قریب ترین علاقے زامران کی میں حدود پڑتے لیکن اب تک یہاں کے باشندوں کے لئے ان کے ذریعہ معاش کمانے کی پابندی برقرار ہے ٹوکن سسٹم ایف سی کی کمائی کا ایک ذریعہ ہے جس سے سپاہی سے لے کر میجر، کرنل، اور ونگ کمانڈر آگے سب شاید شامل استفادہ ہیں یہ بند تو نہیں ہوگی لیکن کم از کم ہر گاڑی والے اور باڈر کراس کرنے والے کے لئے عام کیا جائے تاکہ سفارش کے بغیر ہر غریب باڈر ٹریڈر کو بھی ٹوکن کی رقم ادائیگی کے بعد ملے تاکہ ایک چکر کاٹ کر بچوں کا پیٹ پال کر دوسرے ٹوکن کی خریداری ممکن ہو سکے۔

اگر یہ ٹوکن کی ادا شدہ رقم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مرکزی خزانہ اکاؤنٹ میں جمع ہونے والی رقم ہے تو کم از کم کسی سرکاری طریقہ کار کے تخت بینک میں چالان کے ذریعہ جمع ہوتا عام سپاہی کے ہاتھ میں تھما کر یہ رقم غریب بلوچ کے جیب سے تو جاتی لیکن اس سے ایف سی کا ایک عام سپاہی کروڑ روپے کما رہا ہے یہ نہیں بلکہ بہت سے سپاہیوں نے اتنے ہی کمائی کی ہوئی ہے کہ انہوں نے اپنے گاڑی خرید کر ڈرائیور رکھ لئے ہیں اور باڈر پر کاروبار کر رہے ہیں جو بغیر کسی ٹوکن وغیرہ کے روزانہ باڈر آر پار بغیر روک ٹوک کے جاتے ہیں اور غریب ادھار پر لئے گاڑی مالکان اور ڈرائیور دس دس، پندرہ پندرہ دن ذلیل و خوار ہونے کے بعد بھی ٹوکن حاصل کرنے اور باڈر پار کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔

جو علاقہ کبھی ان گاڑیوں والوں کے لئے گھنٹوں کی سفر اور بلا کسی روک ٹوک کا ہوتا تھا آج ان کے لئے دیار غیر اور نو گو ایریا بن چکا ہے اپنے ملک و سرزمین میں اگر ویزا کی نہیں لیکن باہر ملک جانے والے ویزا پالیسی سے زیادہ سخت اور مشکل مرحلہ سے گزرنا پڑتا ہے اول تو غریب کے لئے یہی ٹوکن نامی بلا حاصل کرنا مشکل ہے اگر کسی کو مل جائے تو باڈر جانے تک دس بارہ جگہ انٹری کرنے اور پروسیس کے بعد مرحلہ وار آگے بڑھنے کی اجازت ملتی رہتی ہے اس طرح ایک سفر پندرہ سے بیس دن کا طے ہوتا ہے جبکہ اس سے پہلے یہی تیل بردار گاڑی والے پندرہ بیس دنوں میں بغیر کسی مشکل و مصیبت کے پندرہ، بیس چکر کاٹ کر واپس آتے تھے۔

ریاستیں لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے تشکیل پاتے ہیں اور بلوچ کے لئے یہ ریاست روز نئی مصیبت و مشکلات پیدا کرنے کی تجربات کر رہا ہے مکران سے لے کر تفتان پورے سرحدی پٹی کو ایف سی قلعوں میں تبدیل کر کے بلوچوں کاروباری طبقہ کو معاشی مشکلات کا شکار بنا دیا گیا ہے اور سرحد کے قرب و جوار کے علاقوں کو اشیائے خورد نوش کی قلت کا سامنا ہے کیونکہ یہاں کے لوکل مارکیٹ زیادہ تر سرحدی کاروبار سے مستفید ہوا کرتے تھے اور ان کی اشیائے ضرورت کا زیادہ تر انحصار ایرانی سامان پر ہوتا تھا اب حکومت کی بھتہ خواری، باڑ اور ایف سی کی چوکیوں نے یہاں سب کچھ تباہ کر دیا ہے یوں کہیے کہ باڈر کاروباری زندگی کو سرکار بیکار نے بیگار کر دیا ہے اور غریب کی زندگی پر موت کا پہرا لگا ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments