تو یہ ہیں اپنے دلیپ صاحب


مارلن برانڈو کے اکیاون سالہ فلمی کرئیر میں انیس سو پچاس کی ”دی مین“ سے لے کر دو ہزار ایک میں ”دی اسکور“ تک چالیس فلمیں ریلیز ہوئیں۔ سینتالیس فلمیں مکمل نہ ہو پائیں یا برانڈو نے ان میں کام کرنے کی پیش کش ٹھکرا دی۔ مگر بالی وڈ کا کیلنڈر بدل گیا۔ مارلن برانڈو سے پہلے مارلن برانڈو کے بعد ۔

سات جولائی کو امتیابھ بچن نے ٹویٹ کیا ”آج کے بعد ہندی فلمی صنعت یوں یاد رکھی جائے گی۔ دلیپ کمار سے پہلے۔ دلیپ کمار کے بعد“ ۔ عمران خان کی ٹویٹ تھی ”میری نسل کے لیے وہ سب سے عظیم و بے مثال اداکار تھے“ ۔ نریندر مودی نے ٹویٹ کیا ”یہ ہم سب کے لیے بہت بڑا ثقافتی دھچکہ ہے“ ۔

گویا بھارت اور پاکستان کے مابین ہر شے کا بٹوارہ ہو گیا مگر دلیپ صاحب کی قدردانی اور پذیرائی ناقابل تقسیم ٹھہری۔

سرحد کے دونوں جانب کئی اداکار ہیں جن کی بنیادی وجہ شہرت ہی یہ ہے کہ ان کی فلموں کی تعداد تین سو سے اوپر ہے۔ مگر مارلن برانڈو کی طرح دلیپ صاحب کے چون سالہ فلمی کرئیر میں انیس سو چوالیس کی ”جوار بھاٹا“ سے انیس سو اٹھانوے میں بننے والی فلم ”قلعہ“ تک محض تریسٹھ فلمیں ہیں۔ ہر فلم میں ان کی کردار نگاری نے ایسی پکی چھاپ چھوڑ دی کہ کوئی اس کے سحر سے کم از کم اب تک تو نہیں نکل پایا۔

دلیپ صاحب خود کو اداکار نہیں کردار نگار سمجھتے تھے۔ انیس سو انہتر میں بی بی سی ہندی کو انٹرویو دیتے ہوئے صرف تیرہ منٹ میں دلیپ کمار نے بتا دیا کہ ٹائپ اداکاری اور کردار نگاری میں کیا فرق ہے۔

” طرح طرح کے کردار نبھانے کا چیلنج ایک طرح کی ڈرل ہے۔ اس سے نہ صرف کردار بلکہ فن کار اور اس کا ہنر بھی مسلسل منجھتا ہے۔ ایک ہی ڈھنگ کے کردار نبھانے کامطلب ایک ہی ڈھنگ کی شخصیت کی ہر فلم میں بار بار رونمائی کے سوا کیا ہے۔

جب مجھے کوئی کردار ملتا ہے تو میں ایسے نہیں سوچتا کہ یہ کوئی دوسرا آدمی ہے۔ اگر ہدایت کار نے مجھے کوئی ایسا کردار دیا جس کی کہانی تیس برس کی عمر سے شروع ہوتی ہے۔ تو میں سوچتا ہوں کہ اس کردار کے پچھلے انتیس برس کیسے گزرے ہوں گے۔ ظاہر ہے اس کی تفصیل کوئی نہیں جانتا۔ لہٰذا مجھے کہانی کے ڈھانچے کے مطابق اس کردار کا انتیس برس کا ڈیٹا خود تیار کرنا پڑتا ہے تاکہ اس کے بارے میں بنیادی واقفیت ہو جائے۔ چنانچہ تیس برس کی عمر کے کردار کی پیدائش سے لے کر اب تک کی زندگی کا ڈیٹا بنانا پڑتا ہے۔ اس کردار کی زندگی میں جو ممکنہ حادثات و اتفاقات آسکتے ہیں انھیں خود ایجاد کرنا پڑتا ہے۔

بعض ڈائریکٹر ایسے بھی ہوتے ہیں جو ایکٹر کو وہی کردار دیتے ہیں جو اس کی ذاتی شخصیت کے اریب قریب کا ہو۔ ان میں سے کچھ ایکٹر اس کردار سے متعلق ڈائریکٹر کے تصور سے آگے بڑھ کر اس کی اور بہتر انٹرپریٹیشن کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ مگر یہ کام وہی کر سکتا ہے جسے اپنی فنی صلاحیت پر پورا اعتماد اور عبور ہو۔ ایسا کوئی لگا بندھا اصول نہیں کہ محض ایک اداکار ہی اپنی کردار کی اچھی تشریح کر سکتا ہے یا کوئی اچھا ڈائریکٹر ہر اداکار سے اچھا کام نکلوا سکتا ہے۔

اکثر ڈائریکٹر مجھے کوئی بھی کردار دے کر اس کی تشریح مجھ پر چھوڑ دیتے ہیں۔

مثلاً ڈائریکٹر کہتا ہے کہ یہ للیتا پوار نامی ایکٹر تمہاری ماں ہے اور مر گئی ہے۔ اب آگے تم جانو اور تمہارا کردار جانے۔ میری ہر شعوری فیکلٹی جانتی ہے کہ للیتا پوار میری حقیقی ماں ہرگز نہیں ہے۔ یہ مری بھی نہیں بلکہ زندہ ہے۔ اس نے ابھی ابھی میرے سامنے کھانا کھایا ہے۔ یہ بالکل نارمل انداز میں چل پھر رہی تھی۔ اور جیسے ہی شاٹ مکمل ہو جائے گا تو پھر اٹھ کے چلنے لگے گی۔ اب میں خود کو کیسے یقین دلاؤں کہ یہ میری ماں ہے۔

چنانچہ میں شاٹ دینے سے پہلے سوچتا ہوں اگر یہ واقعی تمہاری ماں ہوتی اور واقعی مر چکی ہوتی تو پھر تم کیسے ری ایکٹ کرتے؟ پھر میں اپنی اصل ماں کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتا ہوں۔ یعنی اس سچویشن کو زندگی دینے کے لیے کبھی براہ راست اور کبھی بلاواسطہ اپنے حقیقی جذبات سے رابطہ استوار کرنا پڑتا ہے اور یوں ایک فرضی کردار آپ کو مغلوب کر لیتا ہے اور اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔

فلم میں جو محبت دکھائی جا رہی ہے وہ دراصل ہے ہی نہیں، جدائی جدائی نہیں اور غصہ غصہ نہیں۔ مگر جو فن کار ہے وہ بنا لیتا ہے موج خون دل سے چمن اپنا۔

فلم میں کوئی ایک اداکار تو ہوتا نہیں۔ ان میں سے کچھ تجربے کار ہوتے ہیں اور کچھ اتنے ماہر نہیں ہوتے۔ کچھ صرف ایک خاص ڈھب سے ہی ہر کردار نبھانے کے عادی ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان سب کو ایک ساتھ کام کرنے کے لیے بہت سے عناصر کو ایک دوسرے کے لیے ہموار کرنا پڑتا ہے۔ اچھے ڈائریکٹر یہ کام فن کاروں پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ کس طرح فلم کے ہر سین میں اپنا ردھم بناتے ہیں۔ اس کے لیے ہم میں سے ہر ایک کو کئی بار اپنا کمفرٹ زون چھوڑ کر سین کی ضرورت کے مطابق اپنی شخصی ایڈجسٹمنٹ اور ری ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑتی ہے۔

اب جیسے فلم گنگا جمنا، رام اور شیام اور آدمی کے کئی مناظر مجھے خود ہی اپنے لیے ڈائریکٹ اور ایڈٹ کرنا پڑے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں خود کو ڈائریکٹر سمجھنے لگوں۔ یعنی یہ ایک ٹیم ورک ہے۔

میرا ماننا ہے کہ اگر آپ ایک اچھے فن کار ہیں مگر ذاتی زندگی میں ایک مکروہ شخصیت ہیں تو آپ کی فنی شہرت دو کوڑی کے برابر ہے۔ اگر آپ کے پاس صرف فلمی امیج ہے اور کوئی ذاتی خوبی لوگوں کے سامنے نہیں تو پھر آپ کتنی دیر تک اس امیج کے سہارے چل سکتے ہیں؟

فلمی شہرت دراصل ایک دل فریب دھوکا اور کیفیت ہے۔ جتنا یہ لطف دیتی ہے اتنی ہی خطرناک بھی ہے۔ اگر آپ اس راز سے خود کو مسلسل شعوری طور پر باخبر نہیں رکھ سکتے تو پھر یہ بہت مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ لہٰذا خود کو متواتر بتاتے رہنا چاہیے یہ وہ نہیں ہے جو تو سمجھ رہا ہے ”۔

تو یہ تھے اور ہیں اپنے دلیپ صاحب۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments