مرتضیٰ وہاب، بڑے ہو کر کیا بنو گے؟

محمد حنیف - صحافی و تجزیہ کار


ساری زندگی صحافت میں گزارنے کے باوجود سیاستدانوں سے کبھی ذاتی دوستی یا دشمنی نہیں رہی۔ کسی پریس کانفرنس میں سن لیا یا کبھی انٹرویو کرتے ہوئے حال احوال ہو گیا، شاید ہی کبھی کسی نے کوئی آف دی ریکارڈ بات کی ہو۔

ایک دفعہ الطاف بھائی نے ٹیپ ریکارڈر بند کروا کر علامہ اقبال کی شان میں گستاخی کی تھی اور ایک بار بے نظیر بھٹو نے کسی ٹی وی سٹوڈیو جاتے ہوئے اپنا پرس تھما دیا تھا اور کہا تھا کہ اس میں جھانکنے کی کوشش مت کرنا۔ میرا خیال ہے وہ مردوں کی گھٹیا عادتوں سے اچھی طرح واقف تھیں۔

سندھ کے وزیر اعلیٰ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب جب ابھی کالج میں پڑھتے تھے تو ان کے نوجوان دوستوں سے ملاقات ہوتی تھی۔ تمام انکلوں کی طرح مجھے نوجوانوں سے بات کرنے کا ایک ہی طریقہ آتا تھا کہ بیٹا بڑے ہو کر کیا بنو گے۔ آج کل میں یہ بھی نہیں پوچھتا کیونکہ بعض دفعہ نوجوان یہ بھی پوچھ لیتے ہیں کہ مجھے چھوڑیں آپ بتائیں بڑے ہو کر کیا بنیں گے۔

مرتضیٰ وہاب کا جواب مجھے اچھی طرح یاد ہے کیونکہ میں نے کبھی اتنا سیدھا اور مختصر جواب نہیں سنا۔ اس نے کہا کراچی کا میئر۔

ایک اچھے انکل کی طرح مجھے اس کے جواب پر خوشگوار حیرت بھی ہوئی اور تھوڑی سی فکر بھی۔ میری عمر کے اور کلاس کے جو نوجوان سیاست میں جانا چاہتے تھے، وہ زیادہ سے زیادہ ایم پی اے یا ایم این اے بننا چاہتے تھے۔ ایک سندھی صحافی دوست تھا اس کا خواب سندھ کا وزیر اعلیٰ بننا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ وزیراعظم کیوں نہیں بننا چاہتا۔ شاید اسے بھی سمجھ نہیں آتی تھی، بس سندھ کے وزیر اعلیٰ کو دیکھ کر لگتا تھا کہ اگر یہ بن سکتا ہے تو میں کیوں نہیں۔

مجھے نوجوان مرتضیٰ وہاب کے جواب سے اس لیے خوشگوار حیرت ہوئی کہ اگر سیاست واقعی طاقت اور خدمت کا امتزاج بنے تو کراچی کے مئیر سے زیادہ اہم رتبہ پاکستان میں تو نہیں ہو سکتا۔ گلی محلے کی سطح پر لوگوں کے مسئلے حل کرو اور دعائیں اور ووٹ سمیٹو لیکن ایک دانشور انکل کے طور پر میں نے نوجوان مرتضیٰ کو سمجھایا کہ کراچی ایم کیو ایم کا شہر ہے۔ تم اپنی والدہ کے حوالے سے پی پی پی میں جاؤ گے نہ کبھی پی پی پی کراچی کے بلدیاتی انتخاب جیتے گی نہ تم میئر بنو گے۔

اب شنید ہے کہ مرتضی وہاب کراچی کے ایڈمنسٹریٹر بننے جا رہے ہیں جو ہمارے ہاں تقریباً میئر ہی ہوتا ہے۔ تو اپنے پیارے نوجوانوں جب زندگی میں کچھ کرنے کا سوچو تو دانشور انکلوں کی باتوں پر کبھی یقین نہ کرنا۔

کراچی کے شہری کے طور پر میں نے فاروق ستار جیسے نرم خو مئیر نہیں دیکھے جنھیں اب مشاعرے کی صدارت کے لیے بھی کوئی نہیں بلاتا۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی ایک نوجوان ایڈمنسٹریٹر فہیم زمان کو لائی تھی جو اب کبھی کبھی شاندار تحقیقاتی صحافت کرتے ہیں، کبھی بھنا کے پولیس والوں سے پوچھتے ہیں کہ تم جانتے نہیں میں کون ہوں۔

ایک دفعہ کراچی میں وہ دن بھی تھا کہ شہری اٹھے تو ہر سڑک، ہر چوک پر بینر لگے تھے کہ مصطفیٰ کمال پوری دنیا میں میئروں کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر آئے ہیں۔ کراچی والوں نے کہا کہ ہمیں تو پہلے ہی پتا تھا کہ یہ دو نمبر میئر ہے۔ وہ پہلے الطاف بھائی کو پپی دے کر ووٹ لیتے تھے پھر انھوں نے الطاف بھائی کو شرابی اور غدار کہہ کر ووٹ لینے کی کوشش کی۔ کراچی والوں نے کہا جس دنیا نے تمھیں دو نمبر میئر چنا تھا اب وہیں جا کر ووٹ مانگو۔

کراچی کے زوال کا سفر فہیم زمان یا فاروق ستار کے میئر بننے سے شروع نہیں ہوا بلکہ شاید یہ پہلے سے جاری تھا لیکن میں نے ہر میئر کے آنے اور جانے کے بعد سوچا کہ ایک کتاب لکھی جائے کہ میں نے کراچی ڈوبتے دیکھا۔

اگر لکھ دی ہوتی تو اب تک اس کا پانچواں ایڈیشن آ چکا ہوتا لیکن زیادہ تر وقت اس انتظار میں گزر گیا کہ پانی کا ٹینکر کب آئے گا اور کتنے کا آئے گا کیونکہ جس شہر کے ایڈمنسٹریٹر بن کر مرتضیٰ وہاب اپنا پچپن کا خواب پورا کرنے جا رہے ہیں وہاں شہریوں کے حصے کا پانی چرا کر ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن جیسے علاقوں کو دیا جاتا ہے اور پھر وہاں سے کچھ چرا کر ہمیں بیچا جاتا ہے۔

یہاں شہر کے ایک طرف سمندر میں کچرا ڈال کر اپنی جھونپڑیاں بنا لیتے ہیں اور اسے تجاوزات کہا جاتا ہے، کلفٹن میں سمندر میں مٹی ڈال کر فلیٹ بنائے جاتے ہیں جو آٹھ دس کروڑ کے بکتے ہیں اور اسے ڈویلپمینٹ کہا جاتا ہے۔

مرتضیٰ وہاب کو ان کے خواب کی تعبیر مبارک لیکن انھیں ووٹ اور دعائیں تب ہی ملیں گی جب ہمارے نلکوں سے روٹھا ہوا پانی واپس آئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).