زراعت، کپاس اور ملوں کے چرخے


ایک زرعی سائنسدان ہیں، ڈاکٹر اقبال بندیشہ۔ کپاس پر تحقیق کے حوالے سے بڑا نمایاں نام ہے۔ وہی کپاس جسے یونانیوں نے پنجاب میں دیکھا تو تعجب کیا، وہی کپاس جسے دیوندرستیارتھی نے اپنی کویتا میں روشن کیا تو لفظ دمکنے لگے، جس پر شاکر شجاع آبادی نے کہا: تینڈے نازک پیر کپاہ ورگے اے خاک تے نہیں ساڈے ہاں تے رکھ ڈاکٹر اقبال بندیشہ نے 2006۔ 7 ء میں ایک نان بی ٹی بیج متعارف کرایا۔ پاکستان میں زرعی سائنسدان اور ماہرین کو نجی سیکٹر کی مدد حاصل نہیں ہوتی۔

اس وجہ سے یہ قابل قدر لوگ ذاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اقبال بندیشہ کو جمشید چیمہ جیسا قدر دان مل گیا۔ بی ٹی کاٹن سیڈ سے مراد ایسا بیج ہے جس کو جنیاتی اعتبار سے کیڑے اور بیماریوں کے خلاف مزاحمت کے قابل بنایا گیا ہو۔ بی ٹی کاٹن ٹینڈے کی سنڈیوں سے مقابلہ کر سکتی ہے۔ اس کی مخالفت اس وجہ سے ہوتی ہے کہ بھارت میں بی ٹی کاٹن کاشت کرنے والے کسانوں کو سنڈیوں سے تو نجات مل گئی لیکن نئی بیماریوں سے مقابلہ کے لئے انہیں مہنگی ادویات خریدنا پڑیں۔

36 کے قریب کسانوں نے پیداواری لاگت پوری نہ ہونے اور قرض چڑھنے پر خودکشی کر لی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بی ٹی کاٹن کا نام لیتے ہی تشویش پیدا ہو جاتی ہے۔ ان حالات میں کوئی کسی شخصیت یا کمپنی پر بی ٹی کاٹن کا بیج فروخت کرنے اور پھر کسانوں کے نقصان کی بات کرے تو دھیان فوراً بھارت کے کسانوں کی مشکلات پر جا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر اقبال بندیشہ نے کاٹن کا نیا سیڈ جمشید اقبال چیمہ کی کمپنی کے ساتھ مل کر مارکیٹ کرنے کا منصوبہ بنایا۔

جمشید چیمہ کی کمپنی نے مارکیٹ میں بھیجنے سے پہلے خود آزمائش کی۔ ملتان کے بعد لاہور کے علاقے سندر میں اپنے تجرباتی فارم پر اس بیج کو کاشت کیا۔ بعد میں حیدر آباد اور میر پور خاص میں اس کی تجرباتی کاشت کی گئی۔ سائبان 202 کے نام سے رجسٹرڈ کرائے گئے اس بیج کو فی ایکڑ پیدوار، ریشے کی لمبائی اور کیڑوں کے حملے کے امکانات کے معیاروں پر باقی بیجوں سے بہتر پایا گیا۔ ڈاکٹر اقبال ان دنوں محکمہ زراعت سے وابستہ تھے اور جمشید اقبال چیمہ کی زرعی مصنوعات کی کمپنی کے ساتھ تحقیقی و مشاورتی خدمات فراہم کرتے تھے۔

ملتان، لاہور، حیدر آباد اور میر پور خاص میں مجموعی طور پر کمپنی نے 150 ایکڑ رقبے پر سائبان 202 کو آزمائشی طور پر کاشت کیا۔ آزمائش کا مقصد مختلف علاقوں کے درجہ حرارت، خنکی اور ماحول میں بیج کی کارکردگی کا جائزہ لینا تھا۔ کمپنی کو بیج کے معیار پر تسلی ہوئی۔ مسئلہ اس وقت آیا جب کمپنی نے دیکھا کہ کاٹن سیڈ کی مارکیٹ چار پانچ کروڑ روپے کی ہے۔ رجسٹرڈ کمپنیوں کے ساتھ نان رجسٹرڈ بے شمار کمپنیاں اور کاشت کار اپنا بیج فروخت کر رہے ہیں۔

پیسٹی سائیڈ کی مارکیٹ 80 ارب روپے کی ہے، اس میں سے جمشید اقبال چیمہ کی کمپنی کئی ارب کا سالانہ کاروبار کرتی ہے، ان کی کمپنی کو لگا کہ کاٹن سیڈ کا بزنس ان کے لئے موزوں نہیں۔ انہوں نے بیج کو مارکیٹ میں لانے کا منصوبہ یہیں روک دیا، کاروباری فیصلے اسی طرح کیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر اقبال بندیشہ نے جب کمپنی کی عدم دلچسپی دیکھی تو وہ بہاولپور یونیورسٹی چلے گئے۔ اب وہ خود اس بیج کو فروخت کرتے ہیں۔ جمشید اقبال چیمہ پی ٹی آئی کے رہنما ہیں، وزیر اعظم عمران خان نے انہیں اپنا معاون خصوصی برائے زراعت و غذائی تحفظ مقرر کیا ہے۔

پاکستان میں زراعت اس وجہ سے پسماندہ ہے کہ ہماری حکومتوں کے پاس زراعت کی بین الاقوامی جہتوں کو سمجھنے والے افراد کی کمی رہی ہے۔ کسی جماعت نے زرعی سائنسدانوں، محققین، سرمایہ کار اور اختراع پسند کو کبھی موقع نہیں دیا کہ وہ زرعی شعبے کی پسماندگی دور کرے۔ زراعت سے متعلق لکھتا رہتا ہوں، جانتا ہوں کہ پچھلے چند برسوں سے کپاس کے زیر کاشت رقبے میں کمی آئی ہے، مسلم لیگ نون کی حکومت میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی کپاس کے زیر کاشت رقبے میں کمی کو برآمدات میں کمی کی وجہ قرار دیا تھا۔

میں نے جمشید اقبال چیمہ سے زیر کاشت رقبے اور بیماریوں سے پاک کاٹن سیڈ پر تحقیق سے متعلق پوچھا تو کہنے لگے : حالیہ بجٹ میں حکومت نے زراعت کی ترقی کے لئے 62 ارب روپے رکھے ہیں۔ ان میں سے 10 ارب روپے صرف ریسرچ کے لئے مختص کیے گئے ہیں۔ کاٹن پر ریسرچ کے لئے ایک ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ نئی لیبارٹریز، جینز، جینٹکس بینک اور پہلے سے موجود لیبارٹریوں کی ری سٹرکچرنگ کے لئے 2 ارب روپے استعمال کیے جائیں گے۔ پوچھا: کپاس کی قیمت پیداواری لاگت سے کم ہو جاتی ہے، اس کا کوئی سدباب؟

جواب ملا! حکومت نے 4.5 ارب روپے اس مقصد کے لئے رکھے ہیں کہ کپاس کے نرخ اگر 5000 روپے فی من سے نیچے آنے لگیں تو ٹریڈ کارپوریشن آف پاکستان مداخلت کر کے خود خریداری کر لے۔ اس کے علاوہ کسان کو فی ایکڑ 3900 روپے کاٹن پر سبسڈی دی جا رہی ہے۔ جمشید اقبال چیمہ کا کہنا تھا کہ ٹیکسٹائل ملز مالکان کی تنظیم سے انہوں نے کہا ہے کہ کسان کو قیمت ٹھیک نہ ملنا اور ملز کو مہنگی کپاس ملنے کی وجہ درمیانی آڑھتی اور بروکر ہیں۔

ملز مالکان اپنے ماہرین کو خود خریداری کے لئے کاشت کار کے پاس بھیجیں۔ مثبت بات یہ ہے کہ اپٹما نے اس تجویز سے اتفاق کیا ہے۔ کپاس سیاست والی جنس نہیں یہ تو محبتوں کا لباس بناتی ہے۔ جمشید چیمہ کے پاس قابل عمل منصوبہ ہے جو ٹیکسٹائل کی صنعت، کسان، اور ایکسپورٹر کے لئے یکساں فائدہ بخش ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ملوں کے چرخے ایک بار پھر گھومیں گے۔ جمشید اقبال چیمہ زراعت کو سمجھتے ہیں، پی ٹی آئی اس میدان میں کامیاب ہو سکتی ہے، شاید یہی دھڑکا ہے جو ان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments