پاکستان کے خلاف سازش کس نے کی؟


فواد چودھری بڑے کمال کے آدمی ہیں۔ میں انہیں اس وقت سے جانتا ہوں، جب وہ طالب علم تھے۔ ان کے انکل چودھری الطاف حسین پنجاب کے گورنر تھے۔

چودھری صاحب گورنر بننے سے قبل قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے تھے اور میری ان سے کافی ذاتی نیاز مندی تھی۔ لاہور کے گورنر ہاؤس کے علاوہ پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں ان کے ساتھ ہماری محفلیں جمتی تھیں اور کبھی کبھی ہماری فواد سے بھی دعا سلام ہو جاتی تھی۔ ایک دفعہ گورنر الطاف حسین نے مجھے کہا کہ فواد آپ کا بھتیجا ہے، آپ اس کی رہنمائی کیا کریں۔ انہوں نے کہا کہ فواد کو سیاست کا بہت ٹھرک ہے، فی الحال اسے تعلیم مکمل کرنی چاہیے، سیاست تو بعد میں ہوتی رہے گی۔

میں نے تائید میں سر ہلایا تو گورنر صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ذرا پانچ منٹ کے لیے فواد کو مل آئیں اور اسے سمجھائیں، بعد میں گپیں لگائیں گے۔ میں نے پوچھا فواد کہاں ہے؟ گورنر صاحب نے کہا کہ ملازم آپ کو ان کے پاس لے جائے گا۔ فواد گورنر ہاؤس کے ایک عقبی کمرے کے مکین تھے۔ میں ان کے پاس پہنچا تو وہ ایل ایل بی کی کتابوں میں مگن دکھائی دیے۔

مجھے دیکھ کر بولے کہ گورنر صاحب نے آپ کو بھی مجھے سمجھانے بھیجا ہے؟ میں نے ہاں یا ناں میں جواب دیے بغیر ان سے سیاسی گفتگو شروع کر دی اور فورا اندازہ لگا لیا کہ فواد ہر صورت میں سیاستدان بننے کا ارادہ کر چکے ہیں۔ میں نے انہیں حسین شہید سہروردی اور ذوالفقار علی بھٹو کی مثالیں دے کر کہا کہ سیاست میں ضرور آئیں لیکن پہلے اچھے وکیل بن جائیں۔ فواد نے اتفاق کیا کہ اچھی تعلیم حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ میں نے انہیں یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ میں انہیں ڈکٹیٹ کرنے آیا ہوں۔ کچھ سال گزر گئے۔ فواد نے وکالت شروع کر دی۔ پھر اخبارات میں لکھنا شروع کر دیا اور پھر وہ سیاست میں آ گئے۔

چودھری الطاف حسین دنیا سے چلے گئے لیکن ان کی نسبت سے فواد کے ساتھ ایک تعلق برقرار رہا۔ اس دوران کبھی وہ مجھ سے ناراض ہوئے تو کبھی میں ان سے ناراض ہوا لیکن جب وہ وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی بنے تو ان کی کارکردگی نے مجھے واقعی متاثر کیا۔ پھر وہ دوبارہ وزیر اطلاعات بنا دیے گئے۔ مجھے خدشہ لاحق ہوا کہ اب فواد کے ساتھ تعلقات کو معمول پر رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ یہ خدشہ درست ثابت ہوا۔

 آج نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ پچھلے چند ہفتوں کے دوران فواد چودھری کے کچھ بیانات سے مجھے ذاتی طور پر تکلیف ہوئی ہے۔ 28 مئی کو بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں انہوں نے فرمایا تھا کہ پاکستان میں کچھ صحافیوں کی طرف سے بیرون ملک امیگریشن حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ پر حملوں کے ڈرامے کیے جاتے ہیں۔ مجھے ایسا لگا کہ جیسے انہوں نے مجھے طعنہ دیا ہے۔ پھر سوچا کہ نہیں، وہ مجھے طعنہ کیوں دیں گے لیکن اگر مجھے نہیں دیا تو کس کو دیا ہے؟ کیا مطیع اللہ جان، ابصار عالم اور اسد طور کو طعنہ دیا ہے؟ کیا ان میں سے کسی نے پاکستان چھوڑا ہے؟ پھر میں نے بڑے سخت لب و لہجے میں 28 مئی کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر ایک تقریر کی اور مجھ پر پابندی لگا دی گئی۔ پابندی کے بعد فواد نے ایک دن مجھے فون کیا اور کہا کہ آپ اتنی سخت باتیں نہ کیا کریں۔ میں نے کہا آپ بھی غصہ دلانے والی باتیں نہ کیا کریں۔ تھوڑے دن بعد انہوں نے قومی اسمبلی میں ایک تقریر کر دی اور کہا کہ کچھ لوگ غیرملکی اخبارات میں پاکستان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہاں بہت سینسرشپ ہے اور یہ سب ایک بیرونی ایجنڈا ہے۔

 میں نے فواد صاحب سے کہا کہ جناب اگر مجھ پر پابندی ہے تو میں کیسے کہہ دوں کہ مجھ پر پابندی نہیں؟ فواد صاحب نے جواب میں کہا کہ ان کا اشارہ میری طرف نہیں بلکہ عائشہ صدیقہ کی طرف تھا۔ اگر اشارہ عائشہ صدیقہ کی طرف بھی تھا تو کیا ان کے خلاف آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے؟ کچھ دن بعد انہوں نے ڈان نیوز پر عارفہ نور کے پروگرام میں یہی بات دہرائی اور اب انہوں نے چھ جولائی کو ایک ٹویٹ کیا ہے، جس میں فرمایا ہے کہ ایک سازش کے تحت پاکستان میں آزادی اظہار پر بندش کا بیانیہ دیا جا رہا ہے تاکہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف اور اس جیسے دیگر ریگولیٹری نیٹ ورکس میں لایا جائے۔

 فواد صاحب کے اس ٹویٹ پر مجھے بہت سے صحافی دوستوں نے پوچھا کہ کیا آپ پر پابندی ختم ہو گئی ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں تو، پھر انہوں نے مجھے فواد چودھری کی ٹویٹ کے سکرین شاٹ بھیجے۔ میں یہ ٹویٹ پڑھ کر ہنس دیا۔ فواد چودھری کو اچھی طرح پتا ہے کہ پاکستان میں میڈیا آزاد نہیں ہے اور پچھلے تین برسوں کو اکثر صحافی پرویز مشرف کے نو برسوں سے زیادہ برا کہتے ہیں۔ لیکن وہ سینسر شپ سے انکار کر رہے ہیں۔ یہ ان کی سیاسی مجبوری ہے یا منصب کا تقاضا لیکن ان کے ٹویٹ سے پتا چل گیا کہ کہیں نہ کہیں پاکستان میں میڈیا پر لگنے والی پابندیوں پر تحفظات کا اظہار ضرور کیا جا رہا ہے۔ میں بار بار اپنی مثال پیش نہیں کرنا چاہتا۔ پورا پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ مجھ پر کس نے کیوں پابندی لگوائی ہے لیکن فواد صاحب یہ بتائیں کہ سما ٹی وی کے اینکر ندیم ملک کو ایف آئی اے نے کس کے کہنے پر نوٹس جاری کیا؟ ندیم ملک نے اپنے لائیو شو میں کہا کہ میں ایف آئی اے کے سامنے پیش نہیں ہوں گا، جس نے گرفتار کرنا ہے کر لے۔

ندیم ملک تیس سال سے صحافت کر رہے ہیں۔ وہ ایک قابل احترام صحافی ہیں۔ کیا ایف آئی اے والے جا کر خود ان سے مدد طلب نہیں کر سکتے تھے؟ نوٹس کا مطلب صرف ڈرانا دھمکانا تھا۔ یہ سلسلہ ڈاکٹر شاہد مسعود کی گرفتاری سے شروع ہوا تھا، پھر مطیع اللہ جان کو اغوا کیا گیا۔ پھر ابصار عالم پر قاتلانہ حملہ ہوا اور پھر اسد طور کو گھر میں گھس کر مارا گیا۔ اگر یہ سب کوئی سازش تھی تو آپ سازش کرنے والوں کو بے نقاب کیوں نہیں کرتے؟

 فواد چودھری کے سارے بیانات ان صحافیوں کے خلاف ہیں، جنہیں مارا گیا یا اغوا کیا گیا یا جن پر پابندی لگائی گئی۔ وہ طلعت حسین کو صحافی نہیں مانتے کیوں کہ وہ اب ٹی وی پر نہیں آتے۔ اس لحاظ سے تو اب یہ ناچیز بھی صحافی نہیں کیونکہ میرے ٹی وی پر آنے پر بھی پابندی ہے۔ ذاتی تعلق اور ادب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے فواد چودھری سے عرض ہے کہ سازش وہ صحافی نہیں کر رہے، جن کو مار پڑتی ہے یا جن پر پابندی لگتی ہے۔ سازش کا حصہ وہ لوگ ہیں، جو پابندیاں لگاتے ہیں اور ان پابندیوں کے نتیجے میں صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) عمران خان اور نریندر مودی کو آزادی صحافت کے 37 عالمی دشمنوں کی فہرست میں شامل کر دیتی ہے۔ اب اگر آپ آر ایس ایف کو ایک جعلی تنظیم کہیں گے تو یہ چاند پر تھوکھنے کے مترادف ہے۔ ہر سال یہی تنظیم ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس جاری کرتی ہے اور جس میں پاکستان پچھلے تین سال میں چھ درجے نیچے گر چکا ہے۔

بھارت تین سال میں چار درجے نیچے آیا ہے۔ جس مودی کو عمران خان ہٹلر کہتے تھے آج ان کا نام اسی ہٹلر کے ساتھ لیا جا رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کو اس فہرست میں لانے کے لیے کچھ لوگوں نے بڑی محنت کی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ فواد چودھری بھی محنت کرنے والوں میں شامل ہیں لیکن وہ محنت کرنے والوں کے ترجمان ضرور بن گئے ہیں۔ پاکستان کے خلاف اصل سازش انہی محنتی لوگوں نے کی ہے۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments